اسے بدقسمتی کہیں ، مقدر کا لکھا یا ہمارا غیر محتاط رویہ،جو بھی کہا جائے،نتیجہ ہماری علالت کی صورت میں نکلا۔ بیماری کا کیا نام لیں، وہی جس کا آج کل ہر ایک شکار ہے۔ جو اس کا مذاق اڑاتے تھے، آخرکار وہ بھی اس کی لپیٹ میںآگئے۔ خدا جھوٹ نہ بلوائے ہم نے کبھی اس وبا کا مذاق نہیں اڑایا، اسے ہمیشہ سنجیدہ لیا،اس کے بارے میںجاننے کی کوشش کی۔ جدید ترین طبی نظریات سے واقفیت رکھی، ڈاکٹرز کے مشورے ملحوظ خاطر رکھے۔ اپنی قوت مدافعت بہتر رکھنے کے لئے وٹامن سی، زنک کے سپلیمنٹ استعمال کرتے رہے، ثنا مکی ، ادرک کے قہوے سمیت اور بھی خاصا کچھ لیتے رہے۔ اس کا یقینا فائدہ پہنچا ہوگا ۔جن دنوں ماسک دستیاب نہیں تھے، ہم نے خاصی کوشش کر کے اچھے والے کئی ماسک منگوائے اور نہایت باقاعدگی سے انہیں پہنتے رہے۔ کئی ماہ کے لاک ڈائون اور اس کے بعد بھی کہیں پر آنے جانے سے گریز کیا۔ بے تکلف دوستوں کی دعوتوں کو معذرت کے ساتھ رد کیا۔ ا سکا اچھا نتیجہ نکلا اور بدترین دنوں میں بھی اس وباسے محفوظ رہے۔ اس کا اعتراف کرنا چاہیے کہ وقت گزرنے کے ساتھ کچھ ریلیکس ہوگیا، اس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ بیس ستمبر کو اتوار کی صبح ایک دوست کے گھر ناشتے کے لئے گیا، وہاں چند دوست جمع تھے۔ اوائل مارچ کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا کہ کسی ایسی گیدرنگ میں شریک ہوا۔ بعد میں شکر کیا کہ مجھے اس وقت تک یہ مسئلہ لاحق نہیں ہوا تھا، ورنہ سب دوستوں کو ہوجاتا۔ اب مجھے لگتا ہے کہ اس قسم کے ناشتے ، کھانے پر بھی اکٹھا ہونے سے گریز کرنا چاہیے کہ وہاں پر احتیاط کرنا ممکن نہیں ہوپاتا۔اگلے روز اکیس ستمبر کی شام قبلہ ہارون الرشید صاحب دفتر تشریف لائے، رات کوارشاد احمد عارف صاحب کی میزبانی میں ایک چائنیز ریستوران سے کھانا کھایا۔ خاکسار بھی شریک تھا۔ دو تین دن بعد پتہ چلا کہ ہارون الرشید صاحب پازیٹو ہوگئے ہیں، ان کو یہ مسئلہ ان کے صاحبزادے بلال الرشید سے لاحق ہواجو انہیں گاڑی پراسلام آباد سے لاہور لے آئے تھے۔ جمعہ کی شام یہ اطلاع مجھے ملی اور پھر طبیعت خراب ہونے لگی، سوچا کہ نفسیاتی اثرات ہیں۔ ہفتہ کی صبح بخار ہوا تو احتیاطاً ٹیسٹ کرایا جو پازیٹو آیا، یوںاگلے کئی دنوں کے لئے گھر میں قرنطینہ کرنے کے سفر کا آغاز ہوا۔ صد شکر کہ ارشاد عارف صاحب اس سے متاثر نہیں ہوئے اور ہارون صاحب کی بھی صحت بہت بہتر ہے،وہ فون کے ذریعے اپنے ٹی وی پروگرام میں بھی شرکت کر رہے ہیں۔ میرے لئے ابتدائی دن قدرے کٹھن تھے جب بخار ہوا، مگر شکر ہے کہ وہ سو سے زیادہ تیز نہیں رہا۔پھر ممتاز محقق، دانشور، کالم نگارجناب ڈاکٹر صفدر محمود نے ساہیوال کے ہومیوپیتھ ڈاکٹر نیاز سے رابطہ کرایا، جن کی دوائیوں نے صورتحال بہت بہتر کر دی۔ ڈاکٹر نیاز کی تجویز کردہ ادویات اس بیماری کے لئے بہت موثر سمجھی جارہی ہے، بہت سوں نے تجربہ کیا ہے، میں نے بھی خود بھی اسے آزمایا اور اگر یہ سو فی صد نہیں تو ستر اسی فیصد تکلیف ضروررفع کر دیتا ہے۔ طریقہ کار بہت آسان ہے، پازیٹو ہونے کے یقین کے بعد پہلے دن NAJA 1M(ناجا ون ایم )کے صرف تین قطرے ایک گھونٹ پانی میں ڈال کر پی لینے ہیں۔ اس کے بعد اس دوائی کومریض نے بالکل استعمال نہیں کرنا۔ البتہ گھر کے دیگر افراد کو حفظ ماتقدم کے طور پر صرف ایک قطرہ ایک گھو نٹ پانی میں ملا کر پلا دیں، ان شااللہ بیماری نہیں ہوگی، گھر والے بھی صرف ایک بار ہی استعمال کریں۔ اگلے روز یعنی چوبیس گھنٹوں بعد CHINA 1M (چائنا ون ایم )کا صرف ایک قطرہ ایک گھونٹ میں ملا کر مریض کو پینا ہے۔ یہ صرف ایک بار ہی کرنا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس سے کمزوری دور ہوتی ہے اور امیونٹی بوسٹ ہوجائے گی مریض بیماری سے لڑنے کے قابل ہوجائے گا۔ ڈاکٹر نیاز مختلف مریضوں کو اس کے بعد اگلے پانچ دنوں کے لئے دو ہومیوپیتھک ادویات استعمال کراتے ہیں، مجھے پہلے بیلاڈونا کا ایک اور دوائی کے ساتھ کمبی نیشن بتایا، پھر اسے تبدیل کر کے آرسینیکم اور بیپٹیشیا کے پانچ پانچ قطرے دن میں تین بار استعمال کرنے بتائے۔ میں اپنے بہت سے معاملات میں بھائیوں کی طرح عزیز دوست ڈاکٹر عاصم اللہ بخش سے مشورہ کرتا ہوں۔ڈاکٹر صاحب نائنٹی ٹو نیوز میں کالم لکھتے رہے ہیں۔ اس بار بھی ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کے طبی مشورے ساتھ شامل رہے ۔ڈاکٹر صاحب کی خوبی یہ ہے کہ وہ کنگ ایڈورڈ سے فارغ التحصیل ہونے کے باوجود واحد ڈاکٹر ہیں جو ہومیوپیتھی یا حکمت کے بارے میں کسی قسم کے تعصبات کے قائل نہیں۔ وہ شفا پر یقین رکھتے ہیں چاہے وہ کہیں سے بھی ہو، اگرچہ ڈاکٹر عاصم کی بنیاد سائنسی ہی ہے اور وہ ہمیشہ انگریزی ادویات نہ چھوڑنے کا مشورہ دیتے ہیں، مگر وہ ہومیوپیتھی یا حکمت کی سپورٹ سے کبھی انکار نہیں کرتے۔ میری طبیعت تو خیر بہت بہتر ہوگئی ہے، مگر یہ کم بخت اعصاب اور پورے سسٹم کو توڑ دیتا ہے، کمزوری بلا کی ہے۔ ظلم یہ ہے کہ بندہ آٹھ دس دن گھر میں رہے ، کوئی کام کاج نہیں، فون تک سننے کی ضرورت نہیں، مگر پھر بھی لکھنے پڑھنے کی طرف جی مائل نہیں ہوتا، اس دوران کئی اہم کتابیں آئیں، انہیں پڑھتا بھی رہا، مگر جیسی یکسوئی چاہتا تھا، وہ نہ مل سکی۔ ان کتابوں پر ان شااللہ بات کروں گاکہ وہ سب اہم اور قابل ذکر ہیں۔ اس بیماری سے گزرتے ہوئے اس پر غور بھی کرتا رہا، چند ایک نکات اہم لگے، ان پر الگ سے بات کروں گا۔ سردست تو ان چند دنوں کے اندر پے درپے نمودار ہونے والے بیانیوں کا کچھ تذکرہ کرنا چاہتا ہوں، جنہیں پڑھ کر، سن سن کر تلملاتا رہا، افسوس کہ اتنی ہمت نہیں تھی کہ بیٹھ کر کالم ٹائپ کر سکتا۔ میاں صاحب نے اپنی پراسرار خاموشی کا پردہ چاک کرتے ہوئے ایک دھواں دھار تقریر کی، جس پر بڑا شور اٹھا۔ ہمارے ایک دوست نے نعرہ مستانہ بلند کیا کہ اب سب تجزیے اس تقریر کے حوالے سے ہوں گے، تقریر سے پہلے کی پاکستانی سیاست اور تقریر سے بعد کی پاکستانی سیاست دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہوں گی، وغیرہ وغیرہ۔ ایسی باتیں نائن الیون کے حوالے سے کی گئی تھیں کہ اس حملے کے بعد دنیا مختلف ہوگی۔ ایسا ہوا بھی ،مگر آج سب کے سامنے ہے کہ وہ حملہ کرانے والے اور حملہ کا نشانہ بننے والے سب اکٹھے بیٹھے مذاکرات کر رہے ہیں۔ میاں صاحب کی تاریخی تقریر تودو دن بھی نہیں نکال پائی۔ ن لیگی نمائندوں کی خفیہ ملاقاتوں کی تفصیل سامنے آنے سے میاں صاحب کے مزاحمتی بیانیہ کی دھجیاں بکھر گئیں۔ حد تو یہ ہے کہ جو احباب سوشل میڈیا پر ن لیگ کا پرجوش دفاع کرتے تھے ، وہ بھی اس منافقت آمیز بیانیے پر بھونچکا رہ گئے۔ یار لوگ اب نیا بیانیہ لے آئے ہیں، مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن کے سیاسی اتحاد کا تقسیم ہند سے پہلے کی مسلم لیگ اور جمعیت علما ہند سے موازنہ ہو رہا ہے۔ ویسے حد ہوتی ہے مبالغہ اور سیاسی ہمدردی میں تمام تر انتہائوں کو عبور کرنے کی۔ مسلم لیگ ن کا قائداعظم کی مسلم لیگ سے کیا موازنہ ہوسکتا ہے؟ صرف نام سے زیادہ کیا مشترک ہے ان میں ؟ دوسری طرف جمعیت علما ئے ہند کا سیاسی موقف تاریخ نے غلط ثابت کر دیا، ہندوستان کی مسلم آبادی نے تو تب ہی ان کا موقف مسترد کر دیا تھا۔ مودی کے بھارت میںتو جے یوآئی ہند کے تب کے نامی گرامی علما کا موقف انتہائی بچکانہ اور ضرورت سے زیادہ سادہ لوحی کا شاہکار بن گیا ہے۔ اس کے باوجود بہرحال جے یوآئی ہند میں مولانا حسین احمد مدنی جیسے لوگ تھے، جن کی کریڈیبلٹی کسی بھی قسم کے شک وشبے سے بالاتر تھی۔ وہ بڑے آدمی تھے۔ متقی، مخلص ہونے کے ساتھ اہل علم۔ سیاسی غلطیاں اپنی جگہ ، مگر ان کی شخصیت پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ مولانا فضل الرحمن کا ان کے ساتھ کیا موازنہ بنتا ہے؟ کبھی کسی نے قبلہ فضل الرحمن صاحب سے کوئی علمی بات سنی ہو، کوئی اچھا ادبی علمی جملہ، کسی نئی کتاب کا حوالہ، اپنی عصری اسلامی تحریکوں سے واقفیت کی کوئی جھلک، سید حسن البنا، سید قطب،رشید رضا مصری،بدیع الزماں سعید نورسی، حسن ترابی، علامہ یوسف قرضاوی یا کسی دوسرے بڑے مسلم سکالر پر کبھی آنجناب نے گفتگو فرمائی ہو۔ٹی وی ٹاک شوز میں وہ لافنگ سٹاک بنتے نظر آتے ہیں، ہر بات کو توڑ مروڑ کر ’’تہتر کے آئین کے تناظر میں‘‘ بیان کرنے کی لایعنی کوششوں کے ساتھ۔ اپنے مسلک، اپنے مخصوص مدرسوں کے نیٹ ورک، اپنی مخصوص پاورپاکٹس اور چند نشستوں ، ان کے بل بوتے پر اقتدار میں حصہ لینے کی کوششوں کے سوا جناب فضل الرحمن کے دامن میں ہے کیا؟ حیرت ہے، افسوس صد افسوس کہ صرف سیاسی ہمدردی میں ایسا مبالغہ؟ مولانا تو خود کو نجانے کن تحریکوں کا وارث کہہ ڈالیں، لفظ ان کے پاس وافر ہیں، ان کے تقدس کے وہ قائل ہی نہیں۔وہ تو خود کو جنگ آزادی کا وارث بھی کہہ ڈالیں گے، کچھ اور بھی کہہ دیں گے، ان کا عمل مگر سب کے سامنے ہے۔ ایک سر تا پا پاور پالیٹیکس کرنے والے، ہمیشہ اقتدارمیں لتھڑی سیاست کرنے والے مولانا فضل الرحمن کو جے یوآئی ہند کا وارث بنانا، ان میں نجانے کہاں سے حریت کا شعلہ دیکھنا… اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بیانیوں کی جنگ نہیں یہ بیانیوں کا مذاق چل رہا ہے۔بھیانک مذاق۔