بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے آنجہانی لیڈرپرمود مہاجن شاید خوشی سے یہ واقعہ بیان کرتے کہ کس طرح 1990ء میں جب انھوں نے مہاراشٹرا ودھان سبھا میں شیوسینا کے ساتھ اتحاد مضبوط کیا تھا، تب سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے کاغذ کے ٹکڑے پر یونہی ایک عدد لکھ دیا تھا۔ ’’ہم 200 نشستیں لڑتے ہیں، آپ بقیہ لڑیں‘‘ ٹھاکرے نے بے رخی سے بی جے پی لیڈر کو یہ بات کہہ دی تھی۔ یہ معاملات اندرون نصف گھنٹہ طے ہوگئی۔ 288 رکنی اسمبلی میں سینا نے قطعی طور پر 183 نشستیں لڑے اور بی جے پی نے 105۔ تیزی سے اب 2019ء پر آجائیں جب بی جے پی نے اپنے عملاً کمزور پارٹنر سینا کو زعفرانی اتحاد میں جونیئر پارٹنر کے طور پر رول قبول کرنے پر مجبور کیا۔ یہ ڈرامائی تبدیلی عکاسی کرتی ہے کہ کس طرح مرکز میں نریندر مودی اور امیت شاہ اور ریاست میں دیویندر فرنویس کے تحت بی جے پی قیادت نے ریاست میں اقتدار کے محور کو مکمل طور پر گھما دیا ہے۔ سینا کیلئے اقتدار کی منتقلی خاص طور پر پریشان کن ہے: دو گجراتیوں کے قومی سطح پر غلبہ کے یرغمال بن جانا ایسی پارٹی کیلئے قبول کرنا کافی مشکل ہے جو مہاراشٹرائی موروثیت کی کوکھ سے اْبھری ہے، خاص طور پر ماضی میں سامیکتا مہاراشٹرا ریاستی تحریک کے دوران عداوتوں کا اہم رول رہا۔ عملی طور پر مراٹھی منوس کو خود اْس کے وطن میں ماتحت رہنے کی جگہ دکھائی جارہی ہے۔ اس سے جزوی طور پر وضاحت ہوتی ہے کہ کیوں شیوسینا نے باری باری چیف منسٹرشپ پر اصرار کرتے ہوئے تشکیل حکومت میں بی جے پی کو آخری حد تک ڈھکیل دینے کا عزم کررکھا ہے۔ 2014ء میں جب دونوں پارٹیوں ے علحدہ چناؤ لڑا تھا، سینا کے پاس کچھ خاص متبادل نہیں تھا کہ وہ قواعد و شرائط قبول کرلئے جائیں جو بی جے پی نے مابعد چناؤ معاملات میں رکھے۔ پارٹی کو مہاراشٹرا میں ایک بھی بڑا قلمدان حاصل نہیں ہوا، دہلی میں صرف ایک نسبتاً غیراہم کابینی جگہ دی گئی، علیل ادھو ٹھاکرے کو نرم لیڈر کے طور پر حاشیہ پر کردیا گیا اور فرنویس کو مہاراشٹرا کا نیتا نمبر ایک کے طور پر اْبھارا گیا۔ فیصلہ کن موڑ 2017ء کے ممبئی میونسپل الیکشن ثابت ہوئے جب بی جے پی نے سینا کے دیرینہ قلعہ کو کامیابی سے فتح کیا: سینا نے 84 نشستیں جیتے اور بی جے پی کی عددی تعداد تیزی سے اچھل کر 31 سے 82 ہوگئی۔ ایک طرف ممبئی کی بڑی شمالی ہندوستانی آبادی کو راغب کرنے میں سینا کا امیج علاقائی پارٹی کے طور پر تحمل والا رہا، تو دوسری طرف بی جے پی ہندو قوم پرستی کی علامت کے طور پر خود کو منوانے میں کامیاب رہی۔ اس کے نتیجہ میں وہ پارٹی جسے فخر تھا کہ بال ٹھاکرے کے دور میں اس کے سربراہ کی ایک آواز ممبئی میں نقل و حرکت کو روک دینے کافی تھی، اب اسے گھٹ کر کاغذی شیر بن جانے کا خدشہ لاحق ہوگیا تھا۔ لہٰذا، اس نے زیادہ سے زیادہ جارحانہ روش اختیار کرلی اور بی جے پی کو نشانہ بنانے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ 2019ء کا الیکشن سینا کیلئے آر یا پار والا معاملہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ 29 سالہ آدتیہ ٹھاکرے کو انتخابی میدان میں اتارتے ہوئے ٹھاکرے فیملی کی ریموٹ کنٹرول سیاست کے اختتام کا اشارہ دیا گیا۔ قبل ازیں ٹھاکرے فیملی نے خود کو انتخابات لڑنے سے ہمیشہ دور رکھا تھا۔ قطعی نتائج نے یہی تصدیق کردی کہ بی جے پی اور سینا کے درمیان فرق بڑھتا جارہا ہے: بی جے پی نے اپنے انتخابی نشان پر لڑی گئی 164 نشستوں میں سے 105 جیتے جو 70% کا تناسب ہے، جبکہ سینا نے 124 میں سے 56 جیتے جو 50% سے بھی کم شرح والی جیت ہے۔ لیکن T-20 کرکٹ کے برخلاف انتخابی سیاست میں اسٹرائک ریٹ سے فرق نہیں پڑتا؛ حقیقت یہ ہے کہ مہاراشٹرا میں بی جے پی کو سادہ اکثریت سے 39 نشستیں کم ہے، جس نے سینا کو معقول موقع فراہم کردیا کہ تشکیل حکومت میں فیصلہ کن رول ادا کرے۔ 2014ء میں یکا و تنہا ہوجانے کے خوف نے سینا کو بی جے پی کی ہدایات قبول کرنے پر مجبور کیا تھا؛ 2019ء میں بی جے پی کا سینا کی حمایت پر انحصار اس کیلئے کافی ہوا کہ اس مرتبہ دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔ پورے معاملے میں یہی واحد دلچسپ موڑ نہیں ہے۔ 2014ء میں شرد پوار زیر قیادت این سی پی نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کے امکانات پر غور کیا تھا؛ 2019ء میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی نوٹس دیئے جانے کے بعد اور یہ دیکھ کر کہ ان کی پارٹی کو شکار کرتے ہوئے منقسم کیا جارہا ہے، پوار نے لگتا ہے مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے بی جے پی کی نیندیں اْڑا دینے کا عزم کرلیا۔جہاں تک کانگریس کا معاملہ ہے، یہ کچھ جکڑی ہوئی پارٹی معلوم ہوتی ہے: وسائل سے مالا مال ریاست میں ایک بی جے پی زیرقیادت حکومت کو روکنے کیلئے کوشاں ہے لیکن غیرآمادہ ہے کہ کھلے طور پر فرقہ پرست سینا کے ساتھ اتحاد کرلے (دلچسپ امر ہے کہ بال ٹھاکرے نے 1975ء میں ایمرجنسی کی تائید کی تھی اور 1977ء اور 1980ء کے انتخابات میں اندرا زیرقیادت کانگریس کے خلاف امیدوار کھڑے نہیں کئے تھے)۔ سیاسی رسہ کشی کے اس کھیل میں ایک عظیم تر سوال ہے جس کا مودی۔ شاہ زیرقیادت بی جے پی کو جلد یا بہ دیر سامنا کرنا پڑے گا: آخر کب تک وہ اپنے بے چین حلیفوں کو اس ایقان کے ساتھ دبا کر رکھیں گے کہ اس کی اجارہ داری چیلنج سے پرے ہے؟ سینا ہوسکتا ہے آخرکار چند کلیدی وزارتیں حاصل ہونے پر مطمئن ہوجائے لیکن کیا مہاراشٹرا مہابھارت فروغِ مخلوط کے این ڈی اے تجربے کے خاتمے کی شروعات کا نقیب ہے؟ آج سینا نے ایسا کیا ہے، کیا کل بہار میں نتیش کمار اور جنتا دل یونائیٹیڈ ہوں گے؟ اختتامی تبصرہ ہر الیکشن کے نتیجے میں بادشاہ اور بادشاہ گر سامنے آتے ہیں۔ مہاراشٹرا 2019ء اس معاملے میں عجیب رہا ہے کہ فی الحال انتخابی کھیل میں سب سے نمایاں ظاہر طور پر کوئی نام نہیں ہے۔ اگر آپ کو ثبوت چاہئے کہ جرنلسٹ بعض اوقات کامیاب سیاستدان بن سکتے ہیں، اور کہیں نہیں بلکہ سینا ایم پی اور سامنا ایڈیٹر سنجے راوت کو دیکھیں۔ وہ شخص جو بال ٹھاکرے کا طویل انٹرویو لینے کے بعد سیاست میں داخل ہوا، اب مہاراشٹرا میں سینا کی گونج دار آواز ہے! (بشکریہ سیاست نئی دہلی)