اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مسلمانان ہندوستان کے خلاف مودی سرکار کی دشمنی کے خلاف بھارتی جامعات کے طلباء و طالبات کی یکسوئی اورہمہ جہت احتجاجی تحریک نے مودی اینڈکمپنی کوہلاکررکھ دیاہے ۔شہریت قانون کے خلاف بھارت کی بڑی بڑی دانش گاہوں میں احتجاج تیسرے نسل کے راہنمائوں کا پیش خیمہ ہے۔بلاشبہ بھارتی طلبا ء آج جو کردار ادا کررہے ہیں، وہ قابل تعریف ہے۔ ایک طرف وہ پوری قوت کے ساتھ احتجاجی تحریک چلارہے ہیں دوسری طرف وہ اپنی ذہانت ،فطانت ،صلاحیت اورقابلیت کی بنیاد پراعزازات اورگولڈمیڈلزکے مستحق ٹھرانے کے باوجودبھارتی مسلمانوں کے خلاف ہورہی سازشوں پراپناشدیدردعمل ریکارڈ کرتے ہوئے بھارتی صدرکے ہاتھ سے اعزازات اورگولڈمیڈلزلینے سے مکمل طورپرانکار کررہے ہیںاوراس طرح تاریخ میں اپنے کرداروعمل کوآب زرسے رقم کروارہے ہیں۔ اس انکاری تحریک کا باحجاب چہرہ عائشہ اور لدیدہ ہیں۔ ان کا ویڈیو وائرل ہواتوبھارت کے ایک دبنگ صحافی رویش کمار نے پرائم ٹائم میں بلایا۔صحافی برکھا دت سے بات کرتے ہوئے لدیدہ نے کہا کہ ہمیں کسی کا خوف نہیں ہے ۔ہم اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ۔ عائشہ کا کہنا تھا ہم اپنے آس پاس موجود لوگوں کے تحفظ کے لیے آواز اٹھاتے رہیں گے۔ ہم ڈرنے والے نہیں ہیں۔ ہم صرف اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اگر ہم اب کھڑے نہیں ہوئے تو کب کھڑے ہوں گے۔ ان دونوں طالبات نے اپنے جرأتمندانہ اقدام سے مسلم خواتین کو مظلوم اور مسلمان معاشرے کو پسماندہ قرار دینے والے اسلام دشمنوں کاچہرہ بے نقاب کردیا۔ جامعہ ملیہ دہلی میں بھڑک اٹھے شعلے پڈو چیری یونیورسٹی پہنچے تووہاں ماس کمیونیکیشن کی باحجاب طالبہ رابعہ عبدالرحیم نے احتجاجا اپنا گولڈ میڈل لینے سے انکار کر کے تاریخ رقم کردی ۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے رابعہ کو مدعو کیا اور تقریب گاہ میں نشست مختص کر کے کانووکیشن کا مخصوص گائون بھی دیا ۔بھارتی صدر رام ناتھ کووند نے وہاں موجود طلبہ کو اسناد تقسیم کیے لیکن شعبہ ابلاغیات کی گولڈ میڈلسٹ رابعہ عبدالرحیم نے بھارتی صدرسے اپنا گولڈ میڈل لینے سے انکارکرتے ہوئے صرف سندکو قبول کرلیا۔رابعہ کاکہناتھاکہ انہوں نے شہریت کے ترمیمی قانون، این آر سی اور طلبہ پر پولیس کے مظالم کی مخالفت کرنے والے طلبہ کے ساتھ یکجہتی میں ایسا کیا ہے۔ رابعہ کی دلیری نے ایک اور طالب علم ارون کمار کے لیے مہمیز کا کام کیا اس نے صدر کے ہاتھوں سے ڈگری نہ لینے کا ازخود فیصلہ کیا ۔ان کاکہناہے کہ صدرہندنے شہریت قانون پر دستخط کیے ہیں اس لئے وہ ان سے ڈگری وصول نہیںکرسکتا،بشریات میں پی ایچ ڈی کے گولڈ میڈل کی مستحق میگالہ نے کہا میں یونیورسٹی’’ ٹاپر‘‘ ہوں لیکن میرا دل اس بات پر راضی نہیں کہ میں یہ اعزاز ایسے وقت حاصل کروں جب بھارت میں مسلم اقلیت متاثر ہو رہی ہے۔ ان کاکہناتھا کہ اگرچہ یہ اعزاز کی بات ہے کہ آپ وہ لباس پہنیں، سٹیج پر جائیں اور صدر سے میڈل حاصل کریں لیکن ہم نے اس کا بائیکاٹ کیا ہے۔ اب یہ معاملہ بنگال کی جادو پور یونیورسٹی میں بھی پہنچ گیا جہاں بین لاقوامی تعلقات میں ایم اے کی طالبہ دیب اسمتا نے طلائی تمغہ لینے کے بعد شہریت قانون کو سب کے سامنے پٹخ کر پھینک دیا اور انقلاب زندہ باد کے بعد کاغذ نہیں دکھائیں گے کا نعرہ بلند کرتے ہوئے جامعہ ملیہ کے طلبا پر پولیس تشدد کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ۔دیب اسمتا نے مودی حکومت کے غیر انسانی فطرت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ 26دسمبر 2019ء جمعرات کو انڈیا کے آرمی چیف بپن راوت نے بھارتی شہریت کے قانون پر ہونے والے احتجاج پر جو رد عمل دیا ہے اس پر نہ صرف تنقید ہو رہی ہے بلکہ اب ان سے معافی مانگنے کاکہاہے۔انہوں نے دلی میں ایک پروگرام کے دوران شہریت کے قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج کی مخالفت کی۔ ان کاکہناتھاکہ ایک لیڈر کی پہچان اس بات سے ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کی کیسے راہنمائی کرتا ہے اوروہ لیڈرنہیں ہوتاکہ جوملک میں فساد کرائیں۔ بھارت میںہورہے کسی بھی احتجاج کے حوالے سے کبھی آرمی چیف کی طرف سے اس طرح کے بیان کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔ انڈیا کی اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے آرمی چیف کے بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہاگیاکہ اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ مودی حکومت کے دوران حالات کتنے خراب ہو گئے ہیں کہ فوج کے سب سے اعلیٰ عہدے پر بیٹھا شخص اپنے عہدے کی حدود کو پار کر رہا ہے۔ایسے حالات میں سوال اٹھنا لازمی ہے کہ مودی نے فوج کو سیاست میں گھسیٹ لیاہے۔بپن راوت کے اس بیان پر اسدالدین اویسی نے ٹویٹ کیا کہ اپنے عہدے کی حدوں کو سمجھنا ہی لیڈرشپ ہوتا ہے۔ سویلین بالادستی اور اپنے ادارے کے وقار کو سمجھنا آپ کی ذمہ داری ہے۔انہوںنے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ راوت اپنے اس بیان سے حکومت کو کمزور کر رہے ہیں۔تاہم مودی حکومت کے ایک وزیر رام داس اٹھاولے نے بپن راوت کے بیان کی حمایت کی اور کہا کہ آرمی چیف کا یہ کہنا صحیح ہے کہ سیاسی لیڈروں کو اپنے ساتھ چلنے والے لوگوں کو پرتشدد رخ نہیں اختیار کرنے دینا چاہیے۔ خیال رہے کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے دلی سے کنہیاکماری تک پورے بھارت میں شہریت کے قانون کے خلاف شدید احتجاج ہو رہا ہے۔ ان مظاہروں اور مظاہرین کو نریندر مودی اور امیت شاہ مختلف موقعوں پر تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ شہریت ترمیمی بل اور این آرسی پر ملک بھر میں عوامی غم وغصہ اور احتجاج نیز عالمی پیمانے پر ہورہی بدنامی سے لوگوں کی توجہ ہٹاکر انھیں دوسرے کام میں لگانے کی کوشش کی ہے ۔ابھی این آرسی اورسی اے اے پر بھارت بھر میں ہنگامہ جاری ہے، اسی دوران حکومت نے اپنے پٹارے سے این پی آر نامی ایک اور متنازعہ شئی نکال پھینکی ہے ۔لیکن یہ طے ہے کہ بھارتی یونیورسٹیزاوردیگر تعلیمی اداروں کے احتجاجی سٹوڈنٹس ، نوجوان اور تنظیمیں مودی حکومت کے اس دجل وفریب کا شکار بالکل نہیں ہوسکتے اوروہ ایسے تمام کالے قانون کی واپسی تک پورے زور وشور اور عزم وحوصلے کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ یہ ایک بے بدل حقیقت ہے کہ این آرسی کے خلاف عالمی سطح پر بدنامی ہورہی ہے اورمودی کوپتاچل گیاہے کہ اب براہ راست اس متنازعہ قانون کا نفاذ مشکل ہوگیا ہے، اس لئے چور راستے سے’’ این آرسی‘‘ کو نافذ کرنے کی کوشش ’’این پی آر‘‘ کے نام پر کی جارہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اب حکومت کے وزراء کی سطح پرایسے بیانات سامنے آرہے ہیں کہ این پی آر میں کوئی کاغذی ثبوت نہیں مانگا جائے گا۔