آج تیرہ رجب المرجب ہے‘ معتبر روایات کے مطابق آج سے تقریباً چودہ سو پینسٹھ سال قبل؟30عام الفیل‘ اظہار نبوت سے دس سال پہلے ‘ حرم کعبہ کے اندر ‘ آج‘ یعنی 13رجب کے دن‘ کعبہ کے متولی اور بنو ہاشم کے سردار حضرت ابو طالب کے ہاں ایک ایسی جلیل القدر ہستی اور عظیم المرتبت شخصیت کی ولادت ہوئی‘ جن کے اسلام کو نبی اکرم رسولِ محتشم ﷺ نے سب پر مقدم‘ جن کے علم کو سب سے افضل اور بُردباری میں سب سے بڑھ کر قرار دیتے ہوئے‘ اس کی عظمت اور فضیلت کا اعلان کیا۔ آپ کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اَسد نے‘ نومولود کو حضور ﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ نے ’’علی‘‘ کے نام سے موسوم کیا‘ اپنے لعابِ دہن کی گُھٹی سے سرفراز کیا اور اپنی زبانِ مبارک نومولود کے منہ میں ڈالی‘ جسے وہ چوستے چوستے سو گیا‘ ایک روایت کے مطابق آپؓ نے ولادت کے بعد آنکھیں ہی اس وقت کھولیں‘ جب حضور اکرم ﷺ نے آپ کو اپنی گود میں لیا۔ گویا دنیا میں آنے کے بعد‘ جس چہرے کی سب سے پہلے زیارت کی‘ وہ نبی اکرمﷺ کا تھا اور پھر حضورﷺ کی ظاہری زندگی کی 33سالہ رفاقت میں‘ آپ کی نگاہیں ہمیشہ اسی چہرہ انور ہی پر مرکوز رہی‘ یہاں تک کہ تدفین کے وقت ‘ لحدِ اطہر میں جس ہستی کی نگاہوں نے چہرہ مصطفی ﷺ کو دیکھتے ہوئے‘ سب سے آخر میں سلام عرض کیا‘ وہ بھی علی المرتضیٰؓ تھے۔ حضور ﷺ کے دادا‘ حضرت عبدالمطلب۔ عرب کی نہایت جلیل القدر ہستی تھے‘ آپ نے اللہ سے کثیر اولاد کی دُعا کی۔ جو قبول ہوئی‘ حضور کے والد حضرت عبداللہ اور حضرت علی المرتضیٰ کے والد حضرت ابو طالب۔ فاطمہ بنت عمرو کے بطن سے تھے‘ یہی وجہ ہے کہ حضرت عبدالمطلب نے دنیا سے رخصت ہوتے ہوئے‘ آپؐ کی کفالت‘ حضرت ابو طالب کے ذمّہ فرمائی۔ جس کا انہوں نے حق ادا کیا۔ تاریخِ عرب میں یمن کے رہنے والے مشرم بن و عیب کی التجا اور دُعا مرقوم ہے‘ جس کے مطابق وہ رات کے آخری پہر میں‘ جبکہ رحمتِ الٰہیہ کا نزول ہو رہا ہوتا تھا۔ تو یہ دُعا کیا کرتا تھا کہ الٰہی ! زندگی کا سورج ڈوبنے کو ہے‘ حیات کی لَو مدہم ہو رہی ہے‘ اِن آخری ساعتوں میں نبی آخر الزمان یا ان کے کسی قریبی عزیز کی زیارت کے شرف سے بازیاب فرما۔ یمن کا یہ بزرگ‘ کتب سماوی کا ماہر اور آسمانی صحیفوں کا عالم تھا‘ جس کی عمر ایک سو نوے سال بیان ہوئی ہے۔ اس کی دعا کی قبولیت کا وقت آن پہنچا‘ قریشِ مکہ تجارت کے لئے ایک سفر شام کی طرف اور ایک سفر یمن کی طرف کرتے تھے۔ قریش کے تجارتی کارواں گرمیوں میں شامل کی طرف اور سردیوں میں یمن کی طرف جاتے‘ کعبہ کے متولی ہونے کے سبب ان کے تجارتی کارواں کو خصوصی سہولیات میسر تھی‘ بالخصوص روم‘غسان‘ حبشہ‘ کِسری وغیرہ نے ان کی جانوں اور تجارتی قافلوں کی حفاظت کی ضمانت دے رکھی تھی‘ جس کے سبب جب یہ کسی خطّے میں اُترتے تو لوگ ان کے اعزاز و اکرام کا بڑا خیال رکھتے‘ قریش کا تفوق اور برتری پورے عرب سوسائٹی میں مُسلم تھا‘ جبکہ ان میں بنو ہاشم کی حیثیت ایک گلِ سرسید کی تھی۔ تپتے صحرائوں اور سنگلاخ چٹانوں کو عبور کرتے ہوئے حضرت ابو طالب ایک عرصہ بعد یمن کی سرزمین پر تشریف فرما ہوئے‘ اہم امور سے فراغت کے بعد یمن کے زعماء سے ملاقات کے دوران مشرم سے بھی ملے۔ یہ جان کر کہ آنے والا ابو طالب بن عبدالمطلب۔ مکہ کے بنو ہاشم قبیلے کا سردار ہے‘ مشرم اپنی نشست سے اُٹھا۔ پیشوائی کو آئے بڑھا‘ مہمان کی پیشانی کو بوسہ دیا‘ اپنی دُعا کو قبولیت کے یقین کے سانچے میں ڈھلتا ہوا پایا اور کہا: ’’میں نے کتب سابقہ میں پڑھا ہے کہ عبدالمطلب کی اولاد سے دو لڑکے پیدا ہوں گے‘ ایک نبی آخر الزماں ہو گا‘ جن کے باپ کا نام عبداللہ ہو گا۔ ان کی ولادت سے تیس سال بعد دوسرے لڑکے کی پیدائش ہو گی‘ جس کے باپ کا نام عبد مناف اور کنیت ابو طالب ہو گی‘ اس کی کنیت ‘ نام پر غالب ہو گی وہ لوگوں میں اس نام سے معروف ہو گا اور اس کے ہاں پیدا ہونے والا لڑکا‘ حکمت و دانائی کا منبع اور معرفت و ولائیت کا سرخیل ہو گا‘‘اس نے پوچھا کہ کیا عبداللہ کے ہاں لڑکا پیدا ہو گیا ہے؟ جناب ابو طالب نے کہا کہ ’’کیوں نہیں! اب تو ان کی عمر 29سال ہونے کو ہے‘ ان کا اسم گرامی’’محمد‘‘ ہے۔‘‘ مشرم نے کہا کہ تمہیں مبارک ہو‘ اسی سال تمہارے ہاں بھی ایک بیٹا پیدا ہو گا‘ جو امام المتقین اور پیشوائے مومنین ہو گا‘ یہاں سے جب واپس لوٹو‘ تو حضرت محمد(ﷺ) کو میرا سلامِ عقیدت پیش کرنے کے بعد عرض کرنا کہ مشرم‘ آپ کے نیاز مندوں میں سے ہے‘ اللہ تعالیٰ کو واحد اور آپ کو آخری نبی مانتا ہے اور جب تمہارے ہاں وہ ہستی پیدا ہو تو اُسے بھی میرا سلام محبت پیش کرنا‘ تاریخ لکھتی ہے کہ مشرم نے اپنی حیثیت کا اعتبار منوانے کی خاطر‘ سامنے موجودہ انار کے خشک درخت کو اشارہ کیا‘ جو سرسبز و شاداب ہو گیا‘ کعبہ کے اندر‘ حضرت فاطمہ بنت اَسد کے ہاں تولد ہونے والا یہی بچہ‘ باب مدینتہ العلم‘سرخیل اولیاء امام المشارق و المغارب‘ پیشوائے اہلِ تصوف‘ابوالحسن علی المرتضیٰ کرم اللہ تعالی وجہہ الکریم کے نام سے معروف ہوا۔ آپ کی والدہ فاطمہ بنت اَسد ‘ جو رشتے میں حضورﷺ کی چچی‘ جبکہ آپ ﷺ نے ساری زندگی ان کو‘ اپنی والدہ کا درجہ دیا‘ آپ کا وصال مدینہ منور میں ہوا‘ جنت البقیع کے قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی۔ قبر تیار ہوئی‘ آپ ﷺ اس میں ازخود لیٹ گئے اور پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حی و قیوم ہے موت اور زندگی عطا کرنے والا ہے اور پھر دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے:یااللہ!فاطمہ بنت اَسد کی مغفرت فرما اور ان کی قبر کو (حد نگاہ تک) فراخ کر دے‘ بے شک تو ارحم الراحمین ہے۔‘‘ حضور ﷺ قبر سے باہر نکلے تو آپ کی چشمانِ مقدس سے آنسو بہہ رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے عرض کی:’’حضورؐ! آپ نے اس خاتون کے بارے میں جو کرم نوازی فرزمائی ہے‘ ایسا معاملہ کسی اور کے ساتھ کبھی نہیں فرمایا‘ اس کا سبب کیا ہے؟۔آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میرے والدہ کے بعد یہی میری ماں تھیں‘ ابو طالب جب دعوت کرتے اور گھر کے لوگوں کے ساتھ مجھے بھی شریک کرتے‘ تو یہ خاتون میرے حصے کا کچھ کھانا بچا کر رکھ لیتیں‘ جسے میں پھر کسی وقت کھا لیا کرتا۔ ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے خبر دی ہے کہ یہ خاتون جنتی ہیں‘ نیز جبرائیل امین نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے ستر ہزار فرشتوں کو حکم فرمایا ہے‘ کہ فاطمہ بنت اَسد پر درود بھیجیں۔ (یعنی ان کے لئے دعائے رحمت و مغفرت کریں) ٭٭٭٭٭