بھارت اور پاکستان کے درمیان ستمبر 1960ء میں عالمی بنک کی ثالثی میں سندھ طاس معاہدے کی رو سے معرض وجود میں آنے والے ’’مستقل انڈس کمیشن‘‘ کا 118واں اجلاس بھارت میں گزشتہ ہفتے جاری تھا کہ بھارتی ایک ٹی وی چینل کی سرکردہ صحافی اور پروگرام پیش کار پلکی شرما اور پادھما نے دانستہ ٹویٹ میں بھارتی حکومت کو اکسایا کہ دریائے سندھ کے پانی پر کنٹرول کر کے پاکستان میں سیلاب اور قحط سالی پھیلانی چاہیے۔مذکورہ صحافی کے مطابق دریائے سندھ کا پانی بھارت کو پاکستان کے خلاف طاقتور تزویراتی برتری دیتا ہے اورپاکستان کی قریباً 75فیصد زراعت کا انحصار دریائے سندھ کے پانی پر ہے جسے بھارت کنٹرول کرتا ہے۔ اس کے ردعمل میں پاکستانی ذرائع ابلاغ میں پراسرار خاموشی چھائی ہوئی ہے۔پلکی شرما کوئی گمنام صحافی نہیں۔دائیں بازو کی انتہا پسند قوم پرست پلکی شرما نے حسب سابق اپنی پاکستان دشمنی کوتزویراتی برتری کو دبائو کے الفاظ سے بدلنے کی ناکام کوشش کی۔کیا وہ آبی وسائل اور جغرافیہ سے لاعلم ہیں اور پاکستان مخالف احمقانہ اشتعال کے ڈھول پیٹ کر مقبولیت حاصل کرنا چاہتی ہیںِیہ خطرناک صورتحال ہے۔بھارت کے اندر ریاستوں کے درمیان پانی کے تنازعات موجود ہیں اور اسی تناظر میں عرصہ دراز سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے مسائل پر پاکستان دشمنی کو ہوا دے رہی ہے۔بات صرف دریائے سندھ تک محدود نہیں رہی۔دریائے جہلم اور چناب کے پانی کا رخ مڑنے یا کم کرنے کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔کیا ان بیانات کو غیر ذمہ دار یا ناقابل عمل کہہ کر مسترد کیا جا سکتا ہے؟ اوڑی کے خود ساختہ حملے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے!بھارتی حکومت کا کہنا تھا کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کو توڑنے بنا بھی پاکستان کو پانی کے لئے ترسا سکتا ہے۔بھارتی وزیر اعظم کے اس بیان کو محض گیدڑ بھبھکی نہیں کہا جا سکتا۔بھارتی وزیر عظم بخوبی جانتے ہیں کہ کسی بھی ملک کا پانی بند کرنا جنیوا کنونشن کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ ا سی لئے معاہدہ سندھ طاس کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین لڑی جانے والی تینوں جنگوں میں بھارت پانی کو بطور ہتھیار استعمال نہیں کر سکا ۔کشن گنگا‘ سلال اور بگھلیار ڈیمز کے علاوہ وولر بیراج سمیت متعدد چھوٹے بڑے بھارتی آبی منصوبے مکمل ہو چکے ہیں یا زیر تکمیل ہیں۔ جبکہ اس کے دریائے سندھ پر نیمو بازگو اور چٹک دریائے جہلم پر ربڑ ڈیم اور دریائے چناب پر درالہتی کے علاوہ درجنوں دیگر آبی منصوبوں کی فیزیبلٹی رپورٹس آخری مراحل میں ہیں۔یہ منصوبے بظاہر پن بجلی کے حصول کے لئے ہیں جن پر عالمی عدالت سے بھی انصاف ملنے کی توقع نہیں اور ایسا ماضی میں ہو چکا ہے۔بھارت کا اصل مقصد پاکستان کو بنجر بنانا اور بوقت ضرورت پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا ہے ۔پاکستان ہر گزرتے سال پانی کی شدید کمی کا شکار ہو رہا ہے۔ چولستان اورسندھ کے مختلف علاقوں میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔تربیلا اور منگلا ڈیمز میں پانی کی آمد میں شدید کمی کی باتصویر داستان سماجی رابطوں کے ذرائع پر دیکھی جا سکتی ہے۔کسی منچلے نے غازی گھاٹ پل پر ٹھہر کر دریائے سندھ میں بہتے پانی کی ویڈیو فلم رواں تبصرے کے ساتھ لگا رکھی ہے کہ دریا میں پانی کی وافر مقدار بہہ رہی ہے لیکن جنوبی پنجاب کی نہریں خشک سالی کا شکار ہیں۔سکھر بیراج سے نکلنے والی نہریں بعض ویڈیو فلمز میں لبالب بھری محسوس بھی ہوتی ہیں تو احتجاج کرنے والوں کی بھی کمی نہیں کہ چھوٹے کاشتکار کو پانی کی فراہمی میں بخل سے کام لیا جا رہا ہے۔مشرقی اور وسطی پنجاب کی انہار میں 50سے 75فیصد پانی کی کٹوتی سرکاری اعداد و شمار کی روشنی میں ثابت شدہ ہے۔ارسا کی جانب سے جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق پانی کی قلت 40سے 50فیصد ہے جسے مجموعی طور پر صوبوں کے کوٹے سے منہا کیا جا رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں اب مستقل طور پر آبی وسائل پر اثر انداز رہیں گی لیکن گلیشیئرز پگھلنے کے عمل سے پانی کی آمد میں بہتری کی یقینا توقع ہے۔گزشتہ پانچ برس کا موسمیاتی تجزیہ اور آئندہ آنے والوں سالوں میں پانی کی متوقع کم آمد کے پیش نظر صورت حال گھمبیر نظر آ رہی ہے۔ صوبوں کے مابین پانی کی تقسیم کا معاہدہ 1991ء میں موثر ہونے کے باوجود ہم باہم دست و گریبان ہیں۔بداعتمادی کی فضا کی خشت اول تو معاہدہ کے ساتھ ہی رکھ دی گئی تھی۔ دھائی دیتے کاشتکار زرعی استعمال کے پانی کی شدید قلت کا رونا رو رہے ہیں۔بجلی اور ڈیزل کی آسمان کو چھوتی قیمتیں الگ وبال جان بن چکی ہیں۔حالیہ فصل کی کاشت پر اٹھنے والے اخراجات سن کر خون جگر ارزاں محسوس ہوتا ہے ۔خال خال ایسے چارٹ بھی نظر آ رہے ہیں کہ 2047ء تک زیر زمین پانی خاکم بدہن بالکل بھی ناپید ہو جائے گا۔آگہی اور شعور کے اس دور میں اگر ہم لاعلم ہیں تو اپنے ازلی دشمن کے عزائم سے ہمیں باخبر رہنا چاہئے۔ لہذا پانی روکنے کی کسی بھی بھارتی کوشش کو اشتعال انگیزی سمجھا جائے گا اور معقول جواب دینے میں پاکستان حق بجانب ہو گا۔ہریانہ کے گزشتہ ریاستی انتخابات میں نریندر مودی نے یہ بھی کہا تھا کہ بھارتی کسانوں کا جس پانی پر حق ہے وہ گزشتہ 70برسوں سے پاکستان جا رہا ہے۔ مودی یہ پانی روکے گا اسے آپ کے گھر تک لائے گا۔کیا یہ پانی ستلج‘ بیاس یا راوی کا ہے۔قطعی نہیں اپنے حصے کے تینوں مشرقی دریائوں کا پانی بھارت کے مکمل کنٹرول میں ہے۔ مستقبل قریب میں بھارت کی نظر پاکستان کے حصے کے تین مغربی دریائوں کے پانی پر ہے۔دریائے چناب پر زیر تعمیر متنازع منصوبوں میں مایار ڈیم لوئر کلنائی ڈیم پاکل دل ڈیم شامل ہیں جن کے ناموں سے عام قاری شائد مانوس نہیں۔ دریائے سندھ پر بھارت کی جانب سے پانی کا رخ موڑنے کے منصوبے اور دریائے جہلم پر پن بجلی کی آڑ میں پانی روکنے کے بھارتی اقدامات اگر عملی جامہ پہن لیں تو تربیلا ‘ منگلا ڈیمز کا انحصار صرف بارش کے پانی پر ہو گا۔عالمی ثالثی عدالت نے ماضی قریب میں بھارتی نکتہ نظر سے اتفاق کرتے ہوئے پن بجلی کے منصوبوں کو جائز قرار دیا تھا لیکن حکومت پاکستان کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہونا چاہیے کہ بھارت کی جانب سے آبی جارحیت کو اقوام متحد کے فورم پر لے کر جانا ہو گا۔نریندر مودی کی زبان بولتی پلکی شرما کی زہر اگلتی ٹویٹس ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کی نظروں سے آخر کیوں اوجھل ہیں۔