کراچی (کامرس رپورٹر،اے پی پی)سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ملکی معیشت کی کیفیت پر مالی سال کی تیسری سہ ماہی رپورٹ میں قراردیا ہے کہ بڑھتے ہوئے خسارے نے حقیقی معاشی ترقی کی کارکردگی کا اثر زائل کردیا ہے ۔مالی سال 18 کے دوران حقیقی جی ڈی پی میں توسیع ہوتی رہی اوریہ 13 برسوں کی بلند ترین 5.8 فیصد نمو حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ مہنگائی کے خوش آئند ماحول اور امن و امان کی بہتر صور تحال کے باعث کاروباری احساسات میں بہتری کے نتیجہ میں قرضوں کے استعمال خاص طور پر معین سرمایہ کاری قرضوں میں اضافہ ہوا، تاہم اس بہتر معاشی نمو کیساتھ جڑواں خساروں میں اضافہ ہو ا جو معاشی ترقی کی پائیداری کیلئے مشکلات کا باعث ہے ۔ روپے کی قدر میں کمی کے تناظر میں بلند بیرونی قرض گیری اور باز قدر پیمائی جیسے عوامل کے اثرات نے بھی حکومت کیلئے معاملات بدتر کردیئے ۔گزشتہ روز بینک دولت پاکستان کی جانب سے پاکستانی معیشت کی کیفیت پر جاری کردہ تیسری سہ ماہی رپورٹ میں کہا گیا کہ مالیاتی اعتبار سے اخراجات میں کمی عارضی طور پر دباؤ کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے جبکہ اندورنی مالیات کی درستی کی خاطر ٹیکس بنیاد کو توسیع دینے اور ٹیکس نظام کی کارکردگی بڑھانے کیلئے اصلاحات کی ضرورت ہے ۔رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ فصلوں کے ذیلی شعبوں خاص طور پر کپاس اور گنے میں بہتری سے زراعت کے شعبہ کی کارکردگی کو گزشتہ برس سے بڑھانے میں مدد ملی۔ سی پیک اور سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی)کے باعث تعمیرات اور منسلکہ صنعتوں کی قابل ذکر کارکردگی کے نتیجہ میں صنعتی شعبہ میں نمو بلند رہی۔ خصوصاً بڑے پیمانے کی اشیا سازی (ایل ایس ایم)کی بہتر کارکردگی کو بلند ملکی طلب ، کاروباری ماحول میں بہتری اور کچھ صنعتوں کی پیداواری استعداد میں توسیع سے مدد ملی۔ اجناس پیدا کرنیوالے شعبوں میں مضبوط سرگرمی سے بھی خدمات کے شعبہ کو اپنی نمو کی رفتار برقرار رکھنے کا موقع ملا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ اہم غذائی اشیا جیسے گندم، شکر اور چاول کی وافر فراہمی کے نتیجہ میں غذائی مہنگائی میں کمی آئی جس سے غیر غذائی اشیا میں بلند مہنگائی کے اثر کو زائل کرنے میں مدد ملی۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کے مہنگائی پر اثرات مالی سال 18 کی تیسری سہ ماہی میں ظاہر ہوئے ۔ جب مہنگائی کی توقعات بڑھیں تو سٹیٹ بینک نے جنوری 2018ء میں پالیسی ریٹ میں اضافہ کردیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ بیرونی شعبہ میں برآمدات اور ترسیلات زر میں بحالی کے باوجود تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ اور ٹرانسپورٹ اور مشینری میں بلند درآمدات کی وجہ سے جاری کھاتے کا خسارہ 12.1 ارب ڈالر ہوگیا جو کسی مالی سال کی جولائی تا مارچ کی مدت کا سب سے زیادہ اضافہ ہے ۔ اگرچہ جولائی تا مارچ مالی سال 18 کے دوران مالی رقوم کی آمد گزشتہ برس کے مقابلہ میں زیادہ تھی تاہم یہ جاری کھاتہ کے خسارہ کی سرمایہ کاری کیلئے اب بھی ناکافی تھی۔ نتیجتاًسٹیٹ بینک کے ذخائر مارچ کے اختتام تک کم ہوکر 11.6 ارب ڈالر ہوگئے ، نیز جولائی تا مارچ مالی سال 18 کے دوران پاکستانی روپے کی قدر میں 9.6 فیصد کی مجموعی کمی آئی۔مالیاتی لحاظ سے رپورٹ میں یہ نشاندہی کی گئی کہ جولائی تا مارچ مالی سال 18 میں مالیاتی خسارہ پورے سال کے ہدف 4.1 فیصد سے بڑھ کر جی ڈی پی کے 4.3 فیصد تک پہنچ گیا۔ جاری و ترقیاتی اخراجات میں زبردست اضافہ، جس کی وجہ بڑی حد تک صوبائی اخراجات میں اضافہ ہے ، اور دوسری طرف مالی سال 18 کی تیسری سہ ماہی میں ہونیوالی سست نمو بھی اس بلند تر خسارے کا سبب بنی۔ رضاکارانہ ادائیگیوں اور بینکوں کی کم نفع آوری کے باعث بلاواسطہ ٹیکس وصولی سست روی کا شکار ہوئی جو محاصل کی نمو میں کمی پر منتج ہوئی۔ نمو کی موجودہ رفتار قائم رکھنے کا انحصار اندرونی اور بیرونی خسارہ کے موثر انتظام پر ہے ۔ بیرونی محاذ پر ضرورت اس امر کی ہے کہ قلیل مدتی مالکاری کے حصول کیساتھ ساختی مسائل کو حل کیا جائے جو وسط اور طویل مدت میں مسابقت پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ مالیاتی اعتبار سے اخراجات میں کمی عارضی طور پر دباؤ کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے ۔