نواز شریف ایک بار پھراندرونِ خانہ ملامت کے نشانے پر ہیں۔برطانیہ نے ویزے میں توسیع کے لئے ان کی درخواست پر اعتراضات لگا دیے اور جملہ محبان وطن کے آنگن میں شادیانے بج اٹھے‘نواز شریف کا بیان اخبارات میں دو سطر کی جگہ نہیں پا سکتا کیونکہ ان کی سیاست ختم ہو گئی لیکن ان کے خلاف آنے والی خبر مرکزی اور شہ سرخی بنتی ہے کیونکہ…پتہ نہیں کیونکہ۔ بہت پرانی بات ہے‘ہمارے محلّے میں اچانک ایک نوجوان نے سامنے سے آتے ہوئے لڑکے کو دھر لیا اور اس کی پٹائی کرنے لگا۔ لوگوں نے چھڑایا اور پوچھا کیوں مار رہے ہو۔نوجوان نے کہا‘اب کیسے بتائوں کیوں مار رہا ہوں۔واللہ اعلم کیا ماجرا تھا۔لیکن ملتا جلتا ماجرا نواز شریف کا ہے۔ان کی پٹائی ہو رہی ہے اور پیٹنے والے بتا نہیں پا رہے کہ کیوں پیٹ رہے ہیں‘کچھ عرصہ پہلے ایک بار تو یہی بتایا کہ کرپشن کی ہے‘تین سو ارب روپے چوری کئے ہیں لیکن اب وہ بات بھی ہوا ہو گئی۔تین سو ارب میں سے ڈیڑھ روپے مبلغ نصف جن کے بارہ آنے ہوتے ہیں جو کسی زمانے میں گلاس توڑنے کی مثل ہوا کرتے تھے،کی کرپشن کا الزام ہے ‘لیکن اس بارے علم نہیں ہے کہ کیوں مار رہے ہیں ۔اب کیا بتائیں کہ کیوں ما رہے ہیں۔ ٭٭٭٭ ویسے ایک الزام اور بھی ہے۔ویسا ہی نہیں ۔ لیکن بہرحال لگایا جا رہا ہے اور وہ ہے کہ نواز شریف کا بیانیہ دشمن کا بیانیہ ہے۔بھارت کا بیانیہ ہے۔ ایک مجلس میں بیشتر شرکاء اس راقم الحروف سمیت‘غیر محب وطن تھے۔البتہ ایک صاحب کا بیانیہ بیان کر رہے ہیں‘بھارت کی بولی بول رہے ہیں۔عرض کیا‘نواز شریف نے یہ کہا ہے کہ آئین میں رہو‘آئین کی پاسداری کرو‘اس کے سوا کیا کہا ہے‘کیا یہ بھارت کا بیانیہ ہے‘پہلے سے بھی زیادہ زور سے چلائے اور کہا کہ ہاں‘یہ بھارت کا بیانیہ ہے۔یا للعجب‘بھارت کو ہمارے ملک میں‘ہمارے آئین کی پاسداری سے کیا دلچسپی ہے۔پھر یاد آیا۔یہ آئین بھٹو نے بنایا تھا اور بھٹو کے بارے میں بھی یہی شک تھا کہ وہ بھارت کا ایجنٹ ہے۔چنانچہ یہ سوچ کر عرض کیا کہ اگر ہمارا آئین بھارت کا بیانیہ ہے تو اس سے نجات حاصل کرنے کی سبیل کیوں نہیں نکالتے۔بولے‘اس کا وقت بس آ پہنچا ہے۔ آدمی ولی صفت تھے۔اگلے سے اگلے دن خبر آ گئی کہ صدارتی نظام نافذ کرنے کے لئے رٹ دائر کر دی گئی ہے۔ ٭٭٭٭ نواز شریف کی کرسی کمزور تھی‘چلی گئی‘بس ایک اقامے کی مار تھی۔لیکن ان کا بیانیہ کمزور نہیں‘بہت تگڑا نکلا۔(ابھی تک اس پر لڑائی جاری ہے ،بیٹی حامی ہے جبکہ بھائی مخالف)بیانیہ تگڑے سے تگڑا ہوتا گیا ع کھا کھا کے اوس اور بھی سبزہ ہرا ہوا اسی لئے شاید حکومت اور حکمران جماعت کی سیاست نواز شریف سے شروع ہو کر نواز شریف پر ختم ہوتی ہے۔وزیر اعظم ہو یا وزیر اعلیٰ‘مشیر ہو یا معاون خصوصی‘سینکڑوں ترجمان ہوں یا وزیر‘صبح اٹھتے ہی ایک بیان نواز شریف کی مذمت میں‘ایک بیان رات کو سونے سے پہلے نواز کی ملامت کے لئے جاری کرتے ہیں۔صبح بناکا‘شام بناکا۔ جس ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار تھا‘ وہ نہ رہا‘صبح و شام کی یہ مدارات بھی کہاں رہے گی۔بیانیے کی جنگ البتہ جاری رہے گی۔دنیا کے سبھی ملکوں میں آئین کی پاسداری ہے‘آئین سے کس کو رستگاری ہے‘آج وہ ‘کل ہماری باری ہے۔آئین کی بالادستی ہونے کی’’بری خبر‘‘ کو کب تک ٹال سکیں گے۔ ٭٭٭٭ اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزول جج جسٹس شوکت صدیقی نے اپنی برطرفی کے خلاف جو رٹ درخواست دائر کی تھی ۔ہنوز تشنہ سماعت ہے۔ ایک خط میں جسٹس شوکت صدیقی نے بہت سے شکوے کئے۔کہاں میرا عمل آئین اور قانون کی کسی شق کے تحت جرم نہیں بنتا پھر بھی برطرف کر دیا گیا۔ ساری بات ستاروں کی ہے جن کے ستارے’’ایلیٹ‘‘ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں‘ان کے غیر قانونی تجاوزات خود’’قانون‘‘ ریگولرائز کرتا ہے اور صادق و امین کی سند بونس میں ملتی ہے۔شودر ستاروں والوں کی قانونی عمارات بھی تجاوزات قرار دے کر گرا دی جاتی ہیں۔ خط لکھنا ہے تو ستاروں کو لکھیے صاحب!مزید تبصرہ سونامی ٹلنے کے بعد…! ٭٭٭٭ ایک خبر زیادہ تر اخباروں میں چھپی ہی نہیں‘کمتر اخباروں نے کسی اور سرخی کے ساتھ متن میں لگا دی۔خبر کچھ یوں ہے کہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ وغیرہ کے پروٹوکول پر 5ارب روپے ماہانہ ہوتے ہیں۔وزیر اعظم صدر وغیرہ کے پروٹوکول پر 1098ملین روپے(یعنی گیارہ ملین سے 2لاکھ کم) اخراجات اٹھتے ہیں۔وزیر اعظم کی لاہور رہائش گاہ پر اٹھنے والی رقم بھی ہوشربا ہے۔کچھ دوسری تفصیلات بھی ہیں۔اعداد و شمار جمع کئے جائیں تو اس بات کی سمجھ آ جاتی ہے کہ باہر سے لئے گئے قرضے کہاں کہاں غائب ہو رہے ہیں۔ خبر بری لگی؟ہر رقم کے شروع میں صرف یا محض کا لفظ لگا لیں‘اچھی لگنی لگے گی۔ ٭٭٭٭٭