بینظیر کیسی تھی؟ سوال کتنا سادہ اور مختصر ہے۔ اور جواب کتنا مشکل اور طویل ہے۔ اس سوال کا حق ان انسانوں پر زیادہ ہے جنہوں نے اس کو دیکھا تھا۔ مسکراتے،ہنستے ،جذبات میں مکے لہراتے اور خاموش۔ اتنی خاموش جتنا خاموش ایک میم کا مجسمہ ہوتا ہے۔ لندن کے مادام تساد مومی گھر میں چلتے ہوئے وہ ایک مجسمے کے آگے کافی دیر تک رکی رہیں۔ ان کے ذاتی دوست اور پارٹی کے سینئر رہنما نے ان سے پوچھا کہ بی بی کیا سوچ رہی ہیں؟ بینظیر بھٹو نے بہت دھیرے سے جواب دیا ’’مجھے لگتا ہے کہ میں بھی موم کا بت بن چکی ہوں‘‘ بینظیر بھٹو کے بارے میں بہت ساری باتیں ایسی ہیں جو دلوں میں موجود ہیں اور شاید وہیں دفن ہوجائیں گی۔ میں ان باتوں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ رہا جو باتیں سیاسی ہیں۔ آخر سیاسی رازداری کے سلسلے میں ہیں؛ میں تو ان باتوں کا تذکرہ کر رہا ہوں جو باتیں بہت عام ہیں مگر جب وہ باتیں بینظیر کے بارے میں تھیں تو پھر کیسے عام ہوسکتی ہیں۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ پورے پاکستان میں مکمل اقتدار ملنے اور چودہ برسوں سے سندھ میں حکومت کرنے کے باوجود آج تک پیپلز پارٹی نے بینظیر بھٹو کے بارے میں ایک بھی ایسی کتاب یا کوئی ڈاکومینٹری منظر عام پر نہیں لائی جو عوامی سطح کی ہو۔ بینظیر بھٹو جیسی عورت کا نام استعمال کرکے اقتدار پر قبضہ کرنے والے کبھی تو عوامی احتساب کا سامنا کریں گے۔ وہ کبھی تو عوام کے گھیرے میں آئیں گے۔ وہ کبھی تو اعتراف کریں گے کہ انہوں نے کس طرح بینظیر بھٹو کو صرف ایک سیاسی تصویر میں تبدیل کردیا۔ حالانکہ بینظیر صرف ایک تصویر نہیںتھیں۔ بینظیر بھٹو صرف وہ تقریر نہیں تھیں جس کی نقالی ان کے بیٹے سے کروائی جاتی ہے۔ بینظیر پاکستان کو مضبوط رکھنے کی زنجیر بھی تھیں۔ وہ چترال سے لیکر چانڈکا تک جہاں جہاں جاتی وہاں محبت کے گلاب کھل اٹھتے ۔ عوام کی بے پناہ محبت بلکہ عقیدت اوراس کے آگے ان کے دل کا یقین جس طرح بینظیر بھٹو کے لیے عوام کے دل میںتھا وہ ان کے والد کے بعد اور کسی پاکستانی سیاستدان کے مقدر میں نہیں آیا۔ ذوالفقارعلی بھٹو تو عوام کے ساتھ عشق کا نام ہے ۔ مگر وہ مرد تھے۔ ان کی ذات کی مکمل معصومیت ان کی بیٹی کے حصے میں آئی اور بھرپور انداز سے آئی۔ وہ اپنے پاپا کی پنکی تھی۔ وہ نصرت بھٹو کی گلابی گڑیا تھیں۔ مگر اس گلابی گڑیا کوآمریت اور اقتداری سیاست کے سنگلاخ راستوں پر چلنا پڑا۔ان کے پیر زخمی ہوئے۔ ان کا دل ہزار بار ٹوٹا اور اس نے ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑ کر پھر سے قدم بڑھایا اور وہ کامیاب ہوئیں۔ ان کی کامیابی پاکستان کی سیاسی داستانوں میں رقم ہوتی رہی، ان کا کردار عالمی سیاست کی دیواروں میں تحریر ہے۔ وہ پاکستان کی عزت بنی۔ان کے حوالے سے یہ گیت کس قدر سجتا تھا،جب وہ نہ صرف پاکستان بلکہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں تب پی ٹی وی پر چلنے والا یہ گیت ہماری دلوں میں محبت کی کیفیت بھر دیتا تھا۔ کیوں کہ ہم بھی تو بیٹیوں والے ہیں۔ جب موسیقی کے ساتھ ابھرتا ایک جادو جیسا گیت گونجا کرتا تھا: ’’ہم مائیں ہم بہنیں ہم بیٹیاں قوموں کی عزت ہم سے ہے‘‘ بینظیر بھٹو صرف اپنے خاندان کی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر جس طرح پاکستان کا مقدمہ پیش کرتی تھیں تب وہ ان فورمز پر بہت سجا کرتی تھیں۔ یونانی المیہ نگاری میں Greek Tragdies میں ایک خاص بات ہواکرتی ہے اور وہ بات یہ ہے کہ ہر ہیرو کی ایک کمزوری اس کے ساتھ جنم لیتی ہے اور جب ہیرو بڑا ہوتا ہے تو وہ کمزوری بھی بڑی ہوتی اور ہیرو کے قریب آتی جاتی ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے جب وہ کمزوری اس کو نگل جاتی ہے۔ پاکستان میں بینظیر بھٹو کی عزت کرنے والے اور ان کو چاہنے والے جانتے ہیں کہ بینظیر بھٹو کی ذات کی کمزوری کون سی تھی؟زرداری فیکٹر ان کی ذات کے حوالے سے بہت منفی ثابت ہوا۔ آصف زرداری ایک ایسے پتھر تھے جو بینظیر بھٹو کو راس نہ آئے اور ان کی مخصوص عادات اور ان کے مخصوص مزاج کے باعث بینظیر بھٹو مخالفین کو بینظیر بھٹو کی ذات کا نہایت کمزور اور قابل شکست پہلو مل گیا۔ ورنہ کس کی مجال تھی کہ وہ بینظیر بھٹو پر انگلی اٹھا سکے؟ بینظیر بھٹو خاندانی طور پر ایک سلجھے ہوئے گھرانے کی فرد تھیں۔ وہ کیا جانے رشوت؛ کک بیکس اور کرپشن؟ مگر آصف زرداری کی طبیعت ان کے لیے ایک ایسا بوجھ بن گئی کہ ہم نے انہیں بوجھ تلے دبتے دیکھا۔ آج بھی ہماری معصوم سی محبت وہاں کھڑی ہے اور رو کر پوری دنیا کو بتاتی ہے کہ یہاں بینظیر بھٹو دفن ہیں۔ بینظیربھٹو کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے وہ اپنی ذات میں پورا معاشرہ تھیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ وہ اپنے کردار میں بہت بڑی تھیں۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ان کا نام ان کی شخصیت کی طرح سحرانگیز تھا۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ قدرت نے ایسی خوبیوں سے نوازا تھا جو خوبیاں انسانوں میں عام طور پر پیدا نہیں ہوتیں۔ وہ بہت بلند تھیں۔ بہت ہمت والی۔ ان میں وہ ساری صلاحیتیںموجود تھیں جو ایک باوقار رہنما میں ہوا کرتی ہیں۔ وہ عوام کے لیے امید تھیں مگر اس امید کو جس طرح کرپشن اورعوام کے ساتھ سیاست کے لیے استعمال کیا گیا وہ بینظیر بھٹو کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ وہ ایک خوبصورت ذہن کے ساتھ خوبصورت شخصیت کی مالک خاتون بھی تھیں۔ وہ خاتون وہ بینظیر اس قدر المناک انجام کو پہنچیں کہ مخالفین کی آنکھیں بھی بھر آئیں اور بہت سارے گھروں میں ان کی شہادت والی شام کھانا نہیں پکا تھا۔ مگر آج تو ان کا جنم دن ہے۔ آج ہمیں اداس باتوں سے گریز کرنا چاہیے مگر ہم کیا کریں۔ بینظیر بھٹو کی ولادت اور شہادت ایک ایسی دو دھاری تلورا بن گئی ہے،جو ہمارے سینے میںسال میں دوربار پیوست ہوجاتی ہے۔میں ان کے بارے میں جب بھی سوچتا ہوں تو مجھے شام میں پیدا ہونے والے عرب شاعر نزارقابانی کے یہ الفاظ یاد آجاتے ہیں کہ: ’’جب بھی کوئی خوبصورت مرتی ہے تب دھرتی اپنا توازن کھو بیٹھتی ہے چاند سو برس کے سوگ کا اعلان کرتا ہے اور شاعری بیروزگار ہوجاتی ہے‘‘ بینظیر بھٹو کے بارے میں لکھنا کتنا آسان اور کس قدر مشکل ہے؟ بینظیر کیسی تھی؟ یہ سوال کتنا سادہ اور کس قدر پیچیدہ ہے۔ ہم اس سوال کو کس طرح سلجھائیں؟ کیا جواب دے گا کوئی؟ کبھی کبھی خاموشی بہت مشکل سوالات کا جواب بن جاتی ہے۔ اگر ہماری خاموشی بھی اس سوال کا جواب نہیں بن پاتی کہ: بینظیر کیسی تھی؟