سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے جوڈیشل اکیڈمی لاہور میں خطاب کے دوران ملک میں پانی کی قلت کو بین الاقوامی سازش قرار دیا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے تجویز دی کہ ’’ملک میں پانی کے معاملے پر غفلت کا مظاہرہ کرنے والوں نے فوجداری جرم کا ارتکاب کیا ہے، اس سلسلے میں قانون میں ترمیم کی ضرورت ہے۔ ہم عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق قانونی ترامیم نہیں کر سکے۔ ڈیم بنانا ہمارے لیے ناگزیر ہے۔‘‘ ملک میں جاری آبی بحران پر چیف جسٹس کی فکر مندی قابل فہم ہے اسی لیے انہوں نے دو ڈیم بنانے کے لیے عوام سے مالی تعاون کی اپیل کر رکھی ہے۔ ان کی اپیل پر افواج پاکستان کے جوانوں نے ایک روز جبکہ افسران نے دو دن کی تنخواہ عطیہ کی ہے۔ کئی سرکاری و غیر سرکاری اداروں کے ملازمین اور عام شہریوں نے چیف جسٹس کی اپیل پر ڈیم بنانے کے لیے رقوم عطیہ کی ہیں۔ بلاشبہ پاکستان کو پانی کی قلت کا شکار بنانا ایک بین الاقوامی سازش ہے اور ہمارے قانون ساز اداروں نے کوتاہ فکری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان عناصر کے خلاف قانونی کارروائی میں دلچسپی نہیں لی جو اس سازش میں شریک رہے ہیں۔ یہ بات تعجب انگیز ہے کہ ملک میں زراعت اور پینے کے لیے پانی کی کمی کو بعض حلقے اب بھی ایک غیر حقیقی اور مفروضہ خطرہ تصور کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے خیال میں پاکستان کے 7259 برفانی دریائوں میں 2066 مکعب کلومیٹر برف موجود ہے۔ یہ برفانی دریا، دریائے سندھ اور اس کے 11.2 لاکھ مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے بیسن کو پانی فراہم کرتے ہیں جس سے پاکستان میں 47 فیصد حصہ سیراب ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی موجودہ آبادی 20.77 کروڑ ہے اور اگر یہ اسی رفتار سے بڑھتی رہی تو 2047 میں آبادی کا حجم 39.5 کروڑ سے تجاوز کر جائے گا۔ اس تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی آبی ضروریات میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ 2015ء میں جاری آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پانی کی طلب میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس لحاظ سے 2025ء تک پانی کی طلب 27.4 کروڑ ایکڑ فٹ تک پہنچنے کا امکان ہے جبکہ پانی کی فراہمی 19.1 کروڑ ایکڑ فٹ رہے گی۔ یوں طلب و رسد کے مابین تقریباً 8.3 کروڑ ایکڑ فٹ کا فرق رہے گا۔ لاہور اور کراچی پاکستان کے وہ شہر ہیں جن کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہو چکی ہے۔ لاہور کو روزانہ 12.9 لاکھ ایکڑ فٹ پانی فراہم کیا جاتا ہے جو دستی پمپس، موٹر پمپس اور ٹیوب ویلز کے ذریعے زمین سے نکالا جاتا ہے۔ 1960ء میں پنجاب میں تقریباً 20 ہزار ٹیوب ویلز تھے مگر اس وقت دس لاکھ سے زائد ٹیوب ویلز زیر زمین پانی کو نکال رہے ہیں۔ کراچی واٹر بورڈ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس شہر کی آبادی 1.5 کروڑ سے زائد ہے۔ یہاں پانی کی یومیہ طلب 100 کروڑ گیلن ہے لیکن پورے شہر کو صرف 45 سے 48 کروڑ گیلن کے لگ بھگ پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ پانی کی 50 فیصد کمی کو پورا کرنے کے لیے غیرقانونی ہائیڈرنٹس چلانے والے گروپ سرگرم ہیں جو رہائشیوں کو پانی فراہم کر کے خوب دولت سمیٹ رہے ہیں۔ دیہی سندھ میں صورتحال اچھی نہیں۔ وہاں نہروں کے اختتامی علاقوں کے قریب موجود چھوٹے کسانوں کی زمینوں تک پانی نہیں پہنچتا جس کی وجہ سے کاشت کاری کے مسائل پیدا ہورہے ہیں جو پانی میسر آتا ہے وہ سمندر کا ہوتا ہے۔ یہ سمندری پانی زمین کو ناقابل کاشت بنا دیتا ہے جن افراد کی زمینیں برلب نہر ہوتی ہیں، ان کے اکثر اوقات سیاسی شخصیات کے ساتھ تعلقات ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے ان کے لیے محکمہ آبپاشی کو رام کرنا، قوانین کو نظرانداز کرنا اور پانی کا رخ اپنی زمین کی طرف موڑنا ممکن ہو جاتا ہے۔ یہ امر قابل غور ہے کہ 1976ء میں دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم کی تعمیر کے بعد اب تک کوئی نیا ڈیم تعمیر نہیں کیا جاسکا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ کے بیسن کے دونوں بڑے آبی ذخائر یعنی تربیلا اور منگلا ڈیم پاکستان میں سالانہ بنیاد پر گزرنے والے 4.5 کروڑ ایکڑ فٹ پانی میں سے صرف 1.4 کروڑ ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرتے ہیں اور وہ بھی صرف 30 روز کے لیے جبکہ بین الاقوامی معیار 120 دن کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی تائید کرتا ہے۔ سابق حکومت نے اقتدار سنبھالنے سے قبل نئے ڈیموں کی تعمیر اور توانائی کے نئے منصوبوں کا وعدہ کیا تھا۔ مسلم لیگ ن کی حکومت پانچ سال کے بعد رخصت ہوئی تو ادھورے وعدوں کا ملبہ چھوڑ گئی۔ کراچی میں لوگ پانی کے لیے بلکتے رہے، ماہرین بار بار حکومت کو خبردار کرتے رہے کہ لاہور اور اس کے گردونواح میں زمینی پانی کی سطح مزید کم ہونے سے بچائو کی تدابیر اختیار کی جائیں۔ اسلام آباد، راولپنڈی کے علاقوں میں پانی کی کمی معمول بنتی جا رہی ہے۔ شمالی علاقہ جات میں چشموں اور ندیوں کے صاف پانی کو قریبی آبادیوں تک لانے کے منصوبے آغاز کے منتظر رہے۔ تھر کے علاقے میں کئی مخیر افراد نے کنوئیں تعمیر کرائے مگر حکومت کا رویہ افسوسناک رہا۔ پاکستان کو پانی کے موجودہ انتظام کو تبدیل کر کے انفراسٹرکچر میں بہتری کی ضرورت ہے۔ حکومتی اداروں میں پانی کے شعبے میں بہتری لانے کی صلاحیت محدود ہے جس کا ثبوت پنجاب میں صاف پانی کمپنی کا سکینڈل ہے۔ اس منصوبے میں 150 ارب روپے شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی کے منصوبوں کے لیے رکھے گئے۔ یہ رقم بیرونی اداروں نے قرض اور امداد کی صورت میں دی تھی لیکن تین سال کے بعد جب عدالت عظمیٰ میں اس کے معاملات پہنچے تو سابق وزیراعلیٰ شہبازشریف نے خود اعتراف کیا کہ کمپنی شہریوں کو صاف پانی فراہم نہیں کرسکی۔ پاکستان کے آبی ماہرین کا خیال ہے کہ یہاں برسات کا موسم بہت مختلف ہے۔ اس کے علاوہ گلوبل وارمنگ کا مسئلہ بھی سنگین ہوتا جارہا ہے، یورپی ممالک کے برعکس ہمارے ہاں مختصر مدت کے لیے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں جو مکمل طور پر زیر زمین جذب نہیں ہو پاتیں۔ چونکہ پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کے ذخائر کم ہیں اس لیے یہ بارشی پانی ذخیرہ نہیں ہو پاتا اور ہماری فصلوں و آبادیوں کو نقصان پہنچا کر ضائع ہو جاتا ہے۔ یقینا بڑے ڈیموں کی تعمیر کے ساتھ سیاسی مسائل رہے ہیں جن کو حل کرنے کے لیے نئی حکومت کو ترجیحی بنیادوں پر حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے لیکن گوٹھوں اور دیہات کی سطح پر پانی کے چھوٹے ذخیرے تعمیر کر کے پانی کی قلت کو فوری دور کرنے کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے خطے میں نیپال نے چھوٹے تالاب اور ذخیرے تعمیر کرنے کا تجربہ کیا ہے۔ جناب چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے نومنتخب پارلیمنٹ کی توجہ بڑے اہم معاملے کی طرف مبذول کرائی ہے۔پانی کے ذخائر کی مخالفت کرنے والے سیاست نہیں بلکہ ہمارے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔ ایسے عناصر کو غیر موثر بنانے کے لیے پارلیمنٹ کو ضروری قانون سازی کرنا ہوگی۔