ووٹ کی بجائے اگر معاملہ پروپیگنڈے پر ہوتا تو ن لیگ دو تہائی اکثریت سے جیت چکی ہوتی۔ شرافت کی صحافت کی ادائیں اور بے تابیاں دیکھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے اس ڈھٹائی کے ساتھ بھی جھوٹ بولا جا سکتا ہے؟ انتخابات سے لے کر ان کے نتائج تک آپ ذرا ان کے بیانیہ شریف پر غور فرمائیے۔ سب سے پہلے طوفان اٹھا کہ جناب الیکشن نہیں ہونے والا۔ شرافت کی سیاست نے ہلکے ہلکے سُروں میں کہنا شروع کر دیا کہ انتخابات کا انعقاد مشکوک ہے۔ شرافت کی صحافت نے اپنے ہمنوائوں کے ساتھ ہلکی ہلکی قوالی شروع کر دی کہ ایک عدد سازش تیار ہو چکی ہے۔ نواز شریف کے خلاف مقدمات تو محض ایک بہانہ ہے اصل میں احتساب کی آڑ میں الیکشن ملتوی کرانے کا پروگرام ہے۔کچھ ایسے خواتین و حضرات جو اس سے پہلے اہل اقتدار کے ایس ایم ایس دکھا کر اپنے تئیں رعب جھاڑا کرتے تھے اب کے انہوں نے یہ ’’ راز ‘‘ سر عام فاش کرنا شروع کر دیا کہ جناب کون سے الیکشن ؟ اسٹیبلشمنٹ تو سازش تیار کر چکی ہے۔ایک صاحب عدالت جائیں گے اور کہیں گے پہلے احتساب پھر انتخاب۔ یوں الیکشن تین سال کے لیے ملتوی ہو جائے گا ۔اور یہ تین سال نگران حکومت بنا کر مسلط کر دی جائے گی۔یاروں نے چودھری نثار کا نام نگران وزیر اعظم کا طور پر لینا شروع کر دیا۔ یہ جاسوسی فرما کر یہ احباب فخر سے محفل کو ایک نگاہ غلط سے دیکھتے اور فرماتے عمران تو گیا کام سے۔ یہ تو محض ایک ٹشو پیپر تھا۔ الیکشن نہیں ہونے والے۔ادھر الیکشن کی تیاریاں ہوتی رہیں ادھر پوری ڈھٹائی کے ساتھ یہ پروپیگنڈا ہوتا رہا۔اب الیکشن ہو چکا ۔ مگر احباب کے چہروں پر ندامت اور شرمندگی کی بجائے وہی استقامت ہے ۔ چودھری نثار مسلم لیگ ن سے الگ ہوئے تو قوالوں نے شور مچا دیا یہ تو پہلے ہی تحریک انصاف کے ساتھ معاملہ کر چکے اور چند دنوں میں تحریک انصاف میں شامل ہو کر بلے کے نشان پر الیکشن لڑیں گے۔ چودھری نثار نے مگر تحریک انصاف میں شامل ہونے سے انکار کر دیا اور ان کا انتخابی نشان بلا نہیں بلکہ جیپ تھا۔ قوالوں نے شرمندہ ہونے کی بجائے نئی قوالی پڑھنی شروع کر دی کہ بلا ہو یا جیپ ایک ہی بات ہے۔میرے جیسے طالب علم پوچھتے کہ بلا اور جیپ ایک دوسرے کا مقابلہ کر رہے ہیں تو پھر ایک ہی بات کیسے ہو گئی تو جواب دیا جاتا کہ چودھری نثار اور عمران دونوں اسٹیبلشمنٹ کے مہرے ہیں ۔ قوال اونچے سروں میں راگ الاپتے کہ ڈیل ہو چکی ہے ایک سیٹ پر سرور خان جیت جائیں گے، دوسری پر چودھری نثار کو جتوایا جائے گا۔ساتھ ہی کوسنے دیے گئے کہ عمران خان تو ایک مہرہ ہے ۔اصل میں چودھری نثار کا ایک گروپ ہے جو جیپ کے نشان پر لڑ رہا ہے۔ وزیر اعظم اسی گروپ سے ہو گا۔ اب چودھری نثار ہار چکے اور تحریک انصاف جیت چکی۔ قوالوں کے چہرے پر مگر کوئی شرمندگی نہیں وہ اسی ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ نئی قوالی میں مصروف ہیں۔ قوالوں نے شور مچایا عمران خان کا کام صرف نواز شریف کی نا اہلی تک تھا۔ اب اس کا کام ختم ہو چکا ہے۔ اب اسے کسی بھی وقت نا اہل قرار دے دیا جائے گا اور کہا جائے گا آپ گھر جائیے آپ کا بہت شکریہ۔ آپ کے ذمے بس اتنا ہی کام تھا۔قوال صبح شام راگ الاپ الاپ کر ہمیں بتاتے کہ عمران خان کس کس مقدمے میں نا اہل ہو سکتے ہیں۔ قوالوں کے نزدیک عمران خان کی نا اہلی سازش کے سکرپٹ کا اہم حصہ تھی تا کہ عمران سے جان چھڑا کر کسی اور مہرے کو اقتدار میں لایا جا سکتا۔ لیکن جب عمران خان نا اہل ہونے سے بچ گئے تو قوالوں نے شرم اور حیا سے کام لینے کی بجائے نئی قوالی پڑھنی شروع کر دی کہ عمران کو نااہل نہ کرنا ایک مکمل سازش ہے ۔ وہ عمران خان جو کل تک ایک مہرہ تھا جسے اب ٹھکرا کر پھینک دینے کا وقت قریب تھا اسی عمران خان کو اب لاڈلا کہا جانے لگا اور قوال اچھل اچھل کر داد شجا عت وصول کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ بھلا لاڈلا کیسے نا اہل ہو سکتا تھا۔ الیکشن قریب آیا تو قوالوں نے لہرا لہرا کر اور بل کھا کھا کے راگ چھیڑے کہ یہ تو دھاندلی ہونی ہی ہونی ہے۔قوالوں نے وجد میں آ کر سر لگائی کہ مسلم لیگ ن کے خلاف ایک ماحول بن چکا اور اسے ہرا دیا جائے گا۔الیکشن سے دو دن قبل یہی قوال پوری ڈھٹائی کے ساتھ ایک نیا راگ الاپنے لگ گئے کہ عمران خان کے خلاف اسٹیبلشمنٹ نے اپنا کام دکھا دیا ہے اور عمران خان اب پانچوں حلقوں سے الیکشن ہار رہا ہے۔ایک قوال سے میں نے حیرت سے پوچھا کل تک تو آپ کی قوالی کے مطابق عمران خان لاڈلا تھا اور اسٹیبلشمنٹ اسے جتوانا چاہتی تھی۔ یہ آج اچانک عمران خان پانچوں نشستوں سے ہار کیسے رہا ہے۔ قوال نے طرح طرح کے راگ کی سر لگا کر مجھے سمجھایا کہ یہ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ہیں تمہاری سمجھ میں نہیں آ ئیں گی۔ عمران کا کام یہیں تک تھا۔اس کا لاڈ بھی اب ختم ہو گیا۔قوال یہ کہہ کر خاموش ہوا تو اس کے ہمنوا نے سرگوشی کی کہ میاں اظہر کا معاملہ یاد ہے نا۔وہ وزیر اعظم بننے کی تیاریاں کر چکے تھے کہ ساری نشستوں سے ہار گئے۔اسی طرح عمران بھی تمام نشستوں سے ہار جائے گا۔ پلان بن چکا ہے۔ اسے پانچوں نشستوں سے شکست ہو گی۔ٹشو پیپر سے جو کام لیا جانا تھا لیا جا چکا۔اب انتخابی نتائج آ چکے ہیں اور عمران خان غیر معمولی فتح حاصل کر چکے ہیں۔ بیانیے کے قوالوں کے چہروں پر مگر کوئی ندامت اور کوئی شرمندگی نہیں۔ وہ اسی ڈھٹائی کے ساتھ نئی قوالیوں میںمصروف ہیں۔ حنیف عباسی کو سزا ہوئی تو قوالوں نے طبلہ اٹھایا اور شروع ہو گئے۔ تمام قوالوں ، سنتو خانوں اور ان کے ہمنوائوں کا ایک ہی راگ تھا کہ یہ شیخ رشید کو جتوانے کی ایک کوشش ہے۔ شیخ رشید کے راستے کا کانٹا صاف کر دیا گیا ہے۔ لیکن جب الیکشن کمیشن نے وہاں الیکشن ہی ملتوی کر دیا تو قوال ذرا شرمندہ نہ ہوئے ۔انہوں نے دوسرا طبلہ اٹھا لیا اور نئے راگ چھیڑ دیے۔ الیکشن کی صبح تک قوالوں کی قوالی کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ تحریک انصاف کے کارکنان جتنا مرضی زور لگا لیں ، ان کی جماعت نے 60 سے زیادہ نشستیں نہیں لینی۔ یہ قوال پچکاریاں مار مار کر دعوے فرماتے کہ دیکھیے صاحب سازش کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ عمران خان کو سادہ اکثریت نہیں لینے دینی۔ ایک ’’ ہنگ پارلیمنٹ‘‘ ہو گی۔ عمران جیسے آدمی کو اکثریت دینے کا اور یوںوزیر اعظم بنانے کا خطرہ نہیں لیا جائے گا۔لیکن شام جب عمران خان کی جماعت ایک سو بیس نشستیں لیتی دکھائی دی تو قوالوں کو لوگوں نے یاد دلایا کہ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے لیکن قوالوں نے کہا ہوتی ہو گی ہماری بلا سے، ہم اس جنس سے واقف نہیں ہیں۔قوالوں نے اب کے ایک نئی قوالی شروع کر دی کہ دھاندلی ہوئی ہے اور اس دھاندلی کے نتیجے میں لاڈلے کو سادہ اکثریت دی گئی ہے۔ جھوٹ اور ڈھٹائی سیاست میں جانے کب سے رائج ہے لیکن بیانیے کے قوالوں کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اس فن کومہارت کا نیا رنگ دے دیا ہے۔اس ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ کب کسی نے جھوٹ بولا ہو گااور اس بے نیازی سے کب کسی نے موقف بد لا ہو گا۔ابلیس بھی ان قوالوں کو دیکھ لے تو کہے : باقی نہیں اب میری ضرورت تہہ افلاک