ابن ِخلدون کو اہل ِمغرب نے بھی، علم ِتاریخ کا بانی تسلیم کیا ہے۔ عمرانیات میں بھی، کتنے ہی نئے نظریے اور زاویے، اس فرد ِفرید نے متعارف کرائے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ مستقبل اور ماضی، یوں باہم مِلے ہوئے ہیں، جیسے ایک قطرہ دوسرے قطرے میں! ابن ِخلدون نے سلطنتوں اور بڑی طاقتوں کا مشاہدہ بہت قریب سے کیا۔ اس کے سوانح سے پتا چلتا ہے کہ وہ کہیں ٹِکا نہیں رہا، بلکہ ساری عْمر ع دن کہِیں رات کہیِں، صبح کہِیں شام کہِیں کی طرح بے قرار گزری۔ قدرت نے اسے زمین کا گز، بے وجہ نہیں بنایا۔ یہ ساری تیاری تھی اس کی معرکتہ الآرا تصنیف "مقدمہ" کے سلسلے میں۔ سچ کہا اقبال نے ع کہ فطرت خود بخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی ابن ِخلدون نے سلطنتوں اور بڑی طاقتوں کی عْمر ِطبعی بھی، متعین کی ہے۔ چالیس برس کا عرصہ برابر ہوتا ہے ایک جَیل کے۔ وہ کہتا ہے کہ بڑی طاقتیں تین اَجیال یعنی ایک سو بیس سال تک قائم رہتی ہیں۔ پہلا جَیل اْٹھان کا، دوسرا استحکام اور قرار کا، اور آخری، زوال کا ہوتا ہے۔ سات سو سال پہلے، خدا جانے، اس کے زیر ِنظر کون سی تحریریں اور کتابیں رہی ہوں گی، جو آج دستیاب نہیں ہوں گی۔ مگر تاریخ کا مطالعہ، آج بھی یہی کہتا ہے کہ ع ایک کو ایک، کھائے جاتا ہے امریکہ بیسویں صدی کے اوائل میں بھی، بڑی طاقت تھا۔ مگر وہ شے، جسے انگریزی میں "فرسٹ کونٹیکٹ" کہا جاتا ہے، پہلی جنگ ِعظیم میں ہوا۔ پھر دوسری جنگ ِعظیم میں اس کی آمد، اس پْرانے استاد شاعر کی سی تھی، جس نے کہا تھا کودا تیرے آنگن میں کوئی دَھم سے نہ ہو گا جو کام کیا ہم نے، وہ رستم سے نہ ہو گا اس جنگ میں، امریکہ کی شمولیت نے، نقشہ یکسر بدل کر رکھ دیا۔ سارے اتحادی مل کر جو کام نہ کر سکے، وہ اس ایک ملک نے کر دکھایا۔ یوں اس کی دھاک، اقوام ِعالم پر بیٹھ گئی۔ انیس سو پینتالیس کو، وہ سال قرار دیا جا سکتا ہے، جب یہ سپر پاور بن گیا۔ اس پہلے جَیل میں، امریکہ کے مقابلے میں، صرف روس کھڑا رہا۔ سن اکانوے میں سوویت یونین کے سقوط نے، روسی عزائم بھی ڈھا دیے۔ یہ اَور بات کہ پھریری لے کر، وہ اب دوبارہ کھڑا ہو گیا ہے۔ اب اس دوڑ میں ان دو کے علاوہ، چین بھی شامل ہے۔ ابن ِخلدون کے مقرر کردہ اَجیال میں سے، کم و بیش چند برس کے فرق سے، لگتا ہے کہ دو مکمل ہو گئے۔ امریکہ اب، تیسرے جَیل یعنی زوال سے گزر رہا ہے۔ معاشی بحران، اس کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ مجموعی قرضے، تقریبا بائیس کھرب ڈالرز ہیں اور یہ اوسط ہر امریکن پر، تقریبا ایک کروڑ روپے کی پڑتی ہے! عدم مساوات اور عدم رواداری کو، معاشی عدم استحکام دہ چند کر دیتا ہے۔ ابن ِخلدون کا فلسفہ، اگر یہاں بھی صحیح ثابت ہوتا ہے تو یہ دور، بڑی قتل و غارت اور تباہی کا دور ہ گا۔ ان نازک حالات میں، امریکہ کا اقتدار ایک نہایت ضدی بلکہ ہٹ دھرم آدمی کے ہاتھ میں ہے۔ اب جو کچھ نہ گزر جائے، کم ہے۔ تین ہَٹیں یا ضِدیں، بہت مشہور ہیں۔ راج ہٹ، بالَک ہَٹ اور تِریا ہٹ۔ یعنی، بادشاہ، بچے اور عورت کی ضد! امریکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ذات ِشریف میں، راج ہٹ اور بالَک ہَٹ، یکجا ہو گئی ہیں! یہ بالک یعنی بچوں کی سی ضدیں کرتے ہیں اور پھر اپنے راج یا اقتدار کے زور سے، پورا بھی کر لیتے ہیں۔ ان کی تازہ ضِد نے کاروبار ِحکومت بند کر دیے ہیں۔ وہ مصر ہیں کہ پہلے میکسیکو کے ساتھ جْڑی ہوئی سرحد پر دیوار بنانے کے لیے، بجٹ مختص کرو۔ پورا امریکہ اس وقت، دم بخود ہے! ہنگامی اداروں اور جنگی انتظامات کے سوا، کاروبار ِحکومت پچھلے ایک ہفتے سے بند ہیں۔ اس سے پہلے بھی، یہ صورت ِحال کئی دفعہ پیدا ہوئی۔ لیکن ٹرمپ کے دو سالہ اقتدار میں، سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ جلد یا بدیر، تن خواہیں سارے سرکاری ملازموں کو مل جائیں گی۔ لیکن کرسمس کا تہوار اور نیو ایئر کا جشن، جن کا سارا سال انتظار کیا جاتا ہے، ہزاروں خاندانوں کے گھروں میں، بڑی بے رنگی سے اور بے کیفی میں گزرے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ گھڑی گھڑی، انہیں یہ سْوجھتی کیا ہے؟ دراصل درون ِخانہ، بہت کچھ ہو رہا ہے۔ ٹرمپ کے خلاف، روس کے ساتھ مبینہ ساز باز کی تحقیقاتی رپورٹ، اگلے چند ماہ میں منظر ِعام پر آ جائے گی۔ ان کے مخالفین کو یقین ہے کہ ٹرمپ، یا کم از کم ان کا بیٹا اور داماد، بچ نہیں پائیں گے۔ اس کے بارے میں حتمی حکم لگانا، مشکل ہے۔ مگر یہ لطیفہ سنیے کہ ٹرمپ کے ساتھی، اس امکان کو رد نہیں کرتے کہ صدارتی اختیار کے تحت، ٹرمپ خود کو بھی معاف کر سکتے ہیں! صدر صاحب بھی نچلے نہیں بیٹھ رہے۔ افغانستان سے فوجوں کی واپسی کا جو شوشہ، چند روز پہلے چھوڑا گیا تھا، بظاہر اسے فی الحال تِہہ کر دیا گیا ہے۔ لیکن ٹرمپ کا یہ ریکارڈ ہے کہ جب کسی معاملے کو چھیڑتے ہیں، اسے آگے بڑھانے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے۔ وال اسٹریٹ جنرل کی رپورٹ کا ذکر اس کالم میں، پہلے بھی کئی بار ہوا ہے۔ اس کے مطابق، افغانستان میں امریکی فوجیوں کی اصل تعداد، بیس ہزار سے زیادہ ہے۔ سات ہزار کی رخصتی کا مطلب ہے، تقریبا ایک تہائی فوجیوں کی واپسی۔ صحیح تعداد جتنی بھی ہو، اصل نکتہ یہ ہے کہ پست حوصلہ افغان فوجوں پر، امریکنوں کی مراجعت، جو اگر صرف علامتی یا کاغذی اور صرف جزوی بھی ہو، قیامت ڈھا جائے گی! ایسے بھگوڑے فوجی، دنیا کی کسی اَور فوج میں شاید ہی ہوں! ان کا مورال، جو پہلے ہی نہ ہونے کے برابر ہے، امریکنوں کی واپسی سے، ختم ہو کر رہ جائے گا۔ ٹرمپ یہ بات، بخوبی جانتے ہیں۔ یہ مرحلہ اگر آیا، تو جنگ یقینا، کرائے کے فوجیوں کے سپرد کر دی جائے گی۔ جو قتل و غارت اس صورت میں ہو گی، اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا! اس کے کھْرے کہاں ملتے ہیں، یہ بھی سن لیجیے۔ بلیک واٹر کے مالک ایرک پرنس، بھائی ہیں امریکن وزیر ِتعلیمات بیٹسی ڈیووس کے! ان بھائی بہن کی پچھلے دو سال سے یہی کوشش ہے کہ بلیک واٹر کا اثر و نفوذ افغانستان میں اَور بڑھے۔ ابھی تک ان کی چل نہیں پائی، مگر تا بہ کَے؟ ٹرمپ کتنے ہی وزیروں اور اسٹاف ممبروں کو تبدیل کر چکے ہیں، لیکن وزیر ِتعلیمات کے خلاف، ایک حرف زبان سے نہیں نکالتے۔ ٹرمپ کو زعم ہے کہ معاشی معاملات میں، ان جیسا کوئی نہیں۔ مگر کرائے کا ایک لڑاکا تو، فوجی کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ مہنگا پڑتا ہے! یہ بھی یاد رہے کہ ٹرمپ، سابق صدر اوباما پر سخت تنقید کیا کرتے تھے کہ فوجیوں کو وہ، ناوقت واپس بلاتے ہیں۔اور اب؟ تمہاری زلف میں پہنچی تو حْسن کہلائی وہ تیرگی، جو میرے نامہء سیاہ میں ہے