خاکم بدہن ہماری بربادیوں کے مشورے آسمانوں میں تھے۔ ان مشوروں میں بھارت‘ اسرائیل زیر سرپرستی امریکہ سرگرم تھے اور پاکستان پر اسرائیلی گولوں کے ذریعے عملدرآمد بھی شروع کر دیا گیا تھا۔ مگر جسے خدا رکھے اسے کون چکھے۔ آسمانوں کے خالق نے ان مشورہ سازوں کی ساری چالوں کو ان پر الٹ دیا۔ خالق ارض و سماء کے ارشاد کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ وہ اپنی چالیں چلے اور اللہ نے اپنی چال چلی۔ بے شک اللہ بہترین چال چلنے والا ہے۔ تائید ایزدی اور ہمارے دوست ممالک کی بروقت دوڑ دھوپ سے پاک بھارت کشیدگی قدرے کم ہوئی ہے مگر خطرہ ابھی ہمارے سر بلکہ برصغیر کے ڈیڑھ ارب لوگوں کے سر سے ٹلا نہیں۔ جنگ کب شروع ہوتی ہے؟ جب خطے میں کسی ایک حکمران کی عقل و دانش پر پردہ پڑ جاتا ہے اور وہ جھوٹی انا اور طاقت کے زعم اور خودی کے نشے میں تلملانے لگتا ہے تو طبل جنگ بجا دیتا ہے اور ایسا خوفناک کھیل کھیلتے ہوئے وہ نہیں سوچتا کہ اس کھیل تماشے میں انسانیت کا کتنا نقصان ہو گا۔ 1939ء سے 1945ء تک کی چھ سالہ دوسری جنگ عظیم میں ‘ کہ جس کا آغاز ہٹلر کے جنگی جنون سے ہوا تھا۔ بے پناہ نقصان ہوا۔ اس جنگ میں 6کروڑ انسان ہلاک ہوئے‘ زخمیوں کی تعداد بھی بے شمار تھی۔ اس جنگ کا خاتمہ ایک بہت بڑی ہولناک تباہی پر ہوا تھا۔ امریکہ نے ایک ایٹم بم جاپان کے شہر ہیرو شیما پر گرایا۔ جس میں ایک لاکھ 46ہزار انسان صرف دو منٹوں میں لقمہ اجل بن گئے جبکہ ناگاساکی پر گرائے جانے والا دوسرے ایٹم بم نے آناً فاناً 80ہزار انسانوں کو ہلاک کر دیا۔ اللہ نہ کرے اگر نریندر مودی آج کسی انا پرستی یا دیوانگی سے کام لیتے ہیں اور خطے میں کوئی ایٹمی چنگاری پھینک دیتے ہیں تو پھر جواب در جواب میں جو ہو گا وہ ناقابل بیان ہے۔ اللہ پاکستان اور اس خطے کو تباہی و بربادی سے محفوظ رکھے۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے گزشتہ روز ملتان میں کہا ہے کہ امتحان ابھی ختم نہیں ہوا۔ مودی الیکشن سے پہلے کوئی حرکت کر سکتا ہے۔ کم و بیش ایسی ہی باتیں بھارت کے بھی بعض سنجیدہ فکر سیاست دان کر رہے ہیں مودی کو محض الیکشن جیتنے کے لئے کسی خوفناک مہم جوئی سے باز رہنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ کنٹرول لائن پر بھارتی گولہ باری ابھی تک جاری ہے۔ گزشتہ روز 2شہری شہید اور 4زخمی ہوئے۔ نریندر مودی کا جنگی جنون عروج پر ہے۔ پانچ سال میں مودی پہلی بار کسی فوجی تقریب میں شامل ہوئے اور انہوں نے پاکستانی امن پسندی کی تائید و تعریف کرنے کی بجائے الٹا پاکستان کو الزام دیا کہ سرحد پار سے سازشیں ہو رہی ہیں۔ بھارت کے حصے میں آنے والے مشرقی دریائوں کے اضافی پانی پر پاکستان کا ہمیشہ سے حق مسلّم تھا۔ اب بھارت نے یہ اضافی پانی روک لیا اور سندھ طاس معاہدے پر ہونے والے مذاکرات کو ملتوی کر کے کم ہوتی ہوئی کشیدگی کو پھر بھڑکا دیا ہے۔ ادھر افغانستان بھارت ہی کی بولی بول رہا ہے اور دنیا کے ہر فورم پر پاکستان کے خلاف الزام تراشی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ بھی کہا ہے کہ پاکستانی اقدامات کو پلوامہ سے جوڑنا بھارتی ایجنڈا ہے۔ شاہ صاحب اتنی سادگی سے بھی کام نہ لیں کہ ہم جو کچھ کہیں گے دنیا اسے ہی من و عن تسلیم کر لے۔ حکومت نے بھارتی ڈوزیئر کی وصولی کے بعد کالعدم تنظیموں کے خلاف کریک ڈائون کیا۔ اس کریک ڈائون میں فلاح انسانیت جیسی ویلفیئر تنظیموں کو بھی شامل کر لیا گیا۔ یہ فلاحی تنظیم 2005ء کے زلزلہ زدگان اور بعدازاں مختلف آفات سماوی وارضی کی زد میں آنے والے انسانوں کو مسلسل مددکرتی چلی آ رہی تھی اور کئی تعلیمی ادارے اور شفاخانے بھی چلا رہی تھی۔ یو این او نے بھی بارہا اس ویلفیئر کام کی بہت تعریف و توصیف کی۔ ان تمام اداروں کی بندش سے کتنے مریض علاج سے ‘ کتنے طلبہ زیور تعلیم سے اور کتنے لوگ روزگار سے محروم ہو گئے ہیں۔ ہم ابھی تک عین حالت جنگ میں ہیں اس لئے ہر چھوٹا بڑا قدم گہرے غور و فکر کے بعد اٹھایا جانا چاہیے۔ ایک برطانوی ادارے نے پاکستانی معیشت کی جو حقیقی تصویر کشی ہے اس کی ایک جھلک دیکھ لیجیے۔ پاکستان کی تقریباً ایک تہائی آبادی یعنی 7کروڑ کے قریب لوگ خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سوا دو کروڑ بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔ ملک کی دو تہائی خواتین لکھنا پڑھنا نہیں جانتیں۔ پاکستان میں پیدا ہونے والا ہر 11واں بچہ پانچ سال کی عمر سے پہلے زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔ پانچ سال سے کم عمر بچوںمیں سے 44فیصد کی مناسب نشو و نما نہیں ہو پاتی۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی اور عوام کے معیار زندگی کی بہتری کے لئے معیشت میں ترقی کی رفتار 7فیصد سے زائد سے زیادہ نہیں۔ بجلی‘ گیس اور دیگر اشیائے ضرورت کی قیمتیں بڑھنے سے غریب اور سفید پوش طبقہ مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہا ہے۔ برسر اقتدار آنے سے پہلے عمران خان کی کوئی تقریر ایسے درد انگیز اعداد و شمار سے خالی نہ ہوتی تھی۔ اب مگر وہ غریبوں کو بھول گئے ہیں۔ اس وقت پاکستان کے سامنے تین بہت بڑے چیلنج ہیں۔ پہلا مودی کا جنگی جنون‘ دوسرا گرتی ہوئی معیشت اور تیسرا مسئلہ کشمیر۔ ان تمام چیلنجز سے نبرد آزمائی اور سرخروئی کے لئے صرف اور صرف ایک چیز کی ضرورت ہے اور وہ ہے لفظی نہیں حقیقی قومی اتحاد۔ کاش آرمی چیف کی بریفنگ میں خود عمران خان آتے اور طویل عرصے تک برسر اقتدار رہنے والے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بھی پوری طرح نہ سہی۔ پیرول پر ہی رہا کر کے انہیں بھی اس بریفنگ میں شامل کرتے اور قومی پالیسی کے لئے سب کی معلومات و تجربات سے استفادہ کیا جاتا۔ اس وقت دنیا مسئلہ کشمیر کو سمجھنے لگی ہے۔ لوہا بہت گرم ہے اور چوٹ لگانے کا یہ بہترین وقت ہے۔ ہمیں اس موقع کا بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ ابھی مودی کا جنگی جنون اور دیگر خطرات ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں مگر کشیدگی میں قدرے کمی کے ساتھ ہی وزیر اعظم عمران خان کی وقتی سنجیدگی پھر طنز و طعنے میں بدل گئی۔ دو روز پہلے وزیر اعظم موصوف نے پہلے تو یوٹرن کی فیوض و برکات پر لیکچر دیا پھر فرمایا کہ بلاول پرچی سے لیڈر بن گیا۔ نام زرداری سے بدل کر بھٹو کر لیا‘ جدوجہد کی ہوتی تو پتا ہوتا یو ٹرن لینا لیڈر کی شان ہے۔ پھر عمران خان نے بلاول بھٹو کی اسمبلی میں انگریزی میں کی گئی تقریر کو نشانہ تنقید بنایا اور یہ بھی کہا کہ جو انگریزی بولی وہ زیادہ لوگوں بالخصوص ن لیگ اور جے یو آئی والوں کی سمجھ میں نہیں آئی۔ یہاں ایک سچی بات وزیر اعظم کے منہ سے نکل گئی جو پاکستان قومی زبان تحریک کی روح رواں میں فاطمہ قمر کو بہت پسند آئی۔ فاطمہ قمر کا کہنا یہ ہے کہ جب وزیر اعظم خود اعتراف کر رہے ہیں کہ پارلیمنٹ کے ارکان کی اکثریت بھی انگریزی نہیں سمجھتی تو پھر عمران خان قوم کو انگریزی کی غلامی سے نجات کیوں نہیں دلاتے کہ فرمان قائد بھی ہے اور آئینی تقاضا بھی۔