وکیل نااہل ہو اور مؤکل لاپروا یا لاعلم ہو تو اس سے ہلاکت خیز کاک ٹیل بن جاتی ہے۔ اس کاک ٹیل میں بہت زیادہ بدعنوانی بھی ملا دی جائے تو ایک قانونی گْنگ تماشا وجود میں آنے لگے گا۔ براڈشیٹ ساگا، جو حال ہی میں پاکستان میں شہ سرخیوں کا موضوع بنا ہے، قومی اور بین الاقوامی سطحوں پر ظہور پذیر ہونے والی نااہلی، لاپروائی اور بدعنوانی کی بدنامِ زمانہ ٹرائیکا کی کامل مثال ہے اور اس عمل کے دوران پاکستان کا تاثر ایک ایسی ریاست کا سا بنا رہا ہے جو اپنے بین الاقوامی معاہداتی وعدوں کا احترام نہیں کرتی۔اسے "ساگا" کہنے کی کیا وجہ ہے؟ : پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک واقعہ نہیں بلکہ واقعات کا ایک سلسلہ ہے۔ یہ مقصد کی عاقبت نا اندیشی کی بجائے مہارت سے محرومی کی پست کہانی ہے۔ یہ ریاست کی ارفع ترین سطح پر سرزد ہونے والی متواتر فاش غلطیوں کی مسلسل جاری سلسلہ ہے۔ اس میں ایسے کردار ملوث ہیں جنھوں نے خیر خواہ ہونے کا سوانگ بھرا لیکن جو حقیقت میں میکیاویلین شاطری کے ابلیسی ماہر ہیں۔ اس ڈرامائی عمل میں بہت سارے کھلاڑی اور کردار شامل ہیں: بیوروکریٹ، وکیل اور کاروباری افراد۔۔۔ ہر ایک کا کسی نہ کسی مرحلے میں مختلف درجے کا کردار رہا ہے۔ بے شمار باورچیوں نے ایک ایسا آملیٹ بنایا ہے جس کے اجزا الگ الگ نہیں کیے جا سکتے۔ اس کا حتمی تباہ کن نتیجہ یہ نکلا ہے کہ چارٹرڈ انسٹی ٹیوٹ آف آربٹریٹرز کے سر انتھونی ایونز نے پاکستان کو دو کروڑ بیس لاکھ امریکی ڈالروں یعنی تین ارب، باون کروڑ، پچپن لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنا دی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ہمارے ہاتھ میں کیا ہے؟ اس سوال کے جواب سے پہلے تھوڑی دیر تاریخ کے جھروکے سے جھانکتے ہیں۔ یہ معاملہ 2000ء میں تب شروع ہوا تھا جب سابق صدرِ پاکستان جنرل پرویز مشرف نے چیئرمین نیب کے ذریعے ایک شیل کمپنی یعنی صرف کاغذوں میں موجود کمپنی بنام "براڈشیٹ ایل ایل سی" یا "بی ایس" کے ساتھ اثاثوں کی بازیافت (اے آر اے) کا معاہدہ کیا تھا۔ بی ایس کو 200 برطانوی پونڈوں کے شیئر کیپٹل کے ساتھ آئل آف مین میں رجسٹر کرایا گیا تھا (جی ہاں، آپ نے درست پڑھا ہے)۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ بی ایس کو صرف دو مہینے پہلے مسٹر جمی جیمز نے رجسٹر کرایا تھا۔ ایک اور کردار ڈاکٹر پَیپر Pepper Dr. تھا، جو پیشے کے اعتبار سے وکیل تھا اور اس ڈیل اور مختلف اوقات میں گفت و شنید کا حصہ تھا جب کہ بعد کے ایک مرحلے میں ایک نیا کردار مسٹر موسوی نمودار ہوا جس نے نیب کے خلاف بی ایس کے دعووں کی لگام تھام لی۔ مختلف اوقات میں ان افراد کے باہمی تعلقات دوستانہ نہیں تھے۔ انتہائی پْرجوش لیکن ظالمانہ سوچ: ہر چیز کا تذکرہ دشوار ہے تاہم جو غلط کام ہوا اس کی ابتدائی نشانیوں میں درجِ ذیل شامل ہیں۔ بی ایس نے چند پاکستانی درمیان کے آدمیوں کے ذریعے نیب سے رابطہ کیا، جن کے نام آربٹریشن ایوارڈ میں لیے گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نیب نے بی ایس کے مالک یا معاہدے پر عمل درآمد اور جو کام انجام دینے کا اس نے وعدہ کیا تھا اسے انجام دینے کی اس کی اہلیت پر کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی۔ اے آر اے ریکارڈ کے مطابق بی ایس "ایسے اثاثوں/ گم شدہ رقوم کی بازیافت میں خاص مہارت رکھتی ہے"۔۔۔ یہ وہ بیان ہے جو آربٹریشن کے دوران نیب کے خلاف استعمال کیا گیا۔ آربٹریٹر نے کہا کہ یہ بیان اس امر کی توثیق کرتا ہے کہ نیب "اس واضح طور پر غلط بیان" سے آگاہ تھا یا اسے آگاہ ہونا چاہیے تھا۔ بالفاظِ دیگر نیب جانتا تھا یا اسے جاننا چاہیے تھا کہ وہ ایک ایسی جعلی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کر رہا ہے، جس کی ماضی کی کارکردگی کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ نیب۔۔۔ یا اس معاملے میں پاکستان ۔۔۔ اس حقیقت کے ادراک میں ناکام رہا۔ پس سوال یہ ہے کہ نیب نے کس وجہ سے مشتبہ ساکھ والی ایک کاغذی کمپنی بی ایس کے ساتھ اے آر اے کیا؟ سیاست دانوں کی غیر قانونی ذرائع سے حاصل کردہ دولت واپس لینے کی پرجوش مہم اس کی وجہ تھی۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ حکومت نے یہ اقدام کس طرح کیا؟ یہ اس طرح کہ اے آر اے میں ایک ضمیمہ/ شیڈول شامل کیا گیا جس میں ان لوگوں اور کمپنیوں کے نام تھے جنھوں نے "حکومتِ پاکستان کی رقوم اور دیگر اثاثے فراڈ کر کے حاصل کیے، انھیں مبدل کیا/ یا چھپایا"۔ بی ایس نے اے آر اے سے کیا پایا؟: "بازیافت ہونے والے اثاثوں" کے تعلق سے منتقل کیے جانے کے لیے دستیاب رقم کا بیس فی صد" اور۔۔۔ ذرا توجہ دیجیے گا۔۔۔ "نیب اور کسی رجسٹرڈ فرد یا کمپنی کے مابین براڈشیٹ کے ساتھ یا اس کے بغیر ہونے والے تصفیے" میں حصہ "بشرطیکہ ایسا فرد یا کمپنی تصفیے سے پہلے رجسٹر ہوئی ہو۔" پاکستان کے حق میں معاہدے کے نتائج گئے بھاڑ میں! اے آر اے لکھنے والے قانونی نابغوں نے نہ صرف "اثاثوں" (اے ار اے کے موضوع) کی تعریف متعین نہیں کی بلکہ خاص طور سے یہ واضح کرنا بھی فراموش کر دیا کہ "اثاثوں" میں صرف بیرونِ ملک موجود اثاثے شامل ہیں ۔ آربٹریشن ایوارڈ میں نیب کے ایک افسر کا یہ اعتراف درج ہے کہ نیب نے مقامی وصولیوں، بینکوں کے ساتھ تصفیے کے ذریعے ہونے والی وصولیوں، مقامی اثاثوں کی بنیاد پر پِلی بارگین، اور پاکستانی عدالتوں کے عائد کردہ جرمانوں میں بی ایس کو حصہ دیے جانے سے اختلاف کیا تھا۔ یہ امر نیب اور بی ایس کے مابین باعثِ نزاع بن گیا تھا اور بی ایس کی طرف سے معاملے کو ثالثی کے لیے لے جانے کا ایک بڑا سبب تھا۔ یہ امر چنداں باعثِ تعجب نہیں کہ ثالث نے "اثاثوں" کی اصطلاح کی لفظی تعبیر کی تھی اور بجا طور سے نیب کے اس جوابِ دعویٰ کو رد کر دیا تھا کہ بی ایس نیب کی مقامی بازیافتوں، پِلی بارگین اور تصفیوں میں معاہدے کی رو سے حصہ دار نہیں ہے۔ اب آتی ہے سب سے بڑی فاش غلطی۔ نیب نے 2008ء میں مَن کی موج، مشورے یا ترنگ میں مسٹر جیمز کے ساتھ (بی ایس کا اصل بانی اور اصل مالک) تصفیہ کر لیا، یہ شخص (الف) "براڈشیٹ ایل ایل سی"، (ب) "بطور مینیجر سٹیپل چیز فنانشل سروسز ایل ایل سی" اور (ج) اپنی ذاتی حیثیت میں "براڈشیٹ ایل ایل سی کا حصہ دار اور فوائد پانے والا (کمپنی تحلیل کیے جانے پر)" تھا۔ 2008ء کے اس تصفیے کی رو سے بعدمیں نیب نے مسٹر جیمز کو 1.5ملین ڈالر ادا کیے تھے لیکن نیب اور اس کی قانونی ٹیم کی ایک ناقابلِ یقین حد تک مہنگی قانونی فاش غلطی کا خمیازہ بعد ازاں پاکستان کو بھگتنا پڑا۔ بی ایس کے نمائندوں کے ساتھ گفت و شنید کے دوران نیب کو معلوم ہو چکا تھا کہ وہ تحلیل کے عمل سے گزر رہی ہے بہرکیف 2008ء کے تصفیے نے آئل آف مین میں بی ایس کی تحلیل کرنے والے لیکویڈیٹر کو 2008ء کے تصفیے کا فریق نہیں بنایا یا مسٹر جیمز کو 1.5ملین ڈالر ادا کیے جانے کے بارے میں اسے آگاہ نہیں کیا۔ پیشہ ورانہ غفلت یا اداروں کا انہدام؟: چناں چہ پاکستان/ نیب کی قانونی ٹیم معاہداتی قانون کے بنیادی ترین اصول کی پاس داری میں ناکام رہی، جو یہ ہے کہ لیکویڈیشن کے عمل سے گزرنے والی کمپنی اسی صورت کسی معاہدے کی پابند ہو سکتی ہے جبکہ اس کا لیکویڈیٹر اس معاہدے کا فریق ہو۔ آخر الامر پاکستان کا یہ قانونی مؤقف کہ 2008ء کا تصفیے کا معاہدہ بی ایس کو پابند کرتا تھا، ثالث نے رد کرد یا، جنھوں نے بجا طور سے کہا کہ "مسٹر جیمز" بی ایس کی جگہ عمل کرنے کا کوئی اختیار نہیں رکھتے تھے ۔ آربٹریشن ایوارڈ میں افراد کے بارے میں بعض مذمتی بیانات درج ہیں۔ آربٹریٹر نے ایوارڈ کے پیرا 238 میں نیب کے مقامی وکیل کے بارے میں (جن کا نام ایوارڈ میں مذکور ہے) کہا ہے کہ "۔۔۔ ایسا ممتاز وکیل جو یہ جانتا ہو کہ براڈشیٹ آئی او ایم (بی ایس) آئل آف مین میں تحلیل کی جا چکی تھی یا تحلیل کی جا رہی تھی اور یہ کہ اس کے معاملات اور اس کے قرض خواہوں کے مفادات لیکویڈیٹر کے ہاتھ میں تھے، تصفیے کے معاہدے کے مذاکرات مکمل کرنے سے پہلے لیکویڈیٹر سے رابطہ کرنے یا تحلیل کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے میں ناکام ہو سکتا تھا؟ ان کا ثبوت جو میں نے قبول کر لیا ہے یہ ہے کہ انھوں نے مسٹر جیمز کی کرائی ہوئی یقین دہانیوں پر اعتبار کیا تھا۔ اس سے بعض بڑے اہم سوال ابھرتے ہیں۔ پاکستان/ نیب کا مقامی وکیل یا پاکستان کی قانونی ٹیم کے دیگر ارکان، اگر کوئی تھے تو، پاکستان اور نیب کی جانب سے ایک ایسی کمپنی کی کارپوریٹ حیثیت (تحلیل اور استعداد)کے بارے میں مطلوبہ قانونی جائزہ لینے میں کیونکر ناکام ہو سکتے تھے، جس کے ساتھ پاکستان اور نیب ایک بڑا تصفیہ کرنے والے تھے؟ اور یہ کہ ایسا کیونکر ہو سکتا ہے کہ مقامی وکیل نے ایک ایسے شخص کی نمائندگی یا وارنٹی پر اعتبار کیا جو ظاہر کر رہا تھا کہ وہ فریقِ ثانی کا نمائندہ ہے (جو کہ وہ نہیں تھا)؟ اس سے بھی اہم امر یہ ہے کہ ملک ان سارے لوگوں سے جواب چاہتا ہے جو اس فاش غلطی کے ذمہ دار ہیں جو ثالث کی جانب سے دسمبر 2018ء میں مشترکہ طور پر پاکستان اور نیب کو اے آر اے کو غلط طور سے تسلیم نہ کرنے پر 21589460 امریکی ڈالر مع سود جرمانے کی سزا سنائے جانے پر منتج ہوئی۔ عہدِ قدیم کی جانب مراجعت؟: وزیرِ اعظم نے براڈشیٹ ساگا کے بارے میں پینتالیس دنوں میں چھان بین کر کے رپورٹ پیش کرنے کے لیے جسٹس (ر) عظمت سعید کی سربراہی میں ایک تفتیشی کمیٹی تشکیل دی۔ حزبِ اختلاف نے جسٹس سعید کے تقرر سے اس بنیاد پر اختلاف کیا کہ وہ وزیرِ اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے والے سپریم کورٹ کے بینچ کا حصہ تھے اور یہ کہ اس سے پہلے کے ایک معاملے میں وہ نیب کے وکیل تھے۔ حزبِ اختلاف نے جسٹس سعید کے کمیٹی کی سربراہی کرنے کو مفادات کا ٹکراؤ قرار دیا۔ میرے خیال میں اب سوال یہ نہیں رہا کہ کون درست ہے اور کون غلط۔ حکومت کا اس باعث آربٹریشن ایوارڈ پر نغمہ مسرت گانا کہ اس میں شریف خاندان کی بد عنوانی کی تصدیق کی گئی ہے یا حزبِ اختلاف کا الزام لگانا کہ حکومت "وِچ ہنٹ" میں ملوث ہے ، ایک سر چکرا دینے والا رقصی چکر ہے جو پاکستان کے لیے سراسر باعثِ نقصان ہو گا۔ سیاسی غل غپاڑے میں یہ ٹھوس اور تلخ سچ دبا ہوا ہے: براڈشیٹ ساگا پاکستان کے اداروں کے مکمل انہدام کا مظہر ہے۔ اگرچہ مالی اثرات کے اعتبار سے براڈشیٹ ریکوڈک معاملے میں ہونے والی مکمل اور ذلت آمیز شکست کے بے پناہ بد عنوانی اور نا اہلی کے پہاڑ سے کہیں کم ہے، جس میں عالمی بینک کے آئی سی ایس آئی ڈی نے پاکستان پر 5.8 ارب امریکی ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا اور ریاستِ پاکستان کے اثاثے دنیا بھر میں قرق کیے جا رہے ہیں، تاہم براڈ شیٹ اور ریکوڈک میں زیریں مرض ایک ہی ہے۔ ہمیں اپنے بین الاقوامی "ماہرین" اور "مشیروں" کے تاریخی بوجھ سے لازماً چھٹکارا پانا ہو گاجنھوں نے دسیوں لاکھ کمانے کے باوجود مادرِ وطن کو کچھ نہیں لَوٹایا۔ پاکستان کو لازماً اور فی الفور لافیئر کی وزارت قائم کرنا ہو گی۔۔۔ جو ایک آزاد ادارہ ہو اور جس کا سربراہ کوئی اچھی ساکھ کا حامل بین الاقوامی وکیل ہو۔۔۔ جو ریاست کو پاکستان کی ساری بین الاقوامی ذمہ داریوں اور وعدوں کے بارے میں مشورے دے۔ یہ وزارت پاکستان کے سارے بین الاقوامی معاہدوں (اور فاش غلطیوں!)کے باب میں پاکستان اور اس کے عوام کو جواب دہ ہو گی۔ اس وزارت کا پہلا کام پاکستان کو بین الاقوامی مقدمات اور ثالثیوں میں ڈالروں کی شکل میں اپنا "خون" بہانے سے بچانا ہو۔ دوم، یہ موزوں وقت ہے کہ پاکستان اپنا تھنک ٹینک قائم کرے۔۔۔ لا فیئر کی وزارت کا ایک بازو۔۔۔ جو پاکستان کی بین الاقوامی ذمہ داریوں کا تعین کرے اور "قانون" اور "پالیسی" کا بے خطا امتزاج وجود میں لائے۔ یہ موزوں وقت ہے کہ ریاست نیند سے بیدار ہو جائے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا راستا کبھی نہیں ہو سکتا۔ دنیا اپنے سارے واجب قرض چکا دینے والوں اور اپنے معاہدوں کا احترام کرنے والوں کی عزت کرتی ہے۔ ہمیں اس غفلت اور سب اچھا ہے کی سوچ کے جپھے سے نکلنا ہو گا۔ ایسا نہیں ہے۔ قانون بے وقوفوں کا تحفظ نہیں کرتا اور نہ کبھی کرے گا۔ (مصنف بین الاقوامی سطح پر مصروفِ کار وکیل ہیں اور مشرقِ وسطیٰ میں مقیم ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔)