ناقدین مانیں ‘نہ مانیں عمران خان عوامی جمہوریہ چین سے خالی ہاتھ نہیں لوٹے۔ وزیر خزانہ اسد عمر ادائیگیوں کے توازن پر دبائو ختم ہونے کا انکشاف اسی باعث کر رہے ہیں۔ آسیہ بی بی کیس کے عدالتی فیصلے اور تحریک لبیک کے شدید ردعمل سے اگرچہ عمران خان کی پوزیشن کمزور ہوئی، تحریک لبیک کی قیادت کے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے صرف آزاد عدلیہ کاامیج مجروح نہیں ہوا، ہنگامہ آرائی اور شہروں کی بندش سے ریاست کے تحکم اور دبدبے پر بھی سوال اٹھا، اپنے شہریوں اور سرمایہ کاری کے حوالے سے حساس چین بہرحال یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ پاکستان میں حالات ان دعوئوں کے برعکس ہیں جو حکومت اور فوج کی طرف سے کئے جاتے ہیں۔ تاہم چینی قیادت نے کسی سطح پر بے مروتی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ عمران خان کو شاندار پذیرائی ملی اور حسب خواہش اقتصادی پیکیج کی سوغات بھی۔ ادائیگیوں کے توازن میں اعتدال آنے کا امکان یوں بھی ہے کہ مقامی کرنسی میں تجارت سے ڈالر کی محتاجی کم ہوگی اور حکومت آئی ایم ایف سے ملنے والے قرضے کو تعلیم، صحت اور روزگار کے شعبوں پر خرچ کرسکتی ہے۔ 1949ء میں آزادی کے بعد چین نے غربت کے خاتمے، اقتصادی و معاشی خودکفالت اور سیاسی و دفاعی خودانحصاری کو نصب العین قرار دیا اور ستر کروڑ انسانوں کو غربت و افلاس کی دلدل سے نکال کر باعزت ‘آسودہ زندگی بسر کرنے کی راہ دکھائی۔ وسائل کی منصفانہ تقسیم کے دوران کرپشن کا امکان فطری ہے مگر چینی قیادت نے اس کی روک تھام پر توجہ دی۔ چین اور پاکستان دونوں کا مسئلہ غربت اور کرپشن رہا۔ ایک نے دونوں کو کم کرنے پر وسائل، توانائیاں اور اختیارات صرف کئے، دوسرے کی سہل کوش، نااہل اور مفاد پرست قیادت بڑھانے میں مشغول اور خورسندرہی۔ 1960ء اور 1970ء کے عشرے میں ہم چین سے آگے تھے۔ 1980ء کی دہائی کے آغاز میں ہم عصر و ہم سر‘ مگر 1985ء کے بعد زوال کا سفر ہے جو آج تک جاری ہے اور روکنے کی کوششوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لیے دوستوں سے مانگی گئی امداد کو بھیک اور کرپشن کو ترقی و خوشحالی کے عمل کا لازمی حصہ قرار دینے والوں سے بحث فضول ہے اور یہی عمران خان کے دورہ چین کو ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ اقتصادی ریلیف ملنے کے بعد موجودہ حکومت عام آدمی کی زندگی آسودہ کرنے اور احتساب کے عمل کو منطقی انجام تک پہنچانے پر توجہ دے سکتی ہے۔ ٹیکس کیوں وصول نہیں ہوتے؟ سرکاری محکموں کی کارکردگی اس قدر بری کیوں ہے؟ کرپشن کو فروغ کیوں اور کیسے ملا؟ اور روک تھام کیونکر ممکن ہے؟۔ ریاستی پالیسیوں اور منصوبوں کے ثمرات سے عام آدمی مستفید کیوں نہیں ہو پاتا ؟اور ہمارا قانونی نظام ہی نہیں قومی مزاج بھی مظلوم کے بجائے ظالم کے لیے سازگار و مددگار کیوں ہے؟ یہ ہیں وہ سوالات جن کا جواب حکومت تلاش کرے عمران خان غربت اور کرپشن کے خاتمے میں سنجیدہ ہیں اور عوامی تائید و حمائت انہیں حاصل ہے ۔ان پر ماضی کا بوجھ نہیں اور دامن ان کا صاف ہے۔کابینہ کی تشکیل میں البتہ وہ سمجھوتے کا شکار ہوئے اور موجودہ ٹیم کے اکثر ارکان ایجنڈے کی تکمیل میں معاون سے زیادہ رکاوٹ ہیں۔ ارادتاً نہیں مزاجاً۔ ریاست مدینہ کی تشکیل کا مقدس فرض وہ لوگ انجام نہیں دے سکتے جو گنگا گئے تو گنگارام اور جمنا گئے تو جمنا داس ۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاء الحق اپنے رنگ برنگے ساتھیوں کی وجہ سے ناکام ٹھہرے۔ ایسے ہی بامسلماں اللہ اللہ بابرہمن رام رام‘ ساتھیوں کی بنا پر ستر دنوں میں عمران خان کی حکمرانی کا مذاق اڑا۔ اب ماہ ربیع الاول کو عقیدت و احترام اور تزک و احتشام سے منانے کا فیصلہ ہوا ہے جو اسلامیان پاکستان کے لیے وجہ سرور اور باعث اطمینان ہے۔ وزیراعظم ہائوس میں 9 نومبر کو اقبالؒ اور 12 ربیع الاول کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے شاندار تقریبات کی اطلاعات بھی مل رہی ہیں مگر حکومتی ارکانکی بصیرت کا یہ عالم ہے کہ مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر نثار چیمہ نے یوم اقبال پر چھٹی کی قرارداد پیش کی تو وزیر داخلہ شہر یارآفریدی نے سابق وزیر داخلہ احسن اقبال کی ہاں میں ہاں ملائی‘ اپنے قائد اور وزیراعظم عمران خان کے خیالات اور ماضی کے بیانات کا لحاظ نہ کیا۔ عمران خان نے اپنی کتاب ’’میں اور میرا پاکستان‘‘ میں حضرت علامہ کے حوالے سے جس عقیدت و محبت کا اظہار کیا اور اپنی ہر تقریر میں پاکستان کو اقبالؒ اور قائدؒ کا پاکستان بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں‘اس کا تقاضا یہ ہے کہ چھٹی بحال کی جائے یا پھر یوم مئی جیسی دیگر چھٹیاں بھی منسوخ کردی جائیں، تاکہ قوم نواز حکومت اور عمران حکومت میں فرق محسوس کرے مگر اس کی پروا شاید کسی کو نہیں۔ میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریبات شایان شان طریقے سے منانے کے ساتھ یہ اہتمام بھی ضروری ہے کہ صرف اس ماہ مبارک میں نہیں پورا سال حکمرانوں کے شب و روز اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق گزریں۔ امیر و غریب، طاقتور و کمزور اور شاہ وگدا میں کوئی فرق نظر آئے نہ عام شہری اور حکمرانوں کے مابین قانونی و سماجی سطح پرتفاوت باقی رہے۔ عمران خان دولت و امارت کو اگر پورے معاشرے میں مساوی تقسیم نہیں کرسکتے تو غربت ہی کو ملک میں برابر برابر بانٹ دیں ‘ عام آدمی کے دکھوں، تکلیفوں اوراذیت میں کچھ تو کمی واقع ہو۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جنگ خندق کے موقع پر اسوہ حسنہ قابل تقلید مثال ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیٹ پر ایک پتھر باندھا تو آپؐ نے دو باندھ لیے۔ عمران خان تو شاید یہ بھی کر گزریں مگر ان کے بعض ساتھی؟ کرپشن کا خاتمہ ہویا غربت کا انسداد، تعلیمات و سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تیر بہدف نسخے موجود ہیں۔ چین سمیت کل عالم نے ان آفاقی تعلیمات سے فائدہ اٹھایا ہم محروم رہے ؎ ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو آں کہ از خاکش بروید آرزو یا زنورمصطفی اورا بہااست یاہنوز اندر تلاش مصطفی است (دنیا کے رنگ و بو میں جہاں بھی نظر دوڑائیں اس کی مٹی سے جو بھی آرزو ہویدا ہوتی ہے وہ یا تو نور مصطفی ؐ سے چمک دمک رکھتی ہے یا ابھی تک مصطفی ؐ کی تلاش میں ہے) دیار نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں فرط عقیدت سے ننگے پائوں چلنے والے حکمران سے بعید نہیں کہ وہ پاکستان کو واقعی ریاست مدینہ بنانے کے راستے پر چل نکلے کہ چین میں بھی اسے غربت اور کرپشن کے خاتمے کی وہی ترکیب بتائی گئی ہو گی جو چودہ صدیاں قبل آزمائی جا چکی۔ عزم و ہمت، ایثار و قربانی، ضبط نفس، کفایت شعاری اور صداقت و امانت کے علاوہ عدل و مساوات۔ حکومت اسد عمر کے بقول اقتصادی و معاشی بحران سے نکل آئی۔ ڈاکٹر نورالحق قادری اور ان کے عاشقان رسولؐ ساتھیوں نے لاٹھی گولی کے بغیردھرنا ختم کرایا اور مخدوم شاہ محمود قریشی ملک کو سفارتی تنہائی سے نکالنے کے لیے کوشاں ہیں۔ تعلیمات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور تصورات اقبال سے رہنمائی حاصل کر کے ماہ ربیع الاول میں اگر حکومت عشق رسولؐ کے جذبے سے سرشار حضورؐ کے غریب، بے آسرا اور مفلوک الحال اُمتیوں اور ریاست مدینہ پاکستان کے شہریوں کو وہ آسائشیں فراہم کرتی ہے جو ان کا بنیادی حق ہے اور آئین کا تقاضا ‘تو یہ ایفائے عہد اور صداقت و امانت کی درخشاں مثال ہوگی۔ قول و فعل کی مطابقت کے بغیر یہ سنگ میل عبور نہیں ہوسکتا اور پرعزم، پرجوش، مخلص اور یکسو ٹیم کی عدم موجودگی میں اقبال و قائد کے خواب کی تعبیر ناممکن ہے۔ حکومت خواہ چینی قیادت سے سبق سیکھے یا اقبال و قائد کے تصورات و نظریات سے رہنمائی حاصل کرے اس کی مرضی۔عوام کو آم کھانے سے غرض ہے پیڑ گننے سے نہیں۔ ؎ بیاں میں نکتہ توحید آ تو سکتا ہے تِرے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے