وزیراعظم مودی سے لے کر وزیر زراعت اور وزیر فنانس سے لے کر نیتی آیوگ کے چیف اگزیکیٹیو آفیسر یہاں تک کہ بی جے پی کے صدر سے لے کر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان سب کے سب ایک ہی لاگ الاب رہے ہیں۔ ا یک ہی نہج پرچل رہے ہیں۔ ان کا انداز بیان بھی ایک جیسا ہی ہے۔ ان لوگوں کی دلیل ہے کہ کسان اے پی ایم سیز سے بندھے ہوئے تھے اور اب وہ اے پی ایم سیز کے باہر اپنی پیداوار فروخت کرنے کیلئے آزاد ہیں۔ وزیراعظم ، وزیر زراعت ، وزیر فنانس ، نیتی آیوگ کے سی ای او اور مودی و بی جے پی کے حامی زرعی قوانین کی تائید و حمایت میں دعوے تو بہت کر رہے ہیں لیکن ان دعوؤں و دلیلوں کی تائید میں ان کے یہاں کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔انفوسس کے شریک بانی مسٹر نارائن مورتی کے بارے میں یہ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہم خدا پر بھروسہ رکھتے ہیں لیکن ہر چیز کیلئے ڈیٹا بتائے یا ڈیٹا پیش کیجئے صرف دعوؤں سے کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ ہر ذی ہوش ہندوستانی، مودی جی اور ان کے وزراء سے لے کر حامیوں سے ایسا ڈیٹا طلب کر رہا ہے جو ناقابل تردید ہو۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر ڈیٹا کیا دکھاتا ہے۔ ڈیٹا یہ بتاتا ہے کہ ہمارے ملک کے 86 فیصد کسان چھوٹے کسان ہیں جو 2 ہیکڑ اراضی سے بھی کم اراضی کے حامل ہیں۔ زرعی مردم شماری کے مطابق فارم ہولڈنگ کو تقسیم کیا جارہا ہے جبکہ مذکورہ مردم شماری میں یہ بھی بتایا گیا کہ فارم ہولڈنگز کی تعداد ا-11 2010 میں 138 ملین تھی جو 16- 2015 ء میں بڑھ کر 146 ملین ہوگئی۔ ڈیٹا میں یہ بھی بتایا گیا کہ جو چھوٹے کسان ہیں ان کے یہاں فروخت کیلئے بہت کم فاضل اناج پایا جاتا ہے۔ اس لئے وہ اپنی ہنگامی گھریلو ضروریات کی تکمیل کیلئے حاصل کردہ قرض کی ادائیگی کیلئے دھان ، گیہوں کے چند تھیلے فروخت کریں گے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ صرف 6 فیصد کسان ہی اپنی زرعی پیداوار اے پی ایم سی مارکٹ یارڈس میں فروخت کرتے ہیں جبکہ باقی 94 فیصد کسان اپنی پیداوار APMC کے باہر فروخت کرتے ہیں اور اس پیداوار کی زیادہ تر فروخت مقامی تاجرین یا پھر انجمن امداد باہمی یا پروسیسر کو عمل میں لائی جاتی ہے۔ آپ کو بتادوں کہ جنوبی ہند کی اہم ریاست کیرالا میں APMCs نہیں ہیں اس کے علاوہ سوائے چندی گڑھ کے دوسرے مرکزی زیر انتظام علاقوں میں بھی اے پی ایم سیز کی سہولت نہیں ہے۔ آپ کی معلومات کیلئے میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اے پی ایم سیز صرف چند شمال مشرقی ریاستوں میں کام کر رہے ہیں۔ بہار جیسی ریاست نے چند سال قبل ایم پی ایم سیز ایکٹ کو منسوخ کردیا۔ ان ریاستوں میں زرعی پیداوار کی مارکیٹنگ اے پی ایم سیز کے باہر ہی ہوتی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ہریانہ میں اے پی ایم سیز کی تعداد 1.6 پنجاب میں 145 (معہ کئی ذیلی یارڈس) ٹاملناڈو میں 283 ہے جبکہ پنجاب اور ہریانہ میں جس گیہوں اور دھان کی پیداوار ہوتی ہے اس میں سے 70 فیصد دھان اور گیہوں حکومت کی ایجنسیاں خرید لیتی ہیں۔ (زیادہ تر فوڈ کارپوریشن آف انڈیا خرید لیتا ہے) جہاں تک اے پی ایم سیز کے ٹاملناڈو میں جملہ کاروبار کا سوال ہے اس ریاست میں تمام زرعی پیداوار کا ٹرن اوور سال 2019 میں 129.76 کروڑ روپئے رہا۔ اہم بات یہ ہے کہ مہاراشٹرا میں ایک کسان کو APMC یارڈ تک پہنچنے کیلئے اوسطاً 25 کیلو میٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ آیا کسی ریاست میں اے پی ایم سیز ہوں یا نہ ہوں اور ایم پی ایم سیز قابل رسائی ہوں یا کافی دور فاصلے پر واقع ہوں ، حقیقت یہ ہے کہ 94 فیصد کسانوں کیلئے اپنی زرعی پیداوار اے پی ایم سی کے باہر فروخت کرنے کے کوئی اور چارہ کار نہیں رہتا اور وہ بحالت مجبوری بے قاعدہ ماحول میں اپنی پیداوار فروخت کرتا ہے۔ ان حالات میں وزیراعظم نریندر مودی سے لے کر ان کی پارٹی بی جے پی کے ترجمان یہ وضاحت کرنے سے قاصر ہیں کہ آخر کسانوں کو اے پی ایم سی اور درمیانی آدمیوں کے سامنے مجبور و لاچار اور بے بس کے طور پر کیوں پیش کیا جارہا ہے۔ وزیراعظم اور بی جے پی والے کہتے ہیں کہ نئے زرعی قوانین کسانوں کو ایک اعلیٰ انتخاب دیتے ہیں۔ امکان فراہم کرتے ہیں۔ مواقع جو پہلے کبھی نہیں تھے۔ تاہم ٹی وی اور بی جے پی والوں کے دعوے ڈیٹا سے صحیح ثابت نہیں ہوتے، نئے زرعی قوانین دراصل موجودہ صورتحال با موقف کو اس کی لاکھ خرابیوں کے باوجود قوت فراہم کرتے ہیں۔ میں کسان کو مواقع یا امکانات اور پسند و ناپسند کا حق دیئے جانے کی تائید و حمایت کرتا ہوں (جبکہ ہر وقت عوام کو بیوقوف بنایا جارہا ہے) انڈین ایکسپریس مورخہ 27 ستمبر 2020 ء )۔ میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ اے پی ایم سیز کو عملاً مرحلہ وار انداز میں برخواست کیا جانا چاہئے۔ اگرچہ یہ کسانوں کے ایک گوشے کو تحفظ کا جال فراہم کرنے کے مقصد سے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ اے پی ایم سیز میں تجارتی تحدیدات یاحدود پائی جاتی ہیں اور اے پی ایم سیز کامل مارکیٹس نہیں ہوتے۔ یہ تمام کسانوں کی خدمت نہیں کرتے بلکہ بعض صورتوں میں تاجرین اور درمیانی افراد کے کنٹرول میں ہونے کے باعث کسانوں کیلئے نقصاندہ ہوتے ہیں لیکن اے پی ایم سیز کو مرحلہ وار انداز میں کئے جانے سے قبل کسانوں کو حقیقی مواقع دینا ضروری ہے اور یہ مواقع ہزاروں بڑے گاؤں ، چھوٹے چھوٹے ٹاونز میں واقع متبادل مارکٹوں کی تعداد میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ یہ متبادل مارکیٹس کسانوں کیلئے بآسانی قابل رسائی ہوں جبکہ ان میں ریاستی حکومتیں اناج کے وزن اور قیمت کو باقاعدہ بنائے۔ مودی حکومت کے یہ نئے قوانین ہزاروں متبادل مارکیٹس کی تخلیق نہیں کرتے ، اس کے متضاد ان قوانین سے خانگی تاجرین بشمول صنعتی گھرانوں کو اجازت دیتے ہوئے خانگی معاہدات کو ختم کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔ ان قوانین کا مقصد تنازعات کے حل کا ایسا میکانزم تیار کرنا ہے جو حکومت کی مرضی کے مطابق اس کے مفادات کی تکیبانی کرے۔