مکرمی ! ہمارے ہاں اکثر بدعنوانی, اقربا پروری, غنڈہ گردی, جہالت اور گمراہی کا رونا رویا جاتا ہے۔ اداروں کے خلاف باتیں کی جاتی ہیں۔ نوکرِ شاہی کو القابات سے نوازا جاتاہے۔ مگر ہم نے کبھی غور کیا ہے۔بیوروکریٹ پیدائشی افسر نہیں ہوتے ہیں, پولیس والا پیدائشی کرپٹ نہیں۔ سیاستدان بچپن سے مفاد پرست نہیں اور فوجی افسران اوائل عمری سے حکم چلانے والے نہیں ہوتے ہیں۔ اگر محکمے کے لوگوں میں خرابیاں ہیں جناب تو محکمے کا قصور نہیں آپکی تربیت کا دوش ہے۔ ایک افسر کی بیوی خود باہر نکل کے صرف اپنی اولاد کی تربیت سے ہی منہ نہیں موڑتی بلکہ ملازمہ کے بچوں سے بھی انکی ماں چھین لیتی ہے۔ اس طرح وہ بچے بھی یتیمی و مسکینی کی زندگی بسر کرنے پہ مجبور ہو جاتے ہیں۔ذرا اپنی اجتماعی سوچ پہ غور کریں جہاں رشتے نام و نسب اور مالی شان دیکھ کے کیے جاتے ہیں۔ جہاں قابل پی ایچ ڈی بندہ نوکری نہ ہونے کی وجہ سے دھتکار دیا جاتا ہے جہاں لڑکیاں ہاتھوں میں ڈگریاں لیے سفید بالوں کی چادر میں لپٹی غربت کی دھوپ میں اپنا حسن جھلسا دیتی ہیں مگر کسی کو ترس تک نہیں آتا۔ ہم وہی لوگ ہیں جو غریب رشتہ دار کی میت کو کندھا دینے نہیں پہنچ پاتے ۔ اگر اداروں میں بہتری لانی ہے اور ملک کو حقیقی فلاح کی راہ پہ لے جانا ہے تو تربیت میں محبت احساس خندہ پیشانی بھائی چارے اور قناعت پسندی کا بیج بونا ہو گا. تبھی جا کے عمر بن خطاب اور ارتغرل غازی جیسے کڑیل جوان پیدا ہونگے جن پہ دنیا ناز کرے گی. سوچ بدلیے کیونکہ بہتر سوچ ہی مثبت تبدیلی لا سکتی ہے۔ (مصباح چوہدری پاکپتن )