بھارت کاجنگی جنون اورہندوتوا پر مبنی سیاست اس وقت عملی طور پر پاکستان سمیت خطہ کی سیاست کے لیے ایک بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے ۔اگرچہ بھارت کا جنگی جنون ماضی میں بھی دیکھنے کو ملتاہے مگر بی جے پی اور بالخصوص نریندر مودی کی مجموعی سیاست عملا پاکستان اور مسلم دشمنی کی بنیاد پر کھڑی ہے۔انڈیاکے آرمی چیف جنرل منوج مکند نرونے 11جنوری کو دہلی میں منعقدہ اپنی پہلی میڈیا کانفرنس میں کہا ہے کہ پاکستانی کشمیرکے بارے میں انڈین پارلیمانی قرارداد موجودہے جس کے تحت پانچ اگست2019 ء سے قبل والا پورا جموں اور کشمیر ہمارا حصہ ہے اور اگر پارلیمان یہ چاہتا ہے کہ وہ علاقہ بھی کبھی ہمارا ہو اور اس قسم کا اگر کوئی حکم ہمیں ملتا ہے تو اس ضمن میں اس پر ضرور کارروائی کی جائے گی اوراسے واپس لیاجائے گا۔ انڈین آرمی چیف کی تازہ بڑھک سے پتاچلتاہے کہ انڈیامقبوضہ جموں وکشمیرکواپنی جاگیر اوراپنامفتوحہ علاقہ سمجھتاہے ،اس پرکسی بھی قسم کی بات چیت سننے کے بجائے وہ آزادکشمیر کو متنازع،حل طلب اوراپناعلاقہ سمجھتایعنی اس کے نزدیک ریاست جموں و کشمیرپر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی اداروں کی تشریح اورتفہیم کی کوئی حیثیت نہیں ۔خیال رہے کہ یہ 2020ء کے نئے سال کی پہلی دھمکی ہے۔ پلوامہ کے فدائی حملے کے بعد فوری طور پر انڈیا اور مودی حکومت کے شدت پسندی پر مبنی رویے نے ایک بار پھر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں پہلے سے موجود سیاسی فاصلوں کو اور زیادہ گہرا کردیا ہے ۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بھارت کی مجموعی سیاست اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی بہتری پیدا کرنے کے بجائے اس میں بگاڑ پیدا کرکے کچھ سیاسی فوائد حاصل کرنے کا ایجنڈا رکھتی ہے ۔اس وقت انڈیامیں ایک نہ تھمنے والی احتجاجی تحریک جاری وساری ہے اورجس نے مودی کی تمام امیدوں پر پانی پھر گیا ہے۔ اب مودی اپنی ساکھ کوبچانے کے لئے کبھی انڈین وزیردفاع راج ناتھ سنگھ،کبھی انڈین وزیرداخلہ امیت شاہ اورکبھی انڈین آرمی چیف پاکستان سے آزادکشمیرچھننے کی بڑھکیں ماررہے ہیں ۔ پلوامہ کے بعد جو صورتحال بن رہی ہے وہ پاکستان کے تناظر میں غیر متوقع نہیں تھی ۔ اگرچہ پلوامہ کے واقعہ سے قبل بھی عملی طور پر دونوں ملکوں میں مذاکرات کا عمل تعطل کا شکار اور بداعتمادی موجود تھی ۔لیکن اب حالیہ صورتحال نے بدترین کروٹ لی ہے اوربھارتی تیورکوزیادہ سخت کردیا ہے ۔بھارت کی موجودہ فوجی اورسول قیادت سخت گیر ہندوتوا کی سیاست کرنے والے افراد اورجماعتیں میڈیا پر جنگی جنون پیدا کرکے یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ انڈیامیں جاری احتجاجی تحریک اورموجودہ بحران پاکستان کا پیدا کردہ ہے ۔اس بے بنیاد موقف کواپناتے ہوئے انڈیاجنگی جنو ن کی ایک مہم چلارہاہے ۔ مظلوم کشمیری عوام کاکہناہے کہ اب وقت آن پہنچاہے کہ پاکستان اپنی افواج کوکشمیرمیں داخل کرنے کااعلان کرے کیونکہ انڈین آرمی کے تیوردیکھ کر موجودہ حالات میں اسکے علاوہ کوئی چارہ دکھائی نہیں دیتا۔بھارت کی فوجی اورسول قیادت کے اشتعال انگیزاورجنگی دھمکیوں کوطبل جنگ سمجھ کر افواج پاکستان کو مدافعانہ کی بجائے جارحانہ اندازاپناناہوگااورکڑے تیور میں سرگرم عمل ہونے کی ضرورت ہے اوربھارت کی فوجی اورسول قیادت کو اشتعال انگیزاورجنگی دھمکیوں سے باز رکھنے کاوقت آن پہنچاہے۔تنازعہ کشمیرمیںپاکستان بحیثیت ایک مسلمہ فریق کے اپنی افواج کو کشمیر میں داخل کریں اور اگرایسانہیں کیاگیا تو انڈین عہدے داروں کی دھمکیوں سے کشمیر کے عوام پرایک سائیکالوجیکل پریشرپڑے گاجس کے نتائج ہر حوالے سے انتہائی سنگین ہونگے اورجس سے تحریک آزادی کشمیرمتاثرہوسکتی ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کی حکومتوں کی اپنی بناوٹی سیاسی مجبوریاں ہوسکتی ہیں لیکن غلامی کی زنجیریں توڑنے میں مصروف عمل کشمیرکے جرأت مند عوام اسے کھلی بزدلی سمجھتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں اپنی افواج داخل کر کے پوری ریاست جموںوکشمیرکواپنے ساتھ کیوں نہیں ملالیتا۔جموں و کشمیرکی موجودہ حالات نہ صرف اس بات کاتقاضاکررہی ہے بلکہ یہ دانشمندانہ، اورقابل عمل امرہے۔ پاکستان کی مسلح افواج پوری دنیامیںایک زبردست فوج کے طورپرجانی جاتی ہے ۔ اس لئے کشمیریوں کوانڈیاسے نجات اورآزادی دلانے پوری ریاست جموںوکشمیرکو حاصل کرنے اوراپنی شہہ رگ کوہندوسے چھڑانے کے لئے بڑے فوجی ایکشن کاوقت آچکاہے۔ اس اقدام سے وہ دنیا کشمیریوں کے دردکااحساس کرے گی کہ جسے کشمیر کے اندر بھارتی جو روا استبداد اورانڈیاکے جنگی جنون کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں۔ انہیں پریشانی صرف اس بات کی ہے کہ پاکستان اور بھارت، دونوں ایٹمی قوت کے حامل ہیں۔ اگر انکے درمیان باقاعدہ جنگ چھڑ گئی تو کسی محاذ پر نازک صورتحال میں کوئی متحارب فریق ایٹمی ہتھیار استعمال نہ کر بیٹھے۔ اس میں کوئی ابہام نہیں ہے کہ کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے ، بھارت نے خود شملہ معاہدے کو توڑا ہے، پاکستان بھی آگے بڑھ کر شملہ معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کرے اور اپنی فوج کو مقبوضہ کشمیر میں داخل کرے۔ کشمیر بنے گا پاکستان، کشمیریوں سے رشتہ کیا لاالہ الا اللہ ، کی عملی تعبیرکاوقت ہویداہوچکاہے ۔اگرانڈیاکواسی کے لہجے میں ترکی بہ ترکی جواب نہ دیاگیاتوپھراس امرمیں کوئی شک نہیں رہتاکہ حکمرانوںنے ذہنی طورپرکشمیرکی جنگ بندی لائن کو باضابطہ طورپرانڈیااورپاکستان کے مابین سرحدکے طورپر تسلیم کرلیا ہے۔ بھارت نے خود شملہ معاہدے کو توڑا ہے تو پاکستان بھی آگے بڑھ کر شملہ معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کرے اور اپنی فوج کو مقبوضہ کشمیر میں داخل کرے ۔ یہ کسی زمین کے حصول کی لڑائی نہیں بلکہ حق اور باطل کے درمیان معرکہ ہے ،جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور کا معاملہ ہوتا ہے تو مہینوں میں انہیں حق خودارادیت دے کر الگ کردیا جاتا ہے لیکن 70سال سے کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہیں دیا گیا۔مملکت خدادادکے حکمران زمینی خدائوں کے سامنے جھکے ہوئے ہیں اور ڈرتے ہیں۔مسئلہ کشمیرہمارے ایمان کا حصہ ہے ، بھارت نے مکاری سے کشمیر کو بھارت میں شامل کرنے کی کوشش کی ہے ، ہم اس فیصلے کو مسترد کرتے ہیں ، مقبوضہ کشمیر میں ایک لاکھ سے زائدنہتے کشمیری مسلمان بھارتی فوج سے مقابلہ کررہے ہیں اور یہ پیغام دے رہے ہیں کہ جنگیں ایمان سے لڑی جاتی ہیں ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کے 22کروڑ عوام کشمیری مسلمانوںکے شانہ بشانہ ہیں۔