وزیراعظم عمران خان بدھ کو کراچی میں فرما رہے تھے کہ 18ویں ترمیم نے وزیراعلیٰ کو آمربنادیا،اس میں جلد بازی میں کئی ایسی چیزیں ڈال دی گئیں جنہیں ختم کرنا ہوگا۔ اختیارات صوبوں کو پہنچ گئے لیکن صوبوں نے اختیارات بلدیات کو نہیں دئیے، انکا کہنا تھا این ایف سی ایوارڈ میں بھی خامیاں ہیں، یہ ناقابل عمل ہے، یہ کیسا سسٹم بنایا گیا کہ وفاق صوبوں کو پیسے دے دیتا ہے اور خود 700 ارب خسارے میں چلا جاتا ہے۔ اسی دن اسلام آباد میں ایک اور سیاسی’’دھماکا‘‘ ہوا جب بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) کے سربراہ اختر مینگل جو معروف بلوچ قوم پرست سردار عطااللہ مینگل کے صاحبزادے ہیں نے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔ حکومت معروضی حالات کو مدنظر رکھے بغیر اپنے مرکزیت پسند ایجنڈے پر قائم ہے۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ خان صاحب بوجوہ اٹھارویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ سے اس تاویل پر جان چھڑانا چاہتے ہیں یا اس میں صرف تبدیلی کے خواہش مند ہیں کہ آئین میں ان ترامیم نے جو پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں اتفاق رائے سے منظور کی گئی تھیں وفاق کو قلاش کر دیا ہے۔ یہ اسی منفی سوچ کا مظہر ہے کہ مرکز صوبوں کو وسائل دیتا ہے جو ان کی ضرورت سے زیادہ ہیں اور اس طرح وفاقی حکومت کے اخراجات پورے نہیں ہوتے۔ اس صورتحال میں اس حقیقت کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ صوبے ہی پاکستان کی اکائی ہیں، مرکز تو تکنیکی طور پر اسلام آباد فیڈرل ایریا ہے لہٰذا جب تک صوبے اور مرکز ایک لڑی میں پرو کر اکٹھے نہ چلیں علیحدگی پسند رجحانات تقویت پاتے رہیں گے۔ پیپلزپارٹی کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اس جماعت کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو 1973ء کا متفقہ آئین دیا جس کا مرکزیت پسند طالع آزماؤں نے اپنے مخصوص مفادات کی خاطر حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا لیکن پھر بھی کسی آمر کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ اس آئین کو سرے سے ہی ختم کردے۔ اس کا زیادہ کریڈٹ میاں نوازشریف کو بھی جاتا ہے کہ انہوں نے اٹھارویں ترمیم کی بطور لیڈر آف اپوزیشن حمایت کی، یہ پنجاب بالخصوص مسلم لیگ (ن) کے ماضی کے رویے کے قطعاً برعکس تھا۔ بدقسمتی سے ہمارے موجودہ حکمرانوں کو پاکستان کی فیڈریشن کے مسائل اور پیچیدگیوں کا ادراک ہی نہیں ہے۔ مثلاً خان صاحب کراچی گئے تو ان کی ترجیحات میں ایک معروف کاروباری شخصیت کے عشائیہ میں جانا تھا نہ کہ وزیراعلیٰ سندھ جو پاکستان کے دوسرے بڑے صوبے کے چیف ایگزیکٹو ہیں سے ملاقات کرنا۔ ان کا سارا وقت اپنی پارٹی اور اتحادیوں کے ساتھ میل جول میں گزرا جس میں کوئی حرج نہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اگر دورے کا علانیہ مقصدکورونا وبا کے ماحول میں صوبے کے سٹیک ہولڈرز سے ملنا تھا تو وزیراعلیٰ جو اپنی کابینہ کا اجلاس محض اس لیے موخر کرکے بیٹھے تھے کہ کہیں وزیراعظم طلب نہ کر لیں کو نظر انداز کرنے اور اپوزیشن کو کھڈے لائن لگانے کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا۔ اختر مینگل نے یہ کہہ کر تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد سے علیحدگی اختیار کر لی کہ یہاں ان کی آواز سننے والا کوئی نہیں۔ انہوں نے یہ بھی انکشاف کیا کہ حکومتی جماعت کیساتھ پہلا معاہدہ 8 اگست 2018ء کو ہواجس پر شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور یار محمد رند نے دستخط کئے تھے لیکن دو سال گزرنے کے باوجود اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا حالانکہ بی این پی( مینگل) نے حکومت کے ساتھ تعاون جاری رکھا، وزیراعظم، صدر، سپیکر، ڈپٹی سپیکر، چیئرمین سینیٹ کے انتخاب سمیت ہر موقع پر کھل کر تعاون کیا۔ اپوزیشن کے علاوہ خود حکومتی ارکان کی طرف سے بھی ان پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ بک گئے ہیں۔ اختر مینگل کا کہنا ہے ان کیساتھ کئے گئے چھ نکاتی معاہدے کی کسی ایک شق پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔ مینگل صاحب کا سب سے بڑا مطالبہ لاپتہ افراد کی بازیابی ہے لیکن اس ضمن میں کوئی پیش رفت ہونے کے بجائے بقول بلوچ رہنما مزید پانچ سو افراد کو غائب کر دیا گیا ہے، اسی طرح بی این پی (مینگل) کے مطالبات میں بقول ان کے بلوچ قوم کے خلاف خفیہ اور کھلے فوجی آپریشن بند کرنے، بلوچ سیاسی جماعتوں کے معاملات میں ایجنسیوںکی مداخلت ختم کرنا، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد، وفاقی حکومت میں بلوچستان کے لیے چھ فیصد کوٹے پر عملدرآمد، افغان مہاجرین کی فوری واپسی اور صوبے میں پانی کے بحران کے حل کے لیے ڈیم کا قیام شامل ہے۔ بی این پی (مینگل) گزشتہ دو سال میں متعدد بار حکومت چھوڑنے کی دھمکی دے چکی ہے،شاید حکمران جماعت پی ٹی آئی کی قیادت غلط طور پر یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ یہ کبھی برسر اقتدار جماعت کو خیرباد نہیں کہیں گے، انہیں شاید یہ بھی ادراک نہیں تھا کہ بلوچ نیشنلسٹ ’’لوٹے‘‘ نہیں ہیں بلکہ ووٹروں اور سپورٹروں کے مفادات کو اتنی آسانی سے تج نہیں کر سکتے۔ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اپوزیشن تو کجا وزیراعظم کا اپنے اتحادیوں سے بھی تال میل نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین یہ گلہ کر چکے ہیں کہ جب وہ شدید علیل تھے تو خان صاحب نے انہیں تیمارداری کیلئے فون تک نہیں کیا، قومی اسمبلی میں بھی وہ شاذ ہی آتے ہیں لہٰذا ان کا اپنے پارٹی کے ارکان اسمبلی سے بھی بہت کم رابطہ ہے۔ یہ سب کچھ پارلیمانی نظام کی روح کے خلاف ہے۔ خان صاحب کے ایسے معاملات میں یک رکنی ’’فائر بریگیڈ‘‘ جہانگیرترین ہی تھے جو وزیراعظم کے معتمد خصوصی ہونے کی بنا پر کچھ وعدے و عید کر کے ناراض اتحادیوں کو راضی کر لیتے تھے۔ جمعرات کووزیراعظم نے پرویز خٹک کو اتحادیوں کے خدشات دور کرنے سے متعلق ٹاسک دے دیا۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں اسد عمر، پرویز خٹک، اسد قیصر، شفقت محمود اور بابر اعوان شریک تھے، اجلاس میں بی این پی مینگل سے ہونے والے مذاکرات اور رابطوں پر بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں بی این پی مینگل کے 6 مطالبات کے نکات پر عملدرآمد کا جائزہ لیا گیا، جن نکات پر عمل نہیں ہوا ان کی وجوہات بی این پی مینگل سے شیئر کرنے کی ہدایت کی گئی۔وزیراعظم نے ہدایت کی کہ بی این پی مینگل سے دوبارہ باضابطہ رابطہ کیا جائے، اس کے مطالبات اور خدشات دور کئے جائیں۔لیکن اب مذاکرات کا کامیاب ہونا مشکل نظر آرہا ہے کیونکہ بلوچستان کے حالات دگرگوں ہیں۔ حکومتی اتحاد کو قومی اسمبلی میں 180 ارکان کی حمایت حاصل ہے، خان صاحب 176 ووٹ لے کر وزیراعظم بنے تھے جبکہ اپوزیشن 159 ارکان پر مشتمل ہے۔ اس میں اب بی این پی کے چار ارکان قومی اسمبلی شامل ہو جائیں گے، شاید حکومت کو فوری طورپر کوئی خطرہ نہ ہو لیکن اب باقی ماندہ اتحادیوں بالخصوص مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور چندآزاد ارکان پر اس کا انحصار بڑھ جائے گا۔ مسلم لیگ ق کوہی لیں، ان کی قومی اسمبلی میں پانچ اور پنجاب میںدس نشستیں ہیں۔ اب مرکز اور پنجاب میں چودھریوں کی چودھراہٹ بڑھ جائے گی۔ چودھری پرویزالٰہی بڑے شریفانہ انداز میں حکمران جماعت سے گلے شکوے کرتے رہتے ہیں لیکن شاید اب ان کے لہجے میں بھی مزید تلخی آ جائے لیکن ایم کیو ایم تو ماضی میں اپنے اتحادیوں کو بلیک میل کرنے میں خاصی مشہور ہے، اس کی فرمائشیں بھی خان صاحب کو پوری کرنا پڑیں گی۔ یہ بھی امکان ہے کہ اپوزیشن ایک صفحے پر اکٹھی ہو کریہ مطالبہ داغ دے کہ خان صاحب کی حکومت اعتماد کا ووٹ حاصل کرے لیکن فی الحال اس کا امکان کم ہے تاہم حکمرانی کے موجودہ انداز زیادہ عرصہ نہیں چل سکتے۔ خان صاحب کو محض ’’خلائی مخلوق‘‘ پر انحصار کرنے کے بجائے اتحادیوں، اپوزیشن اور خود اپنی جماعت کے بارے میں روئیے میں مثبت تبدیلی لانا پڑے گی، مزید برآں انہیں اس کا بھی احساس ہونا چاہیے کہ پاکستان میں صدارتی نہیں وفاقی پارلیمانی نظام نافذ ہے۔ پارلیمانی نظام میں وزیراعظم دیگر پارلیمنٹیرین کے برابر ہوتا ہے لہٰذا شاہانہ رویوں کو ترک کرکے چھوٹے صوبوں کی حساسیت کا خیال رکھنا چاہیے صرف اسی صورت میں جمہوریت اور فیڈریشن کی گاڑی آگے چل سکتی ہے۔