بھارتی جبری قبضے سے قبل کا جموں شہر گمٹ کے دروازے سے پنج تیرتھی تک ڈھلوان پر آباد تھا جس میں اگر چہ ہندوئوں کی اکثریت غالب تھی لیکن مسلمانوں کی بڑی آبادی بھی وہاں رہتی تھی۔ جموںشہر میں مسلمانوں کی چھوٹی بڑی 25مساجد تھیں۔ اس دور میں تعلیمی اور اقتصادی طور پر بھی مسلمانوں کی حالت جموی ہندئووں کے مقابلے میں کافی بہتر تھی ،اگر چہ سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہی روا رکھا جاتا تھا تاہم اپنی ذاتی کوششوں اور تگ و دو کے باعث اکثر جموی مسلمان خوش حال اور کھاتے پیتے تھے۔ لاہورکی قربت کی وجہ سے وہاں کے مالی و اقتصادی اور تعلیمی و تجارتی اور سیاسی بیداری کے اثرات جموں کے مسلمانوں پر بھی اثر انداز تھے۔شہر لاہور مذہبی، عصری اور علمی و ادبی و تہذیبی سرگرمیوں کا بڑا مرکز ہوا کرتا تھا، صوبہ جموں اور خاص طور پر جموں شہر کے ہندو مسلمان اپنی تعلیمی و معاشی سرگرمیوں کی خاطر اسی طرف رجوع کرتے تھے۔ گو کہ جموں کی کاروباری منڈی پر مجموعی طور پرہندو مہاجن طبقے کا غلبہ تھا تاہم مسلمانوں کی نمائندگی بھی ہر شعبہ زندگی میں آبادی کے تناسب سے معقول حد تک موجود تھی کیونکہ جموں کے مسلمان تعلیمی اور تجارتی طور پر براہِ راست لاہور ،سیالکوٹ اورراولپنڈی جیسے شہروں سے منسلک تھے۔ ریاست جموں وکشمیر کا اولین IAS آفیسر منتخب ہونے کا شرف بھی جموں کے مسلمان ذہین وفطین نوجوان قدرت اللہ شہاب مرحوم کو حاصل ہے جن کا شمار بر صغیر کی بیسویں صدی کی ممتاز شخصیات میں ہوتا ہے۔ جموں شہر میں ریذیڈنسی روڈ پر وزیر اعلی کی موجودہ رہائش گاہ قدرت اللہ شہاب کی ملکیتی زمین پر واقع ہے اور آج کل جموں وکشمیرکے کٹھ پتلی وزیر اعلی کے سکیورٹی انچارج کا دفتر قدرت اللہ شہاب کے اسی مکان میں ہے جس میں پل بڑھ کر قدرت اللہ شہاب بر صغیر کی تاریخی اور مقبول شخصیت بنے۔ جموں شہر کی بڑی مسلم بستیوں میں محلہ مست گڑھ، استاد محلہ، افغان محلہ، دِل پتیاں، تالاب کھٹیکاں، قصابان، پیر مٹھا، اردو بازار (موجودہ راجندر بازار)وغیرہ خالص مسلم آبادی پر مشتمل تھے۔ مرحوم اللہ رکھا ساغر بھی اردو بازار کے اندرونی حصہ میں رہا کرتے تھے اور اردو بازار کی اکثر دوکانیں و املاک ان کی ملکیت تھیں، ان کا شمار جموں کے کھاتے پیتے اور متمول گھرانوں میں ہوتا تھا۔مطلق العنان ڈوگرہ راج کے خلاف جموں میں تحریک مزاحمت منظم کرنے میں ان کاکلیدی رول تھا۔راجہ محمد اکبر خان میر پوری، غازی الہی بخش، حاجی وہاب دین، مولوی عبدالکریم گورسی اور میر پور کے دیگر اہم زعما ء کے علاوہ قائد ملت چودھری غلام عباس ان کے ہم عصر اور تحریکی زندگی کے دست راست تھے، وہ ریاست کی اولین مزاحمتی تنظیم ینگ مینز ایسوسی ایشن اور آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے اساسی ممبران میں سے تھے۔ پرانے جموں شہر میں مسلمانوں کے عروج و زوال کی تاریخ اندلس سے کسی طرح کم نہیں۔ جموں شہر کے مذکورہ محلہ جات میں آج بھی مسلمان روسا کی قدیم طرز خوبصورت حویلیاں اور مساجد ان کی زندہ دلی کلچر و ثقافت اور خوبصورت طرز معاشرت کا پتہ دیتی ہیں۔ وزارت روڈ پر نو تعمیر شدہ اوقاف پلازہ کی قدیم عمارت مسلم حال کے نام سے متعارف تھی جو جموں کے مسلمانوں کا مرکزی مقام اور انجمن اوقاف اسلامیہ کی ملکیت تھی۔سیرت طیبہؐ کواجاگرکرنے کی خاطر جلوس ہمیشہ تالاب کھٹیکاں کی جامع مسجد سے نکلتا اور شہر کے مختلف حصوں سے ہوتا ہوا مسلم ہال پر جا کر علماء کرام کے گوشہ ہائے سیرت طیبہؐ کوموضوع بناتے ہوئے اورخطابات کے بعد اختتام پذیر ہوتا تھا۔ مسلم ہال کے سامنے اندرونی حصہ میں شہرہ آفاق، ماہر معاشیات ڈاکٹر محبوب الحق کا مکان تھا ۔ موصوف پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن اور بعد میں وزیر خزانہ، وزیر منصوبہ بندی اور اسپیکر بھی ر ہے ۔ان کی علمی قابلیت اور دیانت کی وجہ سے پاکستان بھر میں انہیں عزت و احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔ قائد ملت چودھری غلام عباس کا مکان بھی کنک منڈی دال والی گلی کے اندرونی حصہ میں ہوا کرتا تھا۔ بر صغیر کی نامور مغنیہ ملکہ پکھراج بھی اردو بازار کی رہائشی تھی جس کے نغمے اور سریلی آواز کا اس وقت بر صغیر میں جادو بولتا تھا۔ پرنس ویلز کالج جموں کے پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین جو بعد میں پاکستان قومی نصاب کمیٹی کے چیئرمین، ڈائریکٹر اقبال اکیڈمی اور بہت سارے سرکردہ اداروں کے سربراہ بھی رہے، جموں شہر سے تعلق رکھتے تھے ۔ علاوہ ازیں مشہور داعی اسلام ڈاکٹر اسرار احمد، قائد ملت چودھری غلام عباس بیگ، پاک فضائیہ کے سابق سربراہ ایئر مارشل اصغر خان کے علاوہ جموں کی بڑی بڑی نامی گرامی ہستیوں کے استاد مکرم تھے۔ آپ محلہ دِل پتیاں میں رہتے تھے اور مرحوم محمد یونس اعوان ایڈیٹر ہفت روزہ طلوع ِسحر کے رشتے میں دادا لگتے تھے۔موجودہ جین بازار کے اندرونی حصہ افغان محلہ میں پٹھان لوگ رہا کرتے تھے جو مختلف اوقات میں یہاں آئے اور جموں کو اپنا مستقل وطن بنا لیا۔ اس محلہ میں بڑی نامی گرامی اور اہم شخصیات رہا کرتی تھیں جو فن ِسپاہ گری میں مہارت رکھتی تھیں اور مہاراجہ کی فوج میں اہم عہدوں پر تعینات تھیں۔ ان میں جنرل سمندر خان اور پاکستان فضائیہ کے سابق سربراہ ایئر مارشل اصغر خان کا خاندان خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ موجودہ شہیدی چوک کا پرانہ نام پیپل والا چوک تھا جس پیپل کے درخت کی وجہ سے اس جگہ کا نام پڑا وہ درخت آج بھی کانگریس کے دفتر کے سامنے صدیوں کی داستان لئے کھڑا ہے۔ جموں کا اکبراسلامیہ ہائی اسکول جموں کے مسلمانوں کا ایک اہم ملی ادارہ تھا ،جو جموں کی موجودہ عیدگاہ کے ساتھ تھا، اس کی خالی جگہ اب عیدگاہ میں آ چکی ہے اور پرانی بلڈنگ میں ہری سنگھ ہائی اسکول قائم ہے۔اس اسکول کی انتظامیہ میں اس وقت صوبہ جموں کی نامی گرامی شخصیات شامل تھیں جن میں جنرل سمندر خان، آزاد کشمیر کے بانی صدر سردار محمد ابراہیم خان، پونچھ کے سردار یار محمد خان دلی، پرنس ویلز کالج جموں کے پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین، میر پور کے راجہ محمد اکبر خان اور کٹھوعہ کے بریگیڈیئر خدا بخش وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ اکبر اسلامیہ ہائی اسکول سے باہر وزارت روڈ پر وہ سرکاری ریسٹ ہائوس تھا جس میں قیام پاکستان سے قبل قائدا عظم محمد علی جناح اور فاطمہ جناح نے دورہ کشمیر کے موقع پر قیام کیا اور اہالیانِ جموں نے ان کا شایانِ شان استقبال اور ضیافت کی تھی۔ علاوہ ازیں جموں کی ایک اہم تاریخی شخصیت کا تذکرہ بھی ناگزیر ہے جو اگرچہ جموں شہر سے آٹھ کلو میٹر باہر اکھنور روڈ کے اندرونی علاقے موضع ڈھوکڑی میں رہتی تھی مگر جموں کی سیاست اور ملی مسائل میں ان کا بڑا رول تھا، یہ تھے قاضی خورشید عالم جنہیں مہاراجہ کے دربار میں خصوصی مقام حاصل تھا۔ جموں کے مسلمانوں میں تعلیمی اور سیاسی بیداری کے حوالے سے قاضی خورشید عالم کا نمایاں رول تھا۔ وہ ذاتی طور پر بڑے باشعور، ملی جذبے سے سرشار، متمول اور کثیر زرعی اراضی کے مالک تھے، یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے ۔ بھارتی جبری قبضہ مسلمانانِ جموں وکشمیرکے لئے بڑے صبر آزما تھا، جموں صوبے میں ہندئووں کی جانب سے نفرت اور تعصب کی ایسی آندھی چلی کہ صدیوں کی ریت روایت قتل و غارت اور خون ریزی میں تبدیل ہو گئی، لاکھوں جموی مسلمان دیکھتے دیکھتے بڑی بے رحمی سے موت کی نذر کئے گئے۔