بھارت اس وقت ایک بہت بڑے عوامی احتجاج کی لپیٹ میں ہے۔ یہ 1970ء کے بعد سے سب سے بڑا احتجاج ہے، جب اس وقت اندرا گاندھی نے ملک گیر احتجاج کو ختم کرنے کے لیے بدنامِ زمانہ ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت ملک کے طول و عرض میں سینکڑوں کی تعداد میں ریلیوں، احتجاج اور دھرنوں کا انعقاد ہو چکا ہے اور یہ تب سے ہو رہا ہے جب سے نریندر مودی کی حکومت نے ایک بل پاس کیا ہے جو سوائے مسلمانوں کے، مختلف مذاہب کے ماننے والے تارکینِ وطن کو شہریت دینے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ بل کا دفاع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ ضروری تھا کہ بھارت آنے والے ان لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جائے جو پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے اکثریتی ہمسایہ ممالک کے ہاتھوں مذہب کے نام پر ظلم و ستم کا شکار بنے ہوں، لیکن نقادوں کی نظر میں سٹیزن امینڈمنٹ ایکٹ (سی اے اے) یعنی شہریت کا ترمیمی بل مودی کی قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی اس منزل کی طرف ایک بڑا قدم ہے جو سیکولر ہندوستان کو ایک ہندوانہ ملک بنا سکے۔مودی نے پچھلے سال انتخابات میں دوسری بار واضح برتری حاصل کرنے کے بعد کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کرنے سے لے کر بابری مسجد کے مسمار ہونے والی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کے وعدے تک ان پالیسیوں کو فروغ دیا ہے جو مڈل کلاس قوم پرست ہندوؤں کو پسند ہیں۔ اب تک کشمیر، بابری مسجد اور یہاں تک کہ آسام میں شہریوں کے اندراج کا قومی رجسٹر (این آر سی) لاگو کرنے کے واقعات ہونے کے بعد بھی بائیں بازو اور اقلیتی برادری والے عموماً خاموش ہیں۔ لیکن جب سے 13 دسمبر کو سی اے اے کے قانون کا نفاذ ہوا ہے، تب سے ایک بدلاؤ سا آگیا ہے۔ یونیورسٹی کیمپسوں پر پولیس کے حملوں اور خونریز تصادم کے نتیجے میں ہونے والی اموات نے اگر ماضی میں اندرا گاندھی دور کے ہندوستان کی یاد نہیں دلائی تو موجودہ دور میں ہانگ کانگ میں ہونے والے واقعات کی یاد ضرور تازہ کی ہے۔ ایک طرف جہاں مظاہرین، کارکنان اور اقلیتی برادری کے رہنماؤں نے سی اے اے قانون کو نقطہ آغاز کہا ہے، وہیں دوسری طرف پولیس کی طرف سے مظاہروں کو بھونڈے انداز میں کنٹرول کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ اس تحریک کی اتنی حوصلہ افزائی کیسے ہو رہی ہے؟ اس تحریک کی رہنمائی کر رہے دیپک کبیر اتر پردیش کے دارالحکومت لکھنؤ کی معروف شخصیت ہیں۔ کبیر کا کہنا ہے کہ سی اے اے قانون کے نفاذ کے ایک ہفتے بعد 20 دسمبر کو انہیں شہر میں ہونے والے خونریز مظاہروں کا سرغنہ بنا کر قریبی تھانے کے ایک کمرے میں لے جایا گیا، جہاں ایک درجن سے زیادہ پولیس اہلکاروں نے ان کو مارا پیٹا اور بار بار تشدد کیا۔ دیپک کبیر نے بتایا کہ ہو سکتا ہے ایک مخصوص لمحہ ہو جب شہریت بل مخالف مظاہروں نے باقی بھارت کے مقابلے میں اتر پردیش میں ایک دم سے زیادہ شدت اختیار کی ہو۔انہوں نے کہا: ’اس ریاست میں 19 دسمبر کا دن ہمارے لیے بہت اہم ہے ،خاص پر لکھنؤ شہر کے لیے کیونکہ اس دن ہم ان تین انقلابیوں کی برسی مناتے ہیں، جنہیں 1927ء میں قابض انگریز حکومت نے پھانسی پر چڑھایا تھا۔ مقامی طور پر یہ دن ’یومِ شہدا‘ کہلاتا ہے۔ اس دن کے موقع پر نکالی جانے والی ریلی کو روکنے کے لیے یہاں کے اداروں نے نو آبادیاتی طرز کی دفعہ 144 کے نفاذ کا اعلان کیا، جس کے مطابق امن و امان متاثر ہونے کے ڈر سے چار یا چار سے زیادہ لوگ ایک جگہ اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ ہمارا خیال تھا کہ اس صورت حال میں دو سے تین ہزار کے قریب لوگ مشکل سے اکٹھے ہوں گے لیکن اس دن پانچ سے چھ لاکھ لوگ آگئے جن میں بچے، بڑے، بوڑھے، جوان، ہندو، مسلمان، مرد، خواتین سب شامل تھیں۔یہاں ایسے کوئی ذرائع نہیں ہیں کہ کبیر کی بتائی ہوئی تعداد کی تصدیق ہوسکے لیکن بعد میں پولیس نے تصدیق کردی کہ پورے صوبے میں پر تشدد واقعات میں ملوث ہونے کے شبہ میں 1113 لوگوں کو گرفتار کیا گیا جس سے یہاں ہونے والے ہنگاموں کی شدت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اب تک ہونے والی شہریت مخالف جھڑپوں میں اترپردیش سب سے زیادہ متاثر رہا، انہوں نے مزید بتایا: ’پولیس افسر نے سپاہیوں سے کہا کہ اسے اتنا مارو کہ اس کی جلد دو انچ تک موٹی ہو جائے تاکہ یہ تین مہینے تک بیٹھ بھی نہ سکے۔ دو بندوں نے میرے ہاتھ پکڑ کر مارنے سے شروعات کی اور پھر مجھے زمین پر لٹا کر مارا۔ میں نے کوشش کی کہ اپنی انکھیں اور منہ بند کرکے پرسکون رہوں، میں نے ان سے تشدد نہ کرنے کی منت بھی نہیں کی۔اْس کے بعد کبیر کو جیل لے جایا گیا، جہاں ان پر 20 الزامات لگائے گئے، جن میں کچھ سنگین جرائم کے الزامات بھی شامل تھے، جیسے کہ اقدامِ قتل، املاک کو نقصان پہنچانے، دھماکہ خیز مواد رکھنے کا الزام اور مجرمانہ سازش کی دفعہ 120 بی۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کبیر ان خونریز مظاہروں کے منتظمین میں سے ایک ہے۔ 21 دن کے بعد کبیر کو ضمانت پر رہائی ملی۔ کبیر ان الزامات کے حوالے سے پرسکون تھے، اس اعتماد کے ساتھ کہ ان کے خلاف کسی ثبوت کے نہ ہونے کی وجہ سے عدالت انہیں بری کر دے گی، لیکن پھر بھی بھارت کے سست رفتار عدالتی نظام کی بدولت یہ الزامات سالوں تک قائم رہیں گے۔ کبیر کے خیال میں: ’حالیہ احتجاج مودی انتظامیہ کے خلاف ایک فیصلہ کن موڑ کی مانند ہے، کیونکہ کشمیر کی خودمختار حیثیت کا خاتمہ اور بابری مسجد والے معاملات کو مسلمانوں کے زیر اثر دیکھا گیا، جبکہ سی اے اے بھارت کے بنیادی نظریے میں ایک داغ کی مانند ہے۔ شاہین باغ کا دھرنا ایک تہوار کی مانند لگ رہا ہے، جہاں جنوبی دہلی کا محنت کش طبقہ سی اے اے مخالف تحریک کا حصہ بن کر اکھٹا ہونے لگا ہے۔ کوئی 500 مصمم ارادے والی مسلمان خواتین کی سربراہی میں ہزاروں لوگوں نے ایک کلومیٹر تک تین رویہ ہائی وے پر ڈیرہ جمایا ہوا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ تب تک نہیں جائیں گے جب تک حکومت شہریت کے قانون کو واپس نہ لے یا اس میں ترمیم نہ کرے۔ دھرنا دینے والوں اور پولیس کے درمیان مختلف قسم کی رکاوٹیں موجود ہیں، جبکہ تحریک کے رضا کار دھرنے کی جگہ پر خود سکیورٹی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ ٹھیلے والے سنیکس اور مشروبات فروخت کر رہے ہیں جبکہ شام کے وقت لوگوں کا ایک بڑا ہجوم تنگ گلیوں سے ہوتا ہوا دھرنے کے مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ پچھلی جمعرات کو لوگوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا کیونکہ شاہین باغ والوں نے پوری قوم کے ساتھ مہاتما گاندھی کی برسی منائی، جب اسی دن 30 جنوری 1948 کو شام پانچ بجکر 17 منٹ پر انہیں قتل کیا گیا تھا۔ بابائے قوم، جن کی تحریک عدم تشدد نے بھارت کو آزادی دلائی، ان خواتین کے لیے ایک بہترین نمونہ ہیں، جہاں لوگ قطار در قطار گاندھی جی کی صورت والے کاغذی ماسک پہن کر بھوک ہڑتال کی حال میں کھڑے ہیں۔ سٹیج پر کچھ فنکار گاندھی جی کے قتل ہونے کا منظر پیش کر رہے ہیں، جہاں ایک اداکار ناتھورام گوڈسے (گاندھی جی کا قاتل) کی طرح اپنی نقلی بندوق کے ساتھ کھڑے ہوکر دیوانہ وار ہنس رہا ہے۔ (بشکریہ دی انڈیپنڈنٹ)