لداخ میں چینی فوج کے ہاتھوں پٹائی کے بعد بھارتی افواج پسپا ہو گئیں۔ بھارتی فوج کی جانب سے لداخ میں حقیقی لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی پر جھڑپیں ہوئیں جن میں ڈنڈوں اور پتھروں کا آزادانہ استعمال کیا گیا۔ جھڑپوں میں دونوں اطراف کے 100فوجیوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ بھارت کے اپنے تمام ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں۔ نیپال‘ بھوٹان‘ چین ‘ سری لنکا‘ بنگلہ دیش اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی بھارت کا دیرینہ مشغلہ ہے۔لیکن اب چین اور بھارت کے مابین سرحدی تنائو بڑھتا جا رہا ہے، اس معاملے میں بھارتی اور چینی فوجیوں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیں جن کے بعد بھارتی آرمی چیف نے نریندر مودی کو بریفنگ بھی دی ہے۔ درحقیقت بھارت اپنے تمام ہمسائیوں کے ساتھ امن و سکون کے ساتھ رہنا نہیں چاہتا۔ اب بھی دریائے گالوان (وادی) میں بھارتی افواج نے قبضہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارت مئی کے آغاز سے ہی وادی گالوان میں سرحد عبور کر کے چینی سرزمین میں داخل ہو رہا ہے۔ یہ علاقہ اکسائی چن میں ہے جبکہ گالوان وادی لداخ اور اکسائی چن کے درمیان سرحد کے قریب واقع ہے۔ یہیں سے لائن آف ایکچوئل کنٹرول دونوں ممالک کو علیحدہ کرتی ہے۔ اکسائی چن جنوبی سنکیانگ اور لداخ تک پھیلاہوا ہے۔1962ء کی جنگ کے دوران دریائے گالوان کا یہ علاقہ جنگ کا مرکز تھا، اسی بنا پر بھارت اس علاقے کو اپنے ملک میں شامل کرنے پر بضد ہے۔1958ء میں چین نے اکسائی چن میں ایک سڑک تعمیر کی تھی جو شاہراہ قراقرم سے ہوتی ہوئی پاکستان کی طرف آتی ہے۔ سی پیک منصوبے سے اس سڑک کی افادیت اور بڑھ چکی ہے اسی بنا پر چینی اس علاقے سے کسی صورت بھی دستبردار نہیں ہونا چاہتے۔ عالمی ماہرین کے مطابق اس علاقے پر چین کی پوزیشن مستحکم ہے اور وہ بھارت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ گزشتہ روز بھارتی افواج چینی فوج کا مقابلہ کرنے کی بجائے ایک بینر لہرا کر ان سے علاقہ خالی کرنے کی اپیل کرتی نظر آئی ہیں۔ہندو بنیے کی خصلت میں یہ شامل ہے کہ پہلے وہ مخالف پر دبائو ڈالنے کی کوشش کرتا ہے لیکن جب مخالف اپنے موقف پر ڈٹ جائے تو پھر منت سماجت پر اتر آتا ہے۔نیپال کے ساتھ بھی بھارت کا سرحدی تنازعہ نیا نہیں ہے ، بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد جو نقشہ جاری کیا تھا اس پر بھی نیپال نے تحفظات کا اظہار کیا تھا، اس نقشے میں کالا پانی علاقے کو بھارتی ریاست اتراکھنڈ کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ اس نقشے کی اشاعت کے بعد نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے تھے۔ کالا پانی بیس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔1962ء کی بھارت چین جنگ کے بعد بھارت نے یہاں پر اپنی افواج تعینات کر دی تھی اب بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے لپو لیکھ کے قریب سے گزرنے والی اتراکھنڈ مانسرور روڈ کا افتتاح کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے مابین کشیدگی عروج پر پہنچ چکی ہے اس وقت نیپال میں بھی بھارت مخالف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔بھوٹان کے ساتھ بھی بھارت کا رویہ درست نہیں۔ بھارت بھوٹان کے سرحدی علاقے ڈوکلام پر اپنا قبضہ مستحکم چاہتا ہے کیونکہ دفاع کے حوالے سے یہ علاقہ بھارت کے لئے بہت ہی اہم ہے لیکن حالیہ برسوں میں بھوٹان کے چین کے ساتھ تعلقات مضبوط ہوئے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ بھوٹان میں چینی مصنوعات کھلونے‘ مشینری‘ سیمنٹ اور الیکٹرانکس کے سامان کی بھرمار ہے، اس لحاظ سے بھوٹان چین کے لئے تیسرا بڑا ملک بن گیا ہے جہاں پر مختلف مصنوعات اس کی داخلی منڈیوں میں دستیاب ہیں۔ یہی بات بھارت کے لئے باعث تکلیف ہے کیونکہ اگر بھوٹان کی منڈیوں پر بھی چین کا اثرورسوخ قائم ہو گیا تو پھر بھارتی مصنوعات کو کون خریدے گا۔ اس لئے بھارت بھوٹان کے ساتھ بھی تعلقات کو بگاڑ رہا ہے ۔ سری لنکا کے اندرونی معاملات میں بھارت ایک عرصے تک دخل اندازی کرتا رہا، وہاں پر تامل ٹائیگرز کی مدد کر کے سری لنکا کو غیر مستحکم کیاگیا ، جبکہ بنگلہ دیش میں بھی بھارت کی دخل اندازی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ حسینہ واجد کے دور سے قبل بھارت وہاں کھلم کھلا مداخلت کرتا نظر آتا تھا جبکہ پاکستان کے ساتھ بھی بھارت کے تعلقات کبھی ٹھیک نہیں ہوئے۔ بھارت نہ صرف پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرتا ہے بلکہ بلوچستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کی بھی مدد کرتا نظر آتا ہے۔ اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا غاصبانہ قبضہ دنیا کے سامنے ہے۔ بھارت نے 2019ء میں مقبوضہ وادی کی خصوصی حیثیت ختم کر کے اپنا قبضہ مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے آج بھی بھارت نہ صرف مقبوضہ کشمیر میں بلکہ اپنے ملک کے اندر بھی کورونا کی آڑ میں مسلمانوں اور کشمیریوں سے تعصب برت رہا ہے ۔ در اصل بھارت سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لئے اس خطے میں گھنائونے کھیل کھیل رہا ہے جو نہ صرف بھارت بلکہ اس خطے کے بھی مفاد میں نہیں۔ عالمی برادری کو بھارت کی ہمسائیوں کے ساتھ لڑائی کا سختی سے نوٹس لینا چاہیے کیونکہ بھارت اپنے ہمسائیوں کے وسائل پر قبضے کی کوششوں میں ہے ،کوئی بھی ایسا ہمسایہ نہیں جس کے ساتھ بھارت نے لڑائی نہ مول لے رکھی ہو۔ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد تو بھارت نے ہمسائیوں کے ساتھ لڑائیاں مزید تیز کر دی ہیں۔ اس لئے اگر عالمی برادری نے بھارت کی بڑھتی جارحیت کا نوٹس نہ لیا تو یہ خطہ ایٹمی جنگ میں بدل سکتا ہے۔ جس کا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑے گا۔ چینی فوج نے جس طرح بھارتیوں کی درگت بنائی ہے اگر وہ اب بھی باز نہ آیا تو اس کا حال مزید برا ہو گا۔ جس کا نتیجہ بھارت کے حصے بخرے ہونے کی صورت میں نکلے گا۔