مکرمی !رمضان المبارک کے تیسرے عشرے کی آمد کے تھ ہی کورونا کی خطرناک ترین لہر کی پرواہ کیے بغیر بھکاریوں کی فوج ظفر موج میدان میں کود پڑی ہے۔دفتر ہو یا گھر، مسجد ہو یا چوک، بس سٹاپ ہو یا شاپنگ سنٹر بازار ہو یا دوکان صبح سے شام تک ہر طرف آپ کو بھکاری بھیک مانگتے نظر آہیں گے۔اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ اسلام میں صدقہ و خیرات کی بہت اہمیت ہے مگر اسلام میں بھیک مانگنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے منع فرمایا ہے۔حضوراکرمﷺ نے بھی مانگنے کو نا پسند کیا ہے اور محنت کی کمائی سے گُزر بسر کا درس دیا ہے۔ صحابہ کرام بھی محنت سے لوگوں کی خدمت میں کوئی جھجھک محسوس نہ کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق خلیفہ ہوتے ہوئے بھی نہ صرف اپنا کام کرتے بلکہ بیوہ عورتوں اور بوڑھے ہمسایوں کے کام کاج بھی کر دیا کرتے تھے۔ حضرت عمرفاروق لوگوں کا حال جاننے کے لیے رات کو گشت کرتے اور محنت کر کے ضرورت مندوں کی خدمت کیا کرتے تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صدقہ و خیرات ضرور کریں مگر پیشہ ور بھکاریوں کی بجائے سفید پوش افراد کی مدد کریں جو چمٹ چمٹ کر سوال نہیں کرتے اور اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے معاشی تنگدستی کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔ (رشید احمد نعیم‘ پتوکی)