مکرمی !کوئی بھی حکومت بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کو سنجیدگی سے نہیں لیتی ۔ بجلی گھروں میں آتی نہیں ہے مہینے کے آخر پر ہزاروں کا بل آ جاتا ہے۔ غریب آدمی اتنا بل کہاں سے ادا کر سکتا ہے جس کی محض تنخواہ سولہ ہزار ہو ایک گارڈ کی یا مالی کی؟ان غریبوں کی دو وقت کی روٹی کا کون سوچتا ہے؟ جو دو وقت کی روٹی نہیں کھا سکتے جو باپ بیٹی کی شادی کے لیے سامان اکٹھا نہیں کر پا رہا وہ بیٹی کے جہیز کی فکر اور شادی سے دو دن پہلے گھر آئے تیس ہزار کے بل کو پکڑ کر خودکشی کا سوچے گا۔ جو باپ بچوں کو عید کے کپڑے کسی کی منتیں کر کے پہنا رہا ہو جس نے آگلی تنخواہ پر وہ واپس لوٹانے ہوں۔ جو بچہ والد کے چھوڑ جانے کے بعد سولہ سال کی عمر میں ماں اور بہنوں کی کفالت کے ساتھ اپنی پڑھائی اور روزگار کے لیے دو سو دہاڑی پہ کام کرتا ہے اسکے گھر سات ہزار کا بل پھنک کر چلے جائیں تو وہ بچہ کس کے آگے روئے؟ باپ بچی کہ رخصتی کرے یا بجلی کا بل ادا نہ کرنے پہ جیل جائے؟ ہمارے ملک میں عوام کو ہر اس طریقے سے لوٹا جا رہا ہے جس طریقے سے لوٹا جا سکتا ہے۔ حکومت کو غریب کی خودکشی بیٹی غریب کے آنسو سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہاں فرق تب پڑتا ہے جب بل ادا نہ کیا جائے جب ادا نہ ہونے پہ میٹر کاٹ کر مزید بیس ہزار کا ٹھپہ غریب کی کمر پہ لگا دیا جائے۔ حکومت نے بیرون ملک سے لیے گئے قرضے اتارنے کے لئے بجلی کے بلوں میں اضافہ کر دیا ہے جو سراسر ناانصافی ہے ۔ حکومت قرضوں کے نام پر عوام کو ہمیشہ سے لوٹتی ۔ خد ا را غریب طبقے کی آہوں کو محسوس کریں انکے مسائل حل کریں تاکہ غریب کا جینا ممکن ہو سکے۔ ( زنیرہ ریاض ‘ملتان)