لاڑکانہ کے لوگوں کو یہ یقین ہو چلا تھا کہ اب ان کی حالت زار دیکھنے اور ان کے دکھ سننے کوئی نہیں آئے گا۔ لاڑکانہ کے لوگوں سے تو ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کوئی نہیں ملا۔ جب بھٹو زندہ تھے تب وہ نہ صرف ہر ماہ لاڑکانہ میں آتے تھے بلکہ وہاں رہتے بھی تھے اور اہلیان شہر سے ملتے بھی تھے۔ بھٹو سے ملنے والوں میں صرف لاڑکانہ کے وڈیرے نہیں ہوتے تھے۔ وہ لاڑکانہ کے غریبوںسے بھی ملتے تھے۔ وہ لاڑکانہ کے نوجوان سیاسی کارکنوں سے بھی ملاقات کرتے تھے۔ ان کے دروازے لاڑکانہ کے اس فقیر کے لیے بھی کھلے رہتے تھے جو شہر کا مشہور کردار تھا‘ جو گدھے پر بیٹھ کر خیرات مانگتا تھا۔ جب ایک بار وہ بھٹو کی گاڑی کے سامنے آیا تو بھٹو نے اسے اپنے پاس بلایا۔ اس وقت بھی وہ اپنے گدھے سے اتر کر آنے کے بجائے گدھے پر سوار رہا اور گدھے پر بیٹھے ہوئے بھٹو کی کار کے دروازے کے قریب آیا تب بھٹو نے اسے بے تکلفی سے کہا ’’فقیر سائیں دعا کریں‘‘ فقیر نے جواب دیا ’’بھٹو صاحب آپ تخت پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں آپ کو کون سی دعا دوں؟ اگر تخت سے بھی زیادہ ترقی کرنی ہے تو پھر آئیں اور اس فقیر کے گدھے پر بیٹھ جائیں‘‘ یہ واقعہ اس شہر کا ہر فرد جانتا ہے۔ لاڑکانہ کے لوگ آپ کویہ بھی بتائیں گے کہ فقیر کی یہ بات سن کر بھٹو صاحب بہت ہنسے اور پھر اسے اپنے گھر آنے کی دعوت دی تو فقیر بولے ’’میں آؤں گا ضرور مگر میری ایک شرط ہے۔ اگر میں آیا تو پھر میں اپنے گدھے پر بیٹھ کر آؤں گا‘‘ بھٹو نے بولا’’فقیر سائیں منظور ہے‘‘ پھر پورے شہر نے دیکھا کہ وہ فقیر دعوت والے دن سئیکارنو چوک سے مڑا اور بھٹو کے گھر میں گدھے پر بیٹھ کر داخل ہوا اور بھٹو ان کا استقبال کرنے باہر آئے۔ وہ شہر جس کے فقیروں سے فخر ایشیا عزت سے ملا کرتا تھا ؛ اب شہر کی فریاد سننے والا کوئی نہیں۔ لاڑکانہ کے لوگوں نے ایک عرصے سے ایسی کوئی بڑی شخصیت نہیں دیکھی جو ان کے پاس آئے اور ان کے ساتھ بیٹھے اور ان سے ان کے مسائل کے بارے میں معلومات حاصل کرے۔ لاڑکانہ کی یتیمی کو چار عشرے گزر رہے ہیں۔ وہ شہر جس کو اندورن سندھ کا پیرس بنانے کے لیے بھٹو نے بھرپور کوشش کی۔ جہاں عالمی شخصیات کے حوالے سے چوراہے؛ ہسپتال اور کھیلوں کے میدانوں کے نام رکھے گئے۔ جہاں موہن جو داڑو کی تہذیب کو اجاگر کرنے کے لیے جدید ایئرپورٹ تعمیر کیا گیا۔ جہاں موہن جو داڑو کے ریسٹ ہاؤس میں ہمیشہ غیر ملکی سیاح رہتے تھے اور وہ موہن جو داڑو پر تحقیق کرتے تھے۔ ان کی حفاظت کے لیے پولیس بھی برائے نام ہوا کرتی تھی۔ وہ امن کا دور تھا۔ اس دور میں گورے سیاح سندھ کے دیہاتوں میں بھی محفوظ تھے۔ یہ وہی لاڑکانہ ہے جو ایم آر ڈی کی تحریک کے بعد ڈاکوؤں کا مرکز بن گیا۔ بدامنی نے نہ صرف سندھ کی سیاحت کو اجاڑ دیا بلکہ یہ بیماری اس قدر بڑھی کہ دن دہاڑے شہر سے بیوپاریوں کواغوا کیا جاتا تھا۔ ان کے ورثا سے من مانی رقم بٹوری جاتی تھی۔ اس دھندے میں شہر کے بااثر وڈیرے ملوث تھے۔ حکومت کو سب معلوم تھا ۔ مگر اس وقت کی حکومت اس چراغ جیسی تھی جس کے تلے اندھیرا ہوتا ہے۔ مگر کیا ہم اس بات کا دوش صرف اس وقت کی حکومت پر عائد کریں؟ بھٹو کے بعد بھٹوکے نام پر بننے والی پیپلز پارٹی کی حکومتوں نے اس شہر کے لیے کیا کیا؟ وہ شہر جس میں ایک میڈیکل کالج تھا ۔ وہ شہر جس میں بہت اچھے آرٹسٹ تھے۔ وہ شہر جس میں بہت مشہور رائٹر تھے۔ وہ شہر جس میں عوام کی خدمت کرنے کا جذبہ رکھنے والے افراد کی کوئی کمی نہیں تھی؛ ان اداروں کو ترقی دلوانے اور ان افراد کا حوصلہ بڑھانے کے بجائے بھٹوز کو ان کے آبائی گاؤں گڑھی خدابخش کے قبرستان میں قید کیا گیا اور لاڑکانہ کو وہ گزرگاہ بنادیا گیا جہاں سے کرائے کے سیاسی قافلے شہر کے دل کو روندتے ہوئے گزرتے تھے۔ اس شہر نے تاریخ کا ایک بہت بڑا دور درد میں تڑپتے ہوئے گزارا ہے۔ اب اس شہر کو درد کا احساس تک نہیں ہوتا۔ اب یہ شہر درد کا عادی ہو چکا ہے۔ اب اس شہر نے غموں کے ساتھ جینا سیکھ لیا ہے۔ اب جب بھی اپریل کے ماہ میں بھٹو کی یا دسمبر میں بینظیر کی برسی کے لیے لینڈ کروزر والے قافلے شہر کی تنگ تاریک گلیوں سے گزرتے ہیں تو شہر کے لوگ انہیں اس طرح دیکھتے ہیں جس طرح ایک مفتوح ملک کے لوگ فاتح فوج کو دیکھتے ہیں۔ یہ شہر اب اپنے درد بھی بیان نہیں کرتا۔ یہ شہر شکوہ تو کیا اب کسی سے کچھ نہیں کہتا۔ یہ شہر ایک مظلوم گونگے کے مانند صرف پتھرائی ہوئی آنکھوں سے دیکھتا رہتا ہے۔ اس شہر کے لوگ کبھی اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتے تھے۔ اس شہر کے لوگوں کو فخر کا احساس تھا کہ وہ نہ صرف موہن جو داڑو کی تہذیب کے وارث ہیں بلکہ ان کا ہم شہری ذوالفقار علی بھٹو دنیا کا مشہور لیڈر اور قائد عوام بن چکا ہے۔ اب اس شہر کے کندھوں پر شہیدوں کی نعش ہیں۔ پہلے بھٹو کی نعش آئی۔ پھر اس کے چھوٹے بیٹے شاہنواز کی نعش آئی۔ پھر مرتضی بھٹو کی نعش آئی۔ پھر دختر مشرق بینظیر بھٹو کی نعش آئی۔ اور پھر مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو کی نعش آئی۔ بات صرف ان نعشوں کی نہیں ہے۔ اس شہر کے لوگوں نے یہاں سے گزرتے ہوئے اچھا اور بااخلاق کردار رکھنے والے قومپرست لیڈر بشیر قریشی کی نعش دیکھی اور اس شہر نے جمعیت علماء اسلام کے وطن دوست لیڈر خالد محمود سومرو کی نعش دیکھی۔ اس شہر نے نہ صرف اپنی حسرتوں اور اپنے خوابوں بلکہ اس شہر نے اپنی گندگی سے بھری ہوئی گلیوں سے اپنے ان بچوں کی نعشیں بھی اٹھائیں جن بچوں کی پہلے آبرو ریزی کی گئی اور پھر انہیں بے دردی سے قتل گیا گیا۔ اس شہر نے اس نوجوان لوک فنکارہ کی نعش کو بھی اٹھایا جو چھ ماہ کے حمل سے تھی اور ایک عیاش وڈیرے کے بیٹے نے اسے دادو میں گولی کا نشانہ بنایا اور اس کی کوکھ اپنے بچے کی قبر بن گئی اور اس فنکارہ کو اپنے بچے کے ساتھ لحد میں لٹایا گیا۔ اس شہر نے بہت درد دیکھے ہیں۔ اس شہر کو اس بات کا یقین ہو چلا تھا کہ اب یہاں کوئی نہیں آئے گا۔ اگر اس شہر کی بند آنکھیں کسی آہٹ پر کھل بھی گئیں تو اس کی کیفیت فیض کے ان الفاط جیسی تھی : پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزر اجنبی خاک نے دھندلا دئیے قدموں کے سراغ گل کرو شمعیں بڑھادو مئے مینا ایاغ اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کرلو اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا!! اس قسم کا یقین ہو چکا تھا اس شہر کو جس کے لوگوں سے پیپلز پارٹی کا وزیر اعظم اوروزیر اعلیٰ تو کیا ایک ادنی سا وزیر بھی ملنا گوارا نہیں کرتا تھا۔ جب کوئی کمسن بچی ریپ ہونے کے بعد قتل ہوجاتی اور اس کے ورثا شرمسار آنکھوں میں اشک بھر کر احتجاج کرتے تو سابق وزیر داخلہ سندھ سہیل انور سیال خود آنے کے بجائے کسی چمچے کے ہاتھوں ایک لاکھ کا چیک بھیج دیتے۔ وہ شہر صرف مایوسی کی گہرائی میں گڑھ چکا تھا جس شہر کے نوجوانوں کو آدھی رات کو اٹھایا جاتا اور ان کو عدالتوں میں پیش نہیں کیا جاتا اور ان کی بیٹیاں اور بہنیں پریس کلبوں کے سامنے احتجاج کرتی رہتی تھیں۔ وہ شہر ایک شہر کی حیثیت سے اجڑ گیا۔ وہ شہر جس میں کسی عاشق کی نشانی بھی تھی۔ جس میں کسی معشوق کی جوانی بھی تھی۔ جس میں ایک محبت کی کہانی بھی تھی۔ وہ محبت کی کہانی رسوائی کا سبب بن چکی تھی۔ مظلوم لوگوں نے انصاف کے آمد کی امید ترک کردی تھی۔ اس مایوس موسم میں پاکستان کے چیف جسٹس کا لاڑکانہ میں آنا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اس شہر کو آنکھ بھر کر دیکھا اور انہوں نے کہا کہ بھٹوکے شہر کا اتنا برا حال!!؟ چیف جسٹس کے یہ الفاظ اگر سندھ کی نہیں تو کم از کم اس شہر کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے جس شہر کی مظلومیت کو چیف جسٹس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور انہوں محسوس ہوا کہ اس شہر میں سرکاری اور انتظامی سطح پر قانون اور انصاف تو کیا اس شرم کی تلاش بھی عبث ہے جس کے قدموں کے نشان بھی اب اس دھرتی پر باقی نہیں بچے جو دھرتی کبھی عظیم تہذیب کا گہوارہ تھی ۔