بھارت میں 543رکنی پارلیمنٹ کیلئے عام انتخابا ت کا بگل بج چکا ہے۔ 11اپریل سے 19 مئی تک سات مرحلوں میں ووٹ ڈالے جائینگے۔ 23مئی کو ووٹوں کی گنتی ہوگی۔ حال ہی میں جس طرح حکمران ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو پانچ صوبائی انتخابات با لخصوص مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے مصاحب خاص اور حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی )کے صدر امیت شاہ کی جوڑی کے ناقابل تسخیر ہونے کا امیج پاش پاش ہوگیا ، لگتا تھا کہ کانگریس اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کو نیا حوصلہ اور توانائی فراہم ہوگی۔ دو ماہ قبل ایک اندرونی سروے میں بی جے پی کو ایوان میں محض 164سیٹوں کے جیتنے کی پیشن گوئی کی گئی تھی۔ اس کے مطابق پارٹی کو پچھلے 2014 کے انتخابات کے مقابلے 118سیٹوں کا نقصان ہو رہا تھا۔ اسکے علاوہ آسام، اتر پردیش، بہار اور مہاراشٹرہ میں اسکے اتحادی بھی اس سے ناراض تھے۔ اقتدار میں واپسی کیلئے مودی اور ان کے رفقاء نے عوام کو لبھانے کیلئے جو گیڈر سنگھیاں پٹار ے میں رکھی تھیں ، وہ بھی ایک ایک کرکے اپنا اثر کھوتی جارہی تھیں۔ ان میں سب سے اوپر اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں شہید شدہ بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور اسکی آڑ میں ہندو ووٹروں کو لام بند کرکے ووٹ بٹورنے کا پلان شامل تھا۔ مگر بسیار کوشش کے باوجود رام مندر پر کوئی تحریک برپا نہیں ہوئی۔ اتر پردیش اور دیگر علاقوں میں آئی ایس ایس کے نام پر مسلم نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ کرواکے نیز بڑے پیمانے پر فرقہ ورانہ فسادات کرواکر ہندو اکثریتی فرقہ کو انتخابات سے قبل خوف کی نفسیات میں مبتلا رکھنے کا مبینہ منصوبہ بھی انجام پذیر نہیں ہوپایا۔ مگر لگتا ہے پلوامہ حملے کے بعد کی صورت حال اور اس سے پیدا شدہ جنگی جنون نے مودی کیلئے اقتدار کی واپسی کسی حد تک آسان کردی ہے۔ اگر مودی کامیاب ہوتے ہیں، تو یہ انتخابات اور اسکی مہم تاریخ میں ایک ایسی علامت کے طور پر درج ہوگی کہ کس طرح ایک زر خرید اور گودی میڈیا کے سہارے بنیادی ایشوز سے توجہ ہٹا کر عوامی غیظ و غضب کو مینوفیکچر کرکے ووٹ بٹورے جاسکتے ہیں۔ 2016کے بعد پے در پے ضمنی اور پھر صوبائی انتخابات میں ناکامیوں کے بعد پچھلے دو ماہ سے بی جے پی کے لیڈروں نے چانکیہ نیتی کے تحت سام (چاپلوسی) دام(رشوت)، ڈھنڈ (سزا) اور بھید (خوف) کا استعمال کرکے کم وبیش 40 چھوٹی اور بڑی جماعتوں کے ساتھ اتحاد تشکیل دے کر فی الحال بازی مار لی ہے۔ دوسری طرف کانگریس، کرناٹک، بہار، مہاراشٹرہ اور تامل ناڈو کے علاوہ کسی بھی دیگر صوبہ میں کوئی قابل ذکر اتحاد تشکیل دینے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوئی ہے، جس کی بڑی حد تک وہ خود ذمہ دار ہے۔ چند ماہ قبل پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں ملک کے مقتدر سیاستدان اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے صدر شرد پوار سے جب سیاسی صورت حال پر گفتگو ہو رہی تھی تو انکا شکوہ تھا کہ کانگریس پارٹی کا رخ ابھی بھی ایک ایسے جاگیردار کی طرح ہے، جس کا سب کچھ لٹ چکا ہے۔ زمینیں فروخت ہو چکی ہیں، حویلی خستہ ہو چکی ہے، مگر اسکی اناباقی ہے اور یہ انااسکو خواب سے حقیقت کی دنیا میں آنے نہیں دیتی ہے۔ اسکی واضع مثال دارلحکومت دہلی میں اسکی اسٹریٹجی ہے۔پچھلے اسمبلی انتخابات میں اسکو کوئی سیٹ نہیں ملی تھی۔ اسی طرح لوک سبھا کے انتخاب میں بھی صفر رہی تھی ۔ پھر بھی بسیار کوششوں اور درخواستوں کے باوجود عام آدمی پارٹی (عآپ)کے ساتھ اتحاد کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش میں بھی مقامی سیکولر پارٹیوں اور انکے اتحاد کو مضبوط کرنے کے بجائے کانگریس ایک بار پھر اپنی زمین ڈھونڈنے کی سعی کر رہی ہے۔ آسام میں بدرالدین اجمل کی یونائٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ سے اتحاد کی دعوت کو حقارت سے ٹھکرایا۔ ظاہر ہے کہ اس کوشش سے پچھلے انتخاب کی طرح سیکولر ووٹ تقسیم ہوکر بی جے پی کو تمام تر ناراضگیوں کے باوجود کامیابی ملے گی۔ موجودہ بھارت کے نقشہ پر اگر شمال سے جنوب کی طرف درمیان میں ایک سیدھی لکیر کھنچی جائے، تو معلوم ہوجائیگا کہ مغربی سمت کے صوبوں بشمول وسطی مدھیہ پردیش اور چھتیس گڈھ میں کانگریس کا براہ راست مقابلہ بی جے پی کے ساتھ ہے۔ ان صوبوں میں کانگریس ایک واضع سیاسی قوت رکھتی ہے۔ جبکہ پچھلے 30سالوں میں مشرق صوبوں بشمول اتر پردیش میں یہ سیاسی قوت کھو چکی ہے۔ان صوبوں میں مقامی سیکولر پارٹیو ں نے سیاسی خلا پر کر لی ہے۔ وہ کسی بھی صورت میں اپنی سیاسی زمین دوبارہ کانگریس کو دیکر اپنی بقا پر سوالیہ نشان نہیں لگا سکتے ہیں۔ اس تجزیہ کا دلچسپ پہلو یہ ہے ، کہ کم و بیش مغربی یعنی بحیرہ عرب کے ساحل کے قریب صوبوں میں جہاں کانگریس کا وجود باقی ہے، بی جے پی ہندو توا اور نیشنلزم کا ایجنڈہ لیکر عوام کو لبھا رہی ہے۔ جبکہ مشرقی یعنی خلیج بنگال کے ساحل کو چھوتے صوبوں میں وہ اتحادیوں کی مدد سے تعمیر و ترقی کے وعدوں کا سہار ا لیکر دیگر سیکولر پارٹیوں کو پچھاڑنے کیلئے میدان میں ہے۔ کانگریس کی قیادت کیلئے لازم تھا کہ مغرب میں اپنی سیاسی زمین پر توجہ مرکوز کرکے باقی علاقے دیگر سیکولر پارٹیوں کے حوالے کردے ۔تاکہ بی جے پی کو کم سے کم سیٹوں تک محدود کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ بات تو طے ہے کہ اتحاد بغیر قربانی اور سمجھوتے کے ممکن نہیں ہوسکتا ہے۔ اور یہ منتر کانگریس کے بجائے مودی اور امیت شاہ نے خوب سمجھاہے۔ شیو سینا کی گالیاں کھانے کے باوجود، جس نے بارہا نریندر مودی کو نشانہ بنایا، پارٹی صدر امیت شاہ نے ممبئی جاکر سینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے کی چوکھٹ پر نہ صرف ماتھا رگڑا، بلکہ پانچ سیٹوں کی قربانی بھی دی۔ اسی طرح بہار میں بھی اس نے موجودہ کئی اراکین پارلیمان کی قربانی دیکر جنتا دل (یونائیٹڈ) کے ساتھ اتحاد تشکیل دیکر فتح کیلئے راہ ہموار کر دی۔ 2002میں گجرات کے مسلم کش فسادات سے دلبرداشتہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ ) کے لیڈر آنجہانی ہر کشن سنگھ سرجیت نے اس وقت کی کانگریس صدر سونیا گاندھی کو قائل کروایا کہ اکیلے چلنے کی اسٹریجی اور سیاسی زمین کی واپسی کی جدو جہد کے بجائے سیکولر اور لبرل فورسز کو اکٹھا کر کے ایک وسیع تر سیاسی اتحاد کی داغ بیل ڈا ل کر ہی اٹل بہاری واجپائی کی زیر قیادت بی جے پی اتحاد حکومت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں یونائٹڈ پروگراسیو الائینس یعنی یو پی اے وجود میں آیا اور 2004کے انتخابا ت میں بی جے پی کو شکست دیکر اقتدار حاصل کیا۔ اس کے برعکس موجودہ انتخابات میں کانگریس نے اتر پردیش میں مقامی بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) اور سماج وادی (ایس پی) اتحاد کا حصہ بننے کے بجائے پرینکا گاندھی کو میدان میں اتار کر سہ رخی مقابلے کی فضا تیارکی۔ ایک منصوبہ کے تحت اگر وہ صرف برہمن اور ٹھاکر یعنی ہندو اونچی ذاتوں کے امیدواروں کو میدان میں اتارتی ، اس سے بی جے پی کے ووٹ بینک میں سیندھ لگ کر بی ایس پی یا ایس پی کے امیدوار کی کامیابی کی راہ ہموار ہوجاتی ۔ یہ بھی کانگریس کا ایک بڑا کارنامہ سمجھا جاتا اور امیت شاہ کو جیسے کو تیسا جواب بھی ملتا۔ مگر ابھی تک پارٹی نے امیدواروں کی جو لسٹ جاری کی ہے اس سے سیکولر ووٹ کے انتشار کا زیادہ خطرہ ہے۔ کانگریس کو حکومت بنانے کی فکر سے زیادہ اپنے وجود کو بچانے کی طرف توجہ دینی چاہئے تھی۔ اس کے وجود کو اس وقت شدیدخطرہ لاحق ہے۔ پرینکا گاندھی کے میدان میں آنے سے پارٹی کو واحد فائدہ یہ ہوگیا ہے کہ زرخرید اور گودی میڈیا اسکی مہم اور جلسوں کو نظر انداز نہیں کر سکے گا ، جس طرح وہ راہول گاندھی کی تقاریب کا اکثر کرتا ہے۔ مگر صرف ایک خوبصورت اور کرشمائی چہرہ کانگریس کو اقتدار میں نہیں لا سکتا ہے۔ مودی کے 40اتحادیوں کے مقابلے فی الوقت کانگریس کے خیمہ میں محض10اتحادی ہیں۔ اپنی حکمت عملی درست کرکے اور مودی کے قوم پرستی کے جال میں پھنسنے کے بجائے ، اصل ایشوز پر اپنا فوکس رکھتے ہوئے کانگریس ابھی بھی سیکولر پارٹیوں کی قیادت سنبھال کر 2004کے نتائج کو دہرا سکتی ہے۔مودی کی حکمت عملی ہے کہ جو سوال کرے اس کو ملک کا دشمن بتائو، پاکستان کی مدد کرنے والا قرار دو۔کانگریس اور دوسری اپوزیشن پارٹیوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ نوجوانوں میں روزگار، کسانوں میں موجود غیر متوقع بحران، دلت، قبائل اور اقلیتی طبقوں کے خلاف تشدد میں اضافہ اور روزگار کے گھٹتے مواقع ہر طبقے کے ایشوز ہیں، جس پر وہ مودی حکومت کو گھیر سکتی ہے۔ دلت، قبائل اور مسلمان اسوقت کسی سیاسی سہارے کی تلاش میں ہیں۔ اگر اپوزیشن سوشل اور مین اسٹریم میڈیا میں ہو رہی تشہیر سے دھیان ہٹاکر، اقلیتوں اور پچھڑوں کو یکجا کر لیں ، تو اس سے نہ صرف ملک کی سیاست سے مشتعل جذباتی ایشوز پیچھے چھوٹیںگے بلکہ اس سے عوام کا ایک بار پھرسے سیاست پر اعتماد قائم ہوگا۔تجزیہ کار اور سیاسی کارکن انوراگ مودی کے بقول یہ طبقہ نہ تو ٹی وی کی مشتعل بحث سے متاثر ہے اور نہ ہی اس ایجنڈہ سے کوئی زیادہ واسطہ رکھتا ہے ۔ ان کی آواز اونچے تختوں پر بیٹھے لوگوں کو سنائی نہیں دیتی، لیکن جب وقت آتا ہے وہ اپنا فیصلہ سناتے ہیں۔ ان کو جلد ہی اس کا موقع ملنے والا ہے۔ قوم پرستی کے نام پر ان کو چپ نہیں کرایا جا سکتا ہے۔مگر ضرورت ہے کہ ان کی اس ناراضگی کو 2004ء کی طرح ووٹ میں تبدیل کرنے اور ان کا ووٹ تقسیم ہونے سے بچانے کی۔لیکن ایسا تبھی ممکن ہے جب کانگریس کے موجودہ صدر راہول گاندھی اپنی والدہ سونیا گاندھی کی طرح خوشامدی ٹولے کو درکنار کرکے ہرکشن سنگھ سرجیت جیسے کسی مخلص لیڈر کا سہار ا لیکر ذاتی مفادات کے بجائے وسیع تر مفادات کو ترجیح دیں۔