پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھارتی جارحیت کے خلاف قرار داد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی ہے۔ قرار داد میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کشیدگی پیدا کرنے پر بھارت کی مذمت کرے اور تنائو کو ختم کرنے کے لئے کردار ادا کرے۔ یہ قرار داد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پیش کی۔ متن میں کہا گیا ہے کہ پاک فضائیہ نے بروقت کارروائی کر کے بھارتی جارحیت ناکام بنائی یہ ایوان پاک فضائیہ کی بروقت اور موثر کارروائی پر اسے خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ مشترکہ اجلاس میں ایوان نے پاکستان پر پلوامہ حملے کے الزامات کو مسترد کیا اور مقبوضہ کشمیر میں حریت قیادت کی نظر بندی و کشمیری عوام پر مظالم کی مذمت کی۔ قرار داد موجودہ حالات میں پاکستانی ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے کہتی ہے کہ پاکستان او آئی سی کا بانی رکن ہے اور بھارتی وزیر خارجہ کو شرکت کی دعوت پر بطور احتجاج او آئی سی اجلاس کا بائیکاٹ کر رہا ہے۔ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ایسے لمحات بہت کم ہیں جب پارلیمنٹ نے کسی سنگین درپیش صورت حال میں دو ٹوک اور متفقہ موقف اختیار کیا ہو۔ اس امر پر اگرچہ ایک سے زائد نکتہ ہائے نظر موجود ہیں کہ پاکستان کو او آئی سی اجلاس کا بائیکاٹ کرنا چاہیے تھا یا شرکت کر کے اپنا موقف برادر مسلم ممالک کے سامنے رکھنا ضروری تھا تاہم جب عوام کے منتخب نمائندوں نے او آئی سی اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کی شرکت پر بائیکاٹ پر اتفاق کیا تو اسے پوری قوم کی رائے سمجھا جانا چاہیے۔ پاکستانی جمہوریت کو ناپختہ اور ناتجربہ کار کہا جاتا ہے۔ ممکن ہے قانون سازی یا جمہوری انتظامیہ کی کارکردگی کے حوالے سے پہلے یہ ناپختہ ہی رہی ہو مگر اب ایک بدلی ہوئی صورت حال ہر طرف دکھائی دیتی ہے۔ چند برس قبل جب ملک میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی تو یمن کے معاملے پر پاکستان کو برادر ملک سعودی عرب کی طرف سے دبائو کا سامنا تھا۔ پاکستان جانتا تھا کہ اگر یمن میں فوج بھیجی گئی تو ہمسایہ ملک ایران سے تعلقات بری طرح متاثر ہوں گے۔ دوسری طرف سعودی عرب کے احسانات تھے۔ پاکستانی حکومت نے پارلیمنٹ سے رہنمائی لینے کا فیصلہ کیا جس پر پارلیمنٹ نے دو مسلم ممالک کے باہمی تنازع میں کسی ایک کے اتحادی کے طور پر شریک ہونے سے انکار کر دیا۔ بعد میں یہ فیصلہ درست ثابت ہوا۔ 2014ء کے آخر میں جب پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا تو دہشت گردی کے خاتمہ کی کوششوں کے طور پر پارلیمنٹ نے قابل قدر کارکردگی دکھائی۔ خصوصاً فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کچھ سیاسی جماعتوں کے لئے قابل قبول نہ تھا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان چار جنگیں ہوئی ہیں جن میں سے 1965ء اور 1971ء کی جنگیں زیادہ معروف ہیں۔1965ء میں بھارت نے جب حملہ کیا تو پاکستان کے باشندوں نے افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کام کیا۔ تین ہفتے قبل پلوامہ میں بھارتی رضا کاروں کی ہلاکت کے بعد پاکستان پر بلا سوچے سمجھے الزامات عائد کر دیے گئے۔ یہی نہیں کہ الزامات لگائے گئے بلکہ پورے بھارت میں ایک جنگی جنون طاری ہو گیا۔ پاکستان نے اس صورت حال میں تحمل کا مظاہرہ کیا۔ وزیر اعظم عمران خان کے خطاب اور تقاریر کو دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ پاکستان نے عالمی سطح پر اپنی صلاحیت ‘ قابلیت اور دور اندیشی کا سکہ منوایا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی کے دوران پاکستان کی سفارتی کوششوں کا زمانہ معترف ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جب سے یہ منصب سنبھالا ہے انہوں نے پاکستان کو تنہائی سے نکال کر دنیا کے سامنے کھڑا کیا ہے۔ امریکہ‘ جرمنی‘ فرانس‘ ترکی‘ چین ‘ روس ‘ عرب امارات ‘ اردن اور سعودی عرب کے ساتھ رابطے کر کے پاکستان کی امن کی کوششوں سے انہیں آگاہ کیا گیا۔ ترک صدر نے وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ رابطہ کر کے حمایت کا یقین دلایا جبکہ امریکی وزیر خارجہ نے بھی پاکستان کے موقف کو سراہا۔ در حقیقت گزشتہ پانچ سال کے دوران وزیر خارجہ مقرر نہ ہونے سے پاکستان کو نقصان ہوا۔ اس سے دوست ممالک سے تعلقات میں کمی واقع ہوئی جبکہ بھارت نے اس دوران عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کیا۔ اسی بنا پر او آئی سی کے اجلاس میں متحدہ عرب امارات نے پاکستان سے پوچھے بغیر صرف اپنے ذاتی تعلقات کی بنا پر بھارتی وزیر خارجہ کو مدعو کیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی امریکہ ‘ برطانیہ ‘ آسٹریلیا کے فوجی سربراہوں اور پاکستان میں تعینات امریکہ‘ برطانیہ اور چین کے سفیروں سے ٹیلیفونک رابطے کر کے انہیں پاکستان کی امن پالیسی سے آگاہ کیا۔ موثر اور بہتر سفارت کاری سے پاکستان نے دنیا کے سامنے کھل کر اپنا موقف پیش کیا ہے۔ ایسی سفارتکاری کی بدولت ہی پاکستان بھارت کو عالمی سطح پر تنہا کر سکتا ہے۔ اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کو پاکستان اور بھارت کے موقف کا جائزہ لینا چاہیے۔ وزیر اعظم عمران خان نے دو مرتبہ بھارت کو امن کی پیشکش کی اور بھارت سے یہ بھی کہا کہ پلوامہ حملے کے شواہد پاکستان کے ساتھ شیئر کرے۔ اس حملے میں پاکستان کی سرزمین استعمال ہوئی تو پاکستان ایسے عناصر کے خلاف بھر پور کارروائی کرے گالیکن بھارتی ہٹ دھرمی سے خطے کے حالاب خراب ہو رہے ہیں۔ در حقیقت بھارت بھی یہ سمجھتا ہے کہ پلوامہ حملہ مقامی لوگوں نے کیا لیکن وہ پاکستان کے ساتھ خدا واسطے کا بیر رکھتا ہے۔ اسی بنا پر وہ ہر ڈرامے کے بعد نئی کہانی سامنے لاتا ہے۔ عالمی طاقتیں اور ادارے پاکستان کے ساتھ دہرا معیار اپنانے سے گریز کریں اور زمینی حقائق کے مطابق بھارتی شرارتوں کا نوٹس لیں۔ بھارت عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونک کر خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے پر تلا ہوا ہے۔ جب بھی پاکستان امن اور مذاکرات کی بات کرتا ہے۔ تو بھارت بدکتاہے جس سے صاف نظر آتا ہے کہ وہ خطے میں امن کا خواہاں نہیں ہے۔ عالمی برادری اور اقوام متحدہ سنجیدگی سے مسئلہ کشمیر کو حل کریں۔ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا خطے کے حالات درست نہیں ہو سکتے۔