انتخابات میں کامیابی کے لئے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک بار پھر پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا ہے۔ چند ہفتے قبل تین اہم ریاستوں میں بی جے پی کی شکست کے بعد مودی نے اپنے ووٹرز کو پاکستان دشمنی کے آزمودہ ہتھیار سے قابو کرنا شروع کر دیا ہے۔ نریندر مودی نے انتخابی مہم کے دوران کہنا شروع کیا ہے کہ پاکستان ایک لڑائی سے نہیں سدھرے گا سیاسی خطرے کی فکر نہیں۔ بھارتی وزیر اعظم نے ایک بار پھر نام نہاد سرجیکل سٹرائیک کا ذکرکرتے ہوئے اسے اپنی حکمت عملی کی کامیابی قرار دیا۔ بھارتی وزیر اعظم کا یہ طرز عمل خطے میں تشدد کو بڑھاوا دینے کے مترادف سمجھا جا رہا ہے۔ پاک بھارت تعلقات کبھی مثالی ہمسائیگی پر مبنی نہیں رہے۔ تعلقات میں خرابی کا ذمہ دار بھارت ہے جس نے آزادی کے وقت کشمیر پر طاقت کے ذریعے قبضہ کر لیا۔ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے پہلے دن سے پاک بھارت تعلقات کو امریکہ اور کینیڈا جیسے خوشگوار دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ بانیان پاکستان کی یہ خواہش دراصل پاکستان کی پرامن بقائے باہمی کی پالیسی تھی۔ بھارت کی جانب سے کشمیر پر قبضے کا ردعمل مجاہدین کی تحریک کی صورت میں نکلا۔ ان مجاہدین نے بہت سا علاقہ بھارتی تسلط سے آزاد کرا لیا۔ بھارت مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں چلا گیا۔ جنگ بندی کی درخواست کے ساتھ کشمیر کا تنازع اہل کشمیر کی رائے سے طے کرنے کا وعدہ کر لیا۔ اس وعدے پر آج تک عمل نہیں ہوا بلکہ کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور عالمی برادری سے کئے وعدوں کی قانونی حیثیت تبدیل کرنے کے لئے کئی جنگیں چھیڑ دیں۔ بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں طاقت کے بے تحاشا استعمال نے حریت پسند کشمیریوں کا حوصلہ پست نہیں ہونے دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ تحریک آزادی کشمیر میں تیزی آ رہی ہے جس سے بھارت کو عالمی سطح پر شرمندگی کا سامنا ہے۔ بھارتی سماج میں پہلے دن سے ایک شدت پسند گروہ موجود رہا ہے۔ ذات پات‘ گائو ماتا‘ شدھی‘ شنگھٹن گھر واپسی اور ہندو توا اس شدت پسند ہندو سوچ کی علامتیں ہیں۔ بی جے پی کا جنم ایسے تشدد پسند ہندو گروہوں سے ہوا جو بھارت کو صرف ہندوئوں کا دیس سمجھتے ہیں۔ بھارت میں اقلیتوں پر ظلم توڑ کربی جے پی نے اپنی سیاسی پرورش کی ہے۔ بابری مسجد کی شہادت اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ پھر گجرات میں مسلم کش فسادات میں دو ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا۔ اس وقت نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔ مودی کے غیر جمہوری اور انسانیت سوز طرز عمل کے باعث امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک نے ان کو اپنے ہاں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کیا۔ نریندر مودی نے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تو ہمسایہ ممالک کے سربراہوں کو تقریب میں مدعو کیا۔ یہ ایک فریب تھا جو چند روز بعد کھل گیا جب نریندر مودی سرکاری دورے پر بنگلہ دیش گئے اور وزیر اعظم حسینہ واجد کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران اس بات کا اعتراف کیا کہ بھارت نے پاکستان توڑنے کے لئے عوامی لیگ کی مدد کی۔ بھارتی حکومت اور خود وزیر اعظم نریندر مودی وقتاً فوقتاً اپنے عوام کو پاکستان کے خلاف اشتعال دلاتے رہتے ہیں۔ گزشتہ برس انہوں نے اچانک دعویٰ کر دیا کہ بھارت کے خصوصی کمانڈو دستے نے پاکستان کے علاقے میں داخل ہو کر مجاہدین کا تربیتی کیمپ تباہ کر دیاہے۔ بھارت نے کمانڈو دستے کی پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگوں کی ویڈیو بھی جاری کی۔ پاک فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر نے اس پروپیگنڈے کا فوری جواب دیا اور عالمی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو اس مقام کا دورہ کرایا جہاں بھارت سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کر رہا تھا۔ بھارت کو اس جھوٹ پر شرمندگی اٹھانا پڑی۔ اب جب بھارت میں عام انتخابات قریب ہیں تو نریندر مودی کمال ڈھٹائی کے ساتھ اس جھوٹ کے ذریعے ایک بار پھر اپنے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ ان کا یہ طرز فکر بتاتا ہے کہ بی جے پی اقتدار میں رہی تو پاک بھارت تعلقات میں بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی۔ جولائی 2018ء میں پاکستان تبدیلی کے عمل سے گزرا۔ پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی تو عمران خان نے بھارت کے ساتھ مذاکرات کا عندیہ دیا۔ وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان نے نریندر مودی کو خط لکھ کر ایک بار پھر بات چیت بحال کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ بھارتی حکومت نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر وزراء خارجہ کی سطح پر ملاقات کی حامی بھر لی مگر ایک روز بعد بھارت اس وعدے سے مکر گیا جس پر وزیر اعظم عمران نے شدید ردعمل کا اظہارکیا۔ پاکستان نے بھارتی پنجاب سے آنے والے سکھ یاتریوں کی سہولت کے لئے کرتار پور راہداری کھولنے کا اعلان کیا تو بھارت نے اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی۔ داخلی دبائو کے تحت بھارت نے کرتار پور راہداری کھولنے کی حامی بھری۔ اس موقع پر بھی وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی قیادت کو واضح پیغام دیا کہ پاکستان کے تمام ادارے حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں اور پاکستان خطے میں امن کی خاطر بھارت سے مذاکرات کی بحالی چاہتا ہے۔ بھارت کا طرز عمل پاکستان کی امن کوششوں کے باوجود نامناسب اور عالمی اصولوں کے خلاف ہے۔ بی جے پی بھارت کے سرمایہ دار طبقے کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہی لوگ ہندوتوا کے نام پر بھارتی منڈی کو اپنے قابو میں رکھنا چاہتے ہیں۔ عوام کی فلاح و بہبود سے انہیں کوئی سروکار ہوتا تو بھارت کے 60کروڑ غریبوں کی زندگی میں کچھ بہتری آ چکی ہوتی۔ بھارتی عوام نے بی جے پی اور نریندر مودی پر عدم اعتماد کر دیا ہے اسی لئے عوامی جائزوں میں بی جے پی کی شکست کی پیش گوئی کی جا رہی ہے‘ وزیر اعظم نریندر مودی پاکستان کے خلاف آگ اگل کر اپنی کوتاہیوں سے عوام کی توجہ ہٹانا چاہتے ہیں۔