جب بھارت میں 2004کے عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت قومی جمہوری اتحاد کو غیر متوقع طور پر شکست ہوئی اور اس سے بھی حیران کن صورت حال میں من موہن سنگھ کو حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کیلئے کہا گیا، تو سبکدوش وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے ساوتھ بلاک میں وزارت عظمیٰ کے دفتر کو خیر باد کہنے سے قبل اپنے ہاتھوں سے ایک نوٹ لکھ کر اپنے جاننشین کی میز پر رکھا تھا۔ اس میں نئی حکومت سے درخواست کی گئی تھی کہ ان کی طرف سے شروع کئے گئے چارمنصوبوں جن میں امریکہ کے ساتھ اسٹریٹیجک پارٹنرشپ، پاکستان کے ساتھ امن مساعی، ملک میں دریائوں کو آپس میں جوڑنا اور شمال ۔جنوب، مشرق سے مغرب تک ہائی وے کی تعمیر کے پروجیکٹس کو جاری رکھا جائے، کیونکہ یہ ملک کے وسیع تر مفاد میں ہیں۔ انتخابات سے بس چند ماہ قبل واجپائی اسلام آباد کا دورہ کرکے پاکستانی صدر پرویز مشرف سے ملاقات کرکے لوٹے تھے اور یہ طے پایا تھا کہ کشمیر کے سلسلے میں 1999میں لاہور میں طے پائے گئے معاہدوں اور اسکے بعد بیک چینل کے ذریعے حاصل شدہ پیش رفت کو آگے بڑھایا جائے۔ بس دریائوں کے منصوبے کو چھوڑ کر بقیہ سبھی ایشوز پر من موہن سنگھ نے کام جاری رکھ کے اگلے چند سالوں میں خاصی پیشرفت حاصل کی۔پاکستان کے ساتھ امن مساعی کو آگے بڑھانے اور کشمیر پر ایک لائحہ عمل ترتیب دینے کیلئے من موہن سنگھ نے زیر ک سفارت کار ستیندر کمار لامبا جنہیں عرف عام میں ستی لامبا کہتے تھے ، کا انتخاب کیا۔ ستی لامبا کو ہی کشمیر پر مشرف فارمولہ کا خالق تصور کیا جاتا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ ان ہی کی سفارتی کاوشوں اور ذہن کی تخلیق تھی ۔ پاکستان اور کشمیر میں عوامی رائے عامہ کو تیار کرنے کیلئے اسکے چند نکات کو عام کرنے کیلئے صدر پرویز مشرف کو آمادہ کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے اس فارمولہ کو مشرف فارمولہ کا نام دیا گیا تھا۔ جنوبی ایشیاء کے اس زیرک سفارت کار نے، جس کی وجہ سے بھارت اور پاکستان امن و استحکام کی دہلیز تک آپہنچے تھے، 30جون کو نئی دہلی میں 81سال کی عمر میں آخری سانس لی۔ وہ 1941 میں پشاور میں پیدا ہوئے تھے اور انکی اہلیہ نیلما جو مصنف بھی ہیں لاہور سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ پاکستان میں ہائی کمشنر کے ساتھ ساتھ ڈپٹی ہائی کمشنر کے فرائض بھی انجام دے چکے تھے اور نئی دہلی میں فارن آفس کے ہیڈ کوارٹر میں پاکستان، افغانستان اور ایران ڈیسک کے برسوں تک انچارج رہنے کی وجہ سے اس خطے کے ایک طرح کے ماسٹر تھے۔ پاکستان کے قومی سلامتی مشیر طارق عزیز اور بعد میں ریاض محمد خان کے ساتھ دوبئی، سنگاپوراور بینکاک میں صحافیوںاور سیاستدانوںکی نظروں سے دور 30 خفیہ ملاقاتوں کے بعد انہوں نے ایک لائحہ عمل دونوں ملکوں کے سربراہان کو پیش کیا تھا۔ ٹریک ٹو کانفرنسوں میں جب ان سے ملاقات ہوتی تھی، تو بس اتنا کہتے تھے کہ 80فیصد نکات پر دونوں ملکوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا ہو گیا تھا اور 20فیصد امور اب انہوں نے سربراہان مملکت کو حل کرنے کیلئے چھوڑے تھے۔ چونکہ یہ پورا عمل ہی رازداری کا تھا، ان کا دفتر بھی پی ایم او سے باہر سردار پٹیل بھون کے تیسرے فلور پررکھا گیا تھا۔ اس بلڈنگ میں اسٹیٹس ٹکس اور پروگراموں کے نفاذ کی وزارت کا دفتر بھی تھا، اسلئے اسٹوری کیلئے اعداد و شمار وغیرہ حاصل کرنے کیلئے وہاں جانا پڑتا تھا۔ اس بلڈنگ میں تیسرے فلور کی سیکورٹی کچھ زیادہ ہی سخت تھی اور لفٹ سے تیسرے فلور کا بٹن بھی غیر فعال کردیا گیا تھا۔ اسی طرح تیسری منزل تک جانیوالی سیڑھیاں بھی بند کر دی گئی تھیں۔ کسی کو یقینی طورپر معلوم نہیں تھا، کہ اس فلور میں کونسا آفس ہے۔ جب اسٹیٹس ٹکس منسٹر آسکر فرنانڈیز سے ایک بار پوچھا کہ ان کی وزارت کی بلڈنگ کے تیسرے فلور پر کس کا دفتر ہے، تو ان کو کہنا تھا کہ شاید راء کی کسی ونگ کا دفتر کھولا گیا ہے۔ اس تیسرے فلور کا راز ایسے کھل گیا، جب خود لامبا صاحب نے ہی ایک با ر مجھے اپنے دفتر میں مدعو کیا۔ معلوم ہو اکہ ان کا لفٹ بھی الگ تھا اوران کا آفس سلاخوں کے پیچ در پیچ دروازوں اور انتہائی سیکورٹی کی وجہ سے ایک جیل خانہ جیسا لگتا تھا۔ اس سے قبل میر ی ان سے ملاقات دہلی کے فارن سروس انسٹیچوٹ میں ہوئی تھی، جہاں و ہ وزیٹنگ فیلکٹی کے طور پر آتے تھے۔ یہ انسٹیوٹ سفارت کاروں کی ٹرینگ کے علاوہ وزارت خارجہ کور کرنے والے صحافیوں کیلئے بھی ڈپلومیٹک رپورٹنگ کے کورسز کا اہتمام کرتا تھا۔ لامبا صاحب پروٹوکول کی باریکیاں، سفارتکاری میں الفاظ کی شعبدہ بازیاں سکھانے پر مامور تھے اورنہایت ہی مدبرانہ اور ایک شفیق استاد کی طرح و ہ کلاس روم میں پیش آتے تھے۔ پروٹوکول کے حوالے سے ان کو اتنے دلچسپ واقعات ازبر تھے، وہ کلاس کو کھبی بور نہیں ہونے دیتے تھے۔ جب وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 1980میں سردار سورن سنگھ کو اپنے خصوصی نمائندہ کی حیثیت سے پاکستان بھیجا، تو اسوقت وہ اسلام آباد میں ڈپٹی ہائی کمشنر تھے۔ صدر ضیاء الحق نے بھارتی مندوب کو رات کے کھانے پر اپنے گھر یعنی آرمی ہاوس مدعو کیا تھا۔ ہائی کمشنر کے ایس واجپائی نے لامبا صاحب کو اس میٹنگ کے نوٹس لینے کیلئے کہا تھا۔ ڈنر کے بعد چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے، ضیاء الحق اور سورن سنگھ نے جالندھری لہجے کی پنجابی میں جو گفتگو کا سلسلہ شروع کیا وہ ختم ہونے کا ایک تو نام ہی لے رہا تھا، دوسرا نوٹس لینے کیلئے لامبا صاحب کے پلے بھی کچھ نہیں پڑ رہا تھا۔ رات گہری ہوتی جارہی تھی۔ سفیر اور پھر دیگر سفارت کار ایک کے بعد ایک رخصت ہو رہے تھے۔ ضیاء الحق نے اپنے اسٹاف کو بھی گھر جانے کیلئے کہا۔ خیر رات دو بجے کے آس پاس گفتگو کا سلسلہ ٹوٹا اور سورن سنگھ ہوٹل جانے کیلئے بھارتی اور پاکستانی جھنڈے والی لیموزین میں سوار ہوگئے۔ اگلی نشت پر لامبا صاحب برا جمان ہوگئے۔ ڈرائیور نے جب اگنیشن میں چابی گھمائی، تو معلوم ہوا کہ گاڑی کی بیٹری ہی بیٹھ گئی ہے۔ لامبا صاحب نے گاڑی سے نکل کر پیچھے کی طرف آکر دھکا لگانا شروع کردیا۔ صدر پاکستان مہمان کو رخصت کرنے کیلئے پورچ میں ہی کھڑے تھے۔ لامبا صاحب کو دھکا لگاتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے بھی آکر گاڑی کو دھکا لگانا شروع کردیا۔ بقول لامبا صاحب وہ احساس شرمندگی کی وجہ سے پسینے سے شرابور ہو رہے تھے۔ سورن سنگھ اور ڈرائیور گاڑی کے اندر اور ایک ملک کا صدر اسکو دھکا لگا رہا تھا۔ دھکا لگاتے ہوئے اسکو گیٹ پر پہنچا دیا، جہا ں سیکورٹی والو ں کی نظر گاڑی اور اسکے دھکہ بانوں پر پڑی۔ مگر تب تک گاڑی اسٹارٹ ہوچکی تھی اور سیکورٹی والوں نے اسکارٹ اسکارڈ کو مطلع کیا، جو آرمی ہاوس کے باہرا نتظار کر رہے تھے۔ اسی طرح جب انکو وزیر اعظم کے خصوصی نمائندے کے بطور قازخستان کے دورہ پر بھیجا گیا، تو صدر نور سلطان نذر بائیوف نے انکے اعزاز میں نہ صرف عشائیہ دیا، بلکہ ان کو اپنے پاس بٹھاکراپنے ہاتھوں سے ان کے پلیٹ پر کھانا ڈالنے لگے۔ (جاری ہے)