وفاقی حکومت نے بجلی کی فی یونٹ قیمت میں ایک روپیہ 95پیسے اضافے کا اعلان کیا ہے۔ فیصلے کی وجوہات سے آگاہ کرتے ہوئے وفاقی وزراء اسد عمر‘ عمر ایوب اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی تابش گوہر نے بتایا کہ حکومت نے مشکل مالی حالات کے باوجود پاور سیکٹر کو 473ارب روپے کی سبسڈی دی‘ گردشی قرض کم کرنے کے لئے متعدد اقدامات کئے‘ آئی پی پیز کے ساتھ نئے معاہدے کئے جن سے چھ ہزار ارب روپے کا مالیاتی بوجھ کم ہو گا۔ وفاقی وزرا نے بتایا کہ حکومت کے کاروبار دوست اقدامات کی وجہ سے معیشت کا پہیہ تیزی سے چل رہا ہے۔ وفاقی وزراء جس وقت بجلی کے نرخوں میں اضافے پر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کر رہے تھے اس دوران یوٹیلیٹی سٹورز پر متعدد اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔ اس نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ مرچ‘ ڈبہ بند اچار‘ مشروبات‘ مصالحہ جات‘ شیمپو ،کپڑے دھونے کا پائوڈر اور صابن کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں۔ اشیائے خورو نوش اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں وقفے وقفے سے مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ چند ماہ کے دوران بجلی کی فی یونٹ قیمت بھی اسی رو میں بڑھتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ یہ صورت حال ہر خاص و عام کے لئے تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اشیاء کی قیمتیں بڑھنے کی منطقی وجہ مارکیٹ میں چیز کی طلب کا سپلائی سے بڑھ جانا ہوتا ہے۔ دنیا کے سبھی ممالک میں عام آدمی کی ضرورت کا درجہ رکھنے والی اشیا کا سٹاک خاطر خواہ حجم میں رکھا جاتا ہے۔ ملک میں پیداوار کم ہو تو حکومت اس شے کی کمی کا بحران پیدا ہونے سے پہلے درآمد کر لیتی ہے۔ گزرے برس میں چینی ‘ آٹا اور پٹرول کے بحران صرف اس وجہ سے سنگین ہوئے کہ حکومت اور اس کے اداروں کے پاس طلب و رسد کے قابل بھروسہ اعداد و شمار موجود نہیں تھے۔ یہ صورت حال اس لحاظ سے مزید پریشان کن ہے کہ بیرون ملک سے متعدد اشیاء کی بھاری مقدار درآمد کرنے کے باوجود قیمتیں نیچے نہیں آ رہیں۔ عوام کو معلوم نہیں ہو پا رہا کہ خرابی طلب و رسد کے نظام میں ہے‘ اشیاء کے ذخائر سے متعلق ہے یا پھر سرکاری عمال کی غفلت اور سستی کی وجہ سے ہے۔بجلی ،پٹرولیم مصنوعات اور گیس گھریلو زندگی میں ایک سہولت جبکہ پیداواری عمل میں ایندھن کا کام دیتے ہیں۔ سادہ سا اصول ہے کہ جس ریاست میں صنعتی ایندھن سستا ہوتا ہے وہاں مصنوعات کی پیداواری لاگت کم ہوتی ہے۔ کم پیداواری لاگت کی وجہ سے مصنوعات کی قیمتیں کم ہوتی ہیں اور مقامی و بین الاقوامی منڈیوں میں سستی ہونے کی وجہ سے اپنی جگہ بناتی ہیں۔ پاکستانی حکومتوں کو جب کبھی مالی وسائل کی ضرورت پڑی انہوں نے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے کہنے پر بجلی‘ پٹرول اور ضروری اشیاء کے نرخوں میں ٹیکس شامل کر دیا۔ نتیجہ یہ کہ 60روپے لٹر میں دستیاب پٹرول اب 110روپے تک ملتا ہے۔ بجلی کی صورت حال بھی یہی ہے۔ بل میں پانچ کے لگ بھگ ٹیکس شامل کر دیے جاتے ہیں۔ ایک عام سمجھ بوجھ والا کاروباری آدمی جو اصول جانتا ہے حکومت‘ سرکاری محکمے اور متعلقہ افسران اس سے واقف نہیں۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ پاور سیکٹر کو سالانہ پونے پانچ سو ارب روپے کی سبسڈی دیتی ہے۔ حکومت پیپلز پارٹی کی ہو، مسلم لیگ ن کی ہو یا تحریک انصاف کی کوئی یہ نہیں بتاتا کہ پٹرول ‘ بجلی‘ گیس اور عام اشیا کی قیمتوں میں جو ٹیکس شامل کئے گئے ہیں ان کا مجموعی حجم کیا ہے اور اس بڑی رقم کو کہاں استعمال کیا جاتا ہے۔ عوام کی طرف سے مشکل حالات میں ریاست کے فیصلوں کا احترام کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے مہنگائی میں اضافے کا معاملہ اٹھانے کے باوجود عوام حکومت کو اب تک رعایت دینے کے حق میں دکھائی دے رہے ہیں۔ اس صورت حال کا حکومتی اراکین اور وزراء غلط اندازہ کر کے تین سال کے بعد بھی سابق حکومتوں کو ذمہ دار ٹھہرا کر اپنا دامن بچا رہے ہیں۔ یقینا سابق حکومتوں کی غلطیوں سے ہی یہ معاملہ خراب ہوا لیکن تحریک انصاف نے جب عوام کو یقین دلایا کہ اشیاء کی قیمتوں میں مسلسل اضافے ‘ بدعنوانی اور ناانصافی بڑھنے کی وجہ سابق حکومتوں کی نالائقی ہے اور اس کے پاس ان مسائل کے حل کا قابل بھروسہ منصوبہ ہے تو عوام نے تحریک انصاف کو ان خرابیوں کو دور کرنے کا مینڈیٹ دیدیا۔ یہ مینڈیٹ تقاضا کرتا ہے کہ اب صرف ماضی کی حکومتوں کو قصور وار قرار دینے کی بجائے اپنی کارکردگی بہتر بنانے پر توجہ دی جائے۔ حالیہ دنوں حکومت نے بجلی پیدا کرنے والی متعدد نجی کمپنیوں کے ساتھ نظر ثانی شدہ معاہدے کئے ہیں۔ ان معاہدوں کی رو سے بجلی کے نرخوں میں کمی کا فائدہ صارفین کو منتقل کیا جاتا تھا لیکن اس کے برعکس بجلی کی فی یونٹ قیمت میں دو روپے اضافہ کر دیا گیا۔ اس اضافے سے دو سو یونٹ استعمال کرنے والے غریب خاندان پر ایک ہزار روپے کے لگ بھگ نیا بوجھ آ پڑے گا۔ قبل ازیں کورونا کی پہلی لہر کے دوران پیٹرول کے نرخوں میں کمی کا فائدہ عام آدمی کو منتقل کرنے میں حکومت ناکام رہی تھی۔ یہ صورتحال کسی لحاظ سے اطمینان بخش نہیں اور وزیر اعظم سے تقاضا کرتی ہے کہ قیمتوں کے تعین اور کنٹرول کا غیر فعال نظام فوری طور پر فعال بنا کر عوام کے لئے سہولت کا انتظام فرمائیں۔