سردیوں کا موسم یوں بھی بے رحم ہوتا ہے۔ اور پھر مغربی ممالک میں؟ الامان و الحفیظ! گرمیوں کے سوا، ہر موسم یہاں پوری شدت کے ساتھ اور جوبن پر آتا ہے۔ یہاں کی بہار اور خزاں، جس نے نہیں دیکھی، اس نے کچھ نہیں دیکھا! لیکن سرما، بقول ِسودا، اس طرح آتا ہے کہ گویا سارا ع کرۂ ارض، زمہریر ہْوا خدا جانے، لوگوں کی سرد مِہری بھی، اس موسم کی عطا ہے یا ان کے مزاج نے موسم کو بدل ڈالا ہے! دل کے سارے زخم ان دنوں، کھْل جاتے ہیں۔ ع دل کی چوٹیں ہیں ہری، رْت بھی ہے پروائی کی سولہ سال پہلے، یہی بے مہر موسم تھا، جب یار ِگم گشتہ بیرم خان نیازی کے، ٹریفک حادثے میں انتقال کی خبر ملی تھی۔ بیرم خان بیٹا تھا ڈاکٹر شیر افگن خان نیازی مرحوم کا۔ اس کی یاد آتی ہے اور دل کٹ کر رہ جاتا ہے۔ کتنے واقعات اور یادوں کا ایک سلسلہ بندھ جاتا ہے۔ مجھ سے عْمر میں وہ، تین سال بڑا تھا۔ اس کی زیادہ دوستی، میرے بڑے بھائی عدیل اظہر سے تھی۔ ایک کو زمانے کی نظر لگ گئی اور دوسرے کو نظر کھا گئی۔ بن سنور کر جب یہ دو جوان، شہر میں نکلا کرتے تھے تو لوگ انہیں رشک سے دیکھتے۔ جوش صاحب کا فقرہ یاد آتا ہے۔ انہوں نے کہیں لکھا ہے کہ پنڈت جواہر لال نہرو سے میری جب پہلی ملاقات ہوئی ہے، تو ان دنوں وہ بھی قیامت تھے اور میں بھی! یہ بات سن پچانوے کی ہے، لیکن لگتا ہے کہ صدیاں بیت گئی ہیں۔ ہم تینوں نے بیرون ِملک کا پہلا سفر، ایک ساتھ کیا تھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ پہلے امریکہ کے پانچ چھے بڑے شہروں کی سیر ہو اور پھر پیرس اور لندن میں ٹھیکی لیتے ہوئے واپسی۔ میری عْمر، بہت سے بہت اٹھارہ سال رہی ہو گی۔ اس سفر میں جو واقعات پیش آئے، وہ کبھی ہنسایا کرتے تھے، اور اب؟ دوستو میری طبیعت کا بھروسہ کچھ نہیں ہنستے ہنستے آنکھ میں رنگ ِملال آ جائے گا مجھے یاد ہے کہ ہماری پہلی پرواز، اسلام آباد سے نیویارک تک کی تھی۔ طویل مسافت کے بعد، جے ایف کے ایئرپورٹ پر ہم جب اترے ہیں، تو ایک عجیب ناگوار بْو تینوں کی ناک میں بس گئی۔ اَوروں کا تجربہ تو پتا نہیں، لیکن جب تک واپسی کی اْڑان نہیں بھری، اس بْو سے پیچھا نہیں چھْوٹا! ایئرپورٹ کے ہر ٹرمینل میں، تقریباً سارے بڑے فاسٹ فوڈ موجود تھے۔ مگر حرام چھوڑ، مکروہ کا بھی اتنا خوف تھا کہ صرف ایک فاسٹ فوڈ پوائنٹ کا رْخ کیا۔ وہاں پہنچ کر ہم نے وہ پیزا پسند کیا، جس پر آرائشی ٹماٹر ٹِکے نظر آئے۔ پیزا میز پر دھر کر، ہم اس گرد بیٹھ تو گئے، مگر تیز بدبْو نے طبیعت خراب کر دی۔ پیزا کو غور سے دیکھا تو جنہیں ہم اب تک ٹماٹر سمجھے ہوئے تھے، گوشت کے پتلے پتلے قتلے نکلے! ہم نے جا کر شکایت کی کہ ہم نے ایسا پیزا مانگا تھا، جس میں بیکن نہ ہو۔ اس پر جواب ملا کہ یہ پیپرونی ہے! غرض ایئر پورٹ سے ہم اوکتے، ابکائیاں لیتے ہوئے، افتاں و خیزاں رخصت ہوئے۔ شہر کے مرکز میں پہنچ کر جو کچھ دیکھا، وہ کسی فلم کا منظر تھا۔ سر ِعام ہر جنس جو قابل ِفروخت سمجھی گئی، بِک رہی تھی۔ ہر نشے کا دھتی اور لتیا، مطلوبہ شے خریدتا دکھائی دیا۔ پولیس کا کہیں نام و نشان نہ تھا۔ مجھے بڑا شوق فلمیں دیکھنے کا ہے، اس لیے ایک سینما میں بٹھا دیا گیا۔ یہ دونوں فیصلہ کر رہے تھے کہ سیر کے لیے کہاں جائیں۔ اتنی ہی دیر میں، کسی سیاہ فام امریکن نے چاقو دکھا کر، ان کی جیبیں خالی کرا لیں۔ شکر ہے کہ بیرم کی پٹھنولی نہیں جاگی ورنہ خدا جانے کیا خون خچر ہو کر رہتا۔ قصہ مختصر، چند گھنٹوں میں ہم اتنے بیزار ہو گئے کہ اگلی پرواز لے کر، پیرس چلے آئے۔ امریکہ کا یہ سفر، صرف تیس گھنٹوں کو محیط تھا! پیرس اتنا دلکش اور دلنشین ہوا کہ برسوں اسے ہم یاد کرتے ہی رہے۔ ساقیا صحبت ِدیرینہ جو یاد آتی ہے آنکھ سے خون کی اک بوند ٹپک جاتی ہے بیرم کے انتقال کی خبر، مجھے امریکہ میں ملی۔ میرے ایک رشتے کے ماموں، اسلام آباد میں لکڑی کے چھوٹے موٹے ٹھیکیدار ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ برسوں، وہ ان کی چھوٹی سی دکان میں آتا رہا اور ہماری خیر خبر لیتا رہا۔ ہماری ہی طرح، بیرم بھی انہیں "ماموں جی" کہ کر مخاطب کیا کرتا! بیرم کی آخری اطلاع، مجھے انہی سے ملی تھی۔ یہ ناگہانی سن کر مجھ پر جو گزری، وہ اس کا عشر ِعشیر بھی نہ ہو گی جو جوان بیٹے کے باپ پر بیتی ہو گی۔ اللہ اللہ! باپ نے اپنے چہیتے بیٹے کی سنائونی، کِس دل سے سْنی ہو گی۔ بعض لوگ اس طرح ٹوٹتے ہیں، جیسے تڑخا ہوا شیشہ۔ کچھ ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو جاتے ہیں۔ مگر وہ لوگ بھی، جو بظاہر نہیں ٹوٹتے، اپنے غموں کو دوسروں سے پوری طرح نہیں چھپا سکتے۔ ڈاکٹر صاحب بڑے مضبوط آدمی تھے۔ لیکن غم بھی قیامت کا تھا۔ اس حالت میں غم گساری کی انسان کو خواہش ہی نہیں، ضرورت بھی ہوتی ہے! ہزار افسوس کہ وہ جماعت، جس کے لیے انہوں نے ہر طرح قربانیاں دیں، اتنی سنگ دل نکلی کہ جنازے میں شرکت کرنا تو کجا، ایک فون تک نہ کیا گیا۔ سارا قصہ اب سامنے آ چکا ہے۔ یہ جنرل پرویز مشرف کا دور تھا اور ڈاکٹر صاحب پیپلز پارٹی کے ایم این اے۔ جنرل مشرف نے ڈاکٹر صاحب کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے، ہر طرح کا جتن کر کے دیکھ لیا، لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔ ایسے میں بیرم خان کے انتقال کی خبر جنرل صاحب تک بھی پہنچی۔ انہوں نے خود فون کر کے، افسوس کرنا چاہا۔ درمیان داروں نے قدری کر لی، مگر ڈاکٹر صاحب بات کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ آخر ان تک یہ التماس پہنچایا گیا کہ صرف تعزیتی پیغام کے لیے ہی فون سْن لیجیے۔ بڑے پس و پیش کے بعد، وہ فون پر آ گئے۔ بڑے سے بڑا لالچ بھی، جسے رام نہ کر سکا، جنرل مشرف نے اسے محبت سے شکار کر لیا۔ جان از نظیری گر طلبی، رایگان طلب کفر است در طریق ِکریمان معاملت بے نظیر بھٹو ان دنوں لندن میں تھیں۔ ایک فون کرنے میں، ان کا کیا ہرج ہوتا؟ لیکن سچ کہا گیا ہے کہ سرخسرو سے تاج کج کلاہی چھِن بھی جاتا ہے سرخسرو سے لیکن، بْوے سلطانی نہیں جاتی یاد رہے کہ پیر پگاڑا سے بی بی کے اتحاد نہ کرنے کی بڑی وجہ، یہ شکایت تھی کہ پیر صاحب نے بھٹو کے انتقال پر، ان سے تعزیت نہیں کی تھی! بیرم کی ہنسی اتنی قہقمہ خیز ہوتی تھی کہ سْننے والا بھی خواہ مخواہ ہنسنے لگتا۔ اب یہ ہنسی یاد آ کر آنکھیں نم کر دیتی ہے۔ عْمر کی نقدی اگر محدود ہے، اور یقیناً محدود ہے، اور آخرت اگر ابدی ہے، اور یقیناً ابدی ہے، تو پچیس سالہ جوان یا ایک سو پچیس سالہ بوڑھے میں بھی کتنا فرق ہوا؟ زندگی، دراصل موت کی تمہید ہے! سانسیں ہم نہیں لیتے، بلکہ سانسیں ہمیں لیے جا رہی ہیں! اور ع وقت کے ساتھ ہی، ہم بھی ہیں گزرتے جاتے میر صاحب کہتے ہیں بْود ِآدم، نمود ِشبنم ہے ایک دو دَم میں، پھِر ہوا ہے یہ ذرا سی نمود اور دو دَم کا عرصہ ہے، جس کا ہمیں بڑا حساب دینا ہے! خدا بیرم کی مغفرت کرے، وہ اتنا اچھا اور محبت کا آدمی تھا کہ ان شاء اللہ، سرخ رو رہے گا۔