Common frontend top

بیل آؤٹ پیکیج کا92نیوز کے پروگرام میں بتایا تھا: روپے کی قدر گرنا سازش نہ آئی ایم ایف نے کہا ڈالر150کا کریں:وزیر خزانہ

اتوار 09 دسمبر 2018ء





لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک ) وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا ہے روپے کی قدر گرنا کوئی سازش نہیں،اگر کوئی تحقیقات کرانا چاہتا ہے تو کرالے مجھے تو کوئی اعتراض نہیں،آئی ایم ایف نے ہمیں نہیں کہا کہ ڈالر کا ریٹ 140اور 150تک ہونا چاہئے ، آئی ایم ایف کی جانب سے ڈالر کے ریٹ کی کوئی شرط نہیں ہوتی،پالیسی ڈسکاؤنٹ ریٹ کے اوپر ان کی تجویز ہے کہ کیا ریٹ ہونا چاہئے اور اس ریٹ کو ہم نہیں مان رہے ،30نومبر کو جب ڈالر کی قیمت بڑھی تو سٹیٹ بینک کو جواب دینا چاہئے تھا ،معیشت کے لحاظ سے سٹیٹ بینک نے کوئی غلط فیصلے نہیں کئے ،ماضی میں جو بیانات دئیے میں آج بھی وہی بات کرتا ہوں، مجھے ابھی تک وزیر اعظم سے کوئی ڈانٹ نہیں پڑی مگر کچھ لوگوں کی یہ خواہش ضرور ہوگی، یہ صحافیوں کو بتانا چاہئے کہ یہ کہانی کہاں سے شروع ہوئی ، میر ی اور جہانگیر ترین کی لڑائی کہاں ہوئی،میں تو صرف آپ کو معیشت کے بارے میں اور یہ بتا سکتا ہوں کہ میڈیا میں کیا ہورہا ہے ۔میں نے آپ کے پروگرام میں الیکشن سے پہلے کہا تھا بیل آؤٹ ناگزیر ہے چاہئے وہ آئی ایم ایف سے کریں یا کسی اور سے ۔پروگرام بریکنگ ویوز ود مالک میں اینکر پرسن محمد مالک سے گفتگو کے دوران وزیر خزانہ اسد عمر نے ڈالر کے اتار چڑھاؤ پر سوال کے جواب میں کہا پچھلے دسمبر میں ن لیگ کی حکومت تھی ،گورنر سٹیٹ بینک یہی تھے مگر وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل تھے تو ن لیگ کی حکومت نے فیصلہ کیا یہ جو اربوں ڈالر زرمبادلہ کے ذخائر ہیں ، ایک طرف قرضے لئے جارہے ہیں اور دوسری طرف ریزرو ز ہیں تو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھتا جارہا ہے اور ویلیوایشن ایکس چینج ریٹ کی وجہ سے اس کو ٹھیک کرنا ہے ،اس کے بعد سے چھ سے سات مرتبہ کریکشنز ہوچکی ہیں اور کریکشنز بڑی کونٹوم کی ہوتی ہیں۔پچھلے سات مہینے کے اندر اس سے زیادہ بڑی ایک کریکشن ہوئی تھی ، یہ تو ایک پریکٹس ہے ۔مارکیٹ میں یہ عادت ہوگئی ہے کہ سٹیٹ بینک سے گائیڈنس آتی ہے کیونکہ ایکس چینج سالوں سے ہولڈ کرکے رکھا ہوا تھا تو جس دن سٹیٹ بینک ایکس چینج ریٹ موو کرنا چاہتا ہے تو اس دن وہ بتاتے ہیں لمٹ نہیں ہے جس پر مارکیٹ ریٹ خود بناتی ہے ۔عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ شروع میں ریٹ اوپر جاتا ہے اور اس کے بعد نیچے آتا ہے ۔ اس دفعہ جو ہوا وہ اس سے زیادہ ہوا،چھ یاسات دفعہ سنٹرل بینک نے پچھلے دسمبر سے لے کر نومبر 30تک مارکیٹ کے اندر روپے کی قدر کو گرنے کی اجازت دی ہے ۔جس دن ڈی ویلیو کرنا ہوتا ہے باقاعدہ گائیڈنس دی جاتی ہے وہ یہ ہوتی ہے کہ آج لمٹ نہیں ہے جو چاہے کرو۔ اسد عمر نے کہا ہر کوئی چار گھنٹوں کی بات کررہا ہے کہ اس چار گھنٹے میں ڈالر کا ریٹ اتنا اوپر کیوں گیا ۔134سے 143پر کیوں گیا،چار گھنٹوں کی ہر ایک کو بہت فکر ہے ،پہلے یہ تو دیکھیں روپیہ گر کیوں رہا ہے اس کی بنیادی وجہ کیا ہے ،ہویہ رہا ہے کہ آپ نے معیشت کی ایک پالیسی استعمال کی جس کی وجہ سے امپورٹ بڑھتی چلی گئیں،ایکسپورٹ کم ہوتی گئیں ،پاکستان کی تاریخ کا 19ارب کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہوگیا،آخری تین مہینے میں تو یہ صورتحال تھی کہ ایک ایک مہینے میں 2،دو بلین کا خسارہ ہورہا تھا جس کی وجہ سے پریشر آگیا۔میں تجزیہ کاروں کی بات کرتا ہوں کہ جب یہ کام ہورہا تھا اور تباہی ہورہی تھی تو مجھے ٹی وی پر کوئی خاص آواز سننے کو نہیں ملی،اس کو ٹھیک ایسے کرنا ہے کہ ایکسپورٹ بڑھانی ہے اورامپورٹ کم کرنی ہیں۔ترسیلات زر بڑھانی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کوکم کرنا ہے ۔پچھلے چار مہینے میں ایکسپورٹ بڑھ گئیں،درآمدات کم ہوگئیں۔ترسیلات زر بھی بڑھیں،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ آدھا رہ گیا،یہ تمام مثبت اعشارے ہیں،پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 19بلین ڈالر تھا ،یہ پاکستانی معیشت کا ساڑھے پانچ فیصد ہے ،مجھے یہ پتہ تھا کہ سٹیٹ بینک ایکس چینج ریٹ موو کرنے جارہا ہے ۔گورنر سٹیٹ بینک نے مجھے کہا مارکیٹ میں سپریڈز بڑھ گئے تھے جس پر موو کرنا پڑے گا۔میں نے اپنے تاثرات بیان کئے کہ اس کو بہتر کرنے کا اور طریقہ کیا ہے ، انہوں نے کہا مجھے سوچنے دیں مگر اگلے دن انہوں نے کہا موو کرنے سے ہی مسئلہ حل ہوگا۔میں نے انہیں کہا میں نے اپنی تجویز دے دی ہے مگر آگے آپ کا اپنا اختیار ہے کہ آپ نے کیا کرنا ہے ۔میں وزیر اعظم کے پاس بیٹھا تھا تو بریکنگ نیوز چلی کہ یہ ہوگیا ہے ، اس سے پہلے مجھے دن کا علم نہیں تھا کہ اس دن یہ ہونا ہے ، وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کمیونیکیشن کی ذمہ داری ہم لیں۔کمیونیکیشن کریکٹل ہے ،ملینز میں اکنامک پلیئرز ہیں جو ایکسچینج ریٹ سے متاثر ہوتے ہیں۔ایکس چینج ریٹ کا سگنل آتا ہے ۔کمیونیکیشن وائٹل ہے ۔میرے خیال میں کمیونیکیشن سنٹرل بینک سے آنی چاہئے تاکہ مارکیٹ کو پتہ ہو کیا کرنے جارہے ہیں۔ہمارا ایک مانیٹرنگ پالیسی بورڈ ہے جس کا مقصد پالیسی کیلئے کولیشن کرنا ہے ۔مانیٹرنگ پالیسی بورڈ کی میٹنگ کی باقاعدہ پریس ریلیز جاری ہوئی کہ معیشت کدھر کھڑی ہے اور آگے کیا توقعات ہیں ،اگر کوئی اس پر بیان دیتا ہے تو اس کی ذاتی رائے ہوسکتی ہے ۔جب سعودی عرب ، چین اور متحدہ عرب امارات کے حکمران وزیر اعظم کے ساتھ کھڑے ہوکر کسی معاملے پر بات کرتے ہیں تو پھر شک کی کوئی بات نہیں رہ جاتی،ٹی ایس اے حکومت پاکستان نے روک دیا تھا،اس لئے روک دیا تھا کہ جائیدادوں کے اوپر ڈسپیوٹ چل رہا تھا۔حکومت کی پوزیشن یہ تھی کہ800ملین ڈالر جو آپ نے روکے ہوئے ہیں تو ان پراپرٹیز کی ویلیو تو اتنی نہیں بنتی۔ویلیو آپ ایڈجسٹ کرلیں۔پراپرٹیز کی شناخت ہونی تھی ، اس کے اوپر دونوں حکومتوں نے اپنی ویلیوایشن کرانی تھی اور اس کے بعد ایگریمنٹ کا کوئی ایک طریقہ کار نکالنا تھا اس کے بعد بقیہ پیسہ پاکستان کو ملنا تھا ۔ٹی ایس اے نارمل چیز ہے ۔ملٹی نیشنل کمپنیز جو آپریٹ کرتی ہیں وہ خفیہ نہیں ہوتا۔یہ جو اتنے عرصے سے پاکستان کا پیسہ رکا ہوا ہے تو ہم ٹی ایس اے ان کو اگر دینا بھی شروع کردیں ،ہم جو پراپرٹیز ٹرانسفر نہیں کرسکے اس کی ہم ویلیو ایڈجسٹمنٹ بھی دے دیں،اس کے باوجود سینکڑوں ملین ڈالر ز ہمارے پاس آجائیں تو یہ ہم نے انہیں کچھ دیا ہے یا ان سے کچھ نکلوایاہے ۔اسد عمر نے کہا فسکل اینڈ مانیٹری پالیسی بورڈ کا مطلب ہوتا ہے کہ کوآرڈی نیشن سے چلنا ،مانیٹری پالیسی کے فیصلے انہوں نے ہی کرنے ہیں،خسارہ کے فیصلے میں نے ہی کرنے ہیں مگر کو آرڈی نیشن ہونی چاہئے ، اس وقت کوئی سازش نہیں ہورہی ہے ، مارکیٹ کو نظر آرہا ہے کہ آپ کی ایکس چینج ریٹ انڈر پریشر ہے ،میں نے وزیر اعظم کو روپے کی قدر گرنے بارے بتایا تھا ہوسکتا ہے انہیں یاد نہ رہا ہو۔جس وقت پالیسی ریٹ بڑھتا ہے تو مارکیٹ میں لوگ سمجھتے ہیں اب تو ریٹ بڑھ گیا ہے ،چلو اب لانگ ٹائم کیلئے کھیلتے ہیں، مگر وہ دیکھتے ہیں ابھی کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ موجود ہے تو و ہ ہاتھ کھینچنا شروع کردیتے ہیں۔پاکستان جہاں کھڑا ہے یہ بہت عرصے سے ہے ۔ آپ قرضے لئے جارہے ہیں۔ہمیں سرمایہ کاروں کو سہولیات دینی چاہئیں،ہماری حکومت کو لوگوں نے مینڈیٹ اس لئے نہیں دیا کہ جس طرح پچھلی حکومتوں نے آنکھیں بند کرکے فیصلے کئے ہم بھی ویسے ہی کرتے جائیں،فیصلوں کا جواب بھی دینا ہے ۔اگر عبد الرزاق داؤدسمجھتے ہیں پالیسی ری وزٹ کرنے کی ضرورت ہے تو انہیں دیکھنا چاہئے مگر یہ قدم کسی ایک کمپنی کیلئے نہیں ہونا چاہئے ۔کھادکے حوالے سے دسمبر میں تھوڑی شارٹیج کی خبر آرہی تھی لیکن ہم نے امپورٹ کی اجازت دے دی اورملکی پلانٹس بھی چلا دئیے ، اب وہ کھاد کی کمی نہیں ہوگی۔قرضے لینے سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ آپ کی اکنامک اور ریونیو گروتھ اورانٹرنل فنانسنگ کتنی ہے ،ہمارے پلان کے اندر قرضوں کی شرح جی ڈی پی شرح کے حساب سے ہے ۔ہم نے جی ڈی پی کو نیچے لاناہے ،2018میں بھی ایف آر ڈی ایل کی ریکوائرمنٹ ہے کہ ٹوٹل نیٹ جی ڈی پی 60فیصد سے نیچے چلا جائے مگر وہ پھر بھی نہیں جائیگا،ہم 72پوائنٹ ہٹ کرچکے تھے ، کوشش ہے کم کرکے 65 تک لائیں ،اگر میں نے فوری نیچے لانے کی کوشش کی تو معیشت منجمد ہوجائے گی،جو قرضے معیشت کے حجم کے مطابق بڑھ رہے تھے وہ کم ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ہنٹر ما ر کر کام کرانا آسان ہے مگر پائیدار چیز سٹرکچرل تبدیلی ہوتی ہے ۔پندرہ سال سے لوگ کوشش کررہے تھے کہ ٹیکس پالیسی اور کولیکشن کو الگ کرینگے نہیں کرسکے ،ہم نے 100دن میں یہ الگ کرکے دکھا دی ، ایف بی آ ر قانون میں دو تبدیلیاں کی ہیں ،ہم ٹیلیفون اورشوگر انڈسٹری میں تبدیلی لارہے ہیں ،صرف شوگر ملز ہی نہیں بہت سی ایسی انڈسٹریز ہیں جن کا بنیادی سٹرکچر ہی ٹھیک نہیں۔یہ جو دھڑا دھڑ پاور ہاؤسز بنائے جارہے تھے کسی نے دیکھا جو فرنس آئل تیار ہورہا ہے یہ کدھر جائیگا،ابھی بہت ساری انڈسٹریزکے سٹرکچرز دیکھنے کی ضرورت ہے ۔پہلی حکومت نے ہر انڈسٹری کے اندر گھس کر اس کی مت مار دی ہے ،انڈسٹری کے بنیادی ڈھانچے پر اشرافیہ کا قبضہ اور اسی پر معیشت کا انحصار ہے ، جب اشرافیہ کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے تو بہت شور مچتا ہے ۔ بینک اکائونٹس کی بائیو میٹرک شروع ہوگئی ہے ،ہمارے تمام وزرا ٹیکنیکل ایکسپرٹ نہیں ہیں،آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کیلئے ٹیکنیکل لوگ لا رہے ہیں ۔ زراعت صوبائی معاملہ ہے ،ہم وفاق میں جو کرسکتے تھے کیا۔کسان کیلئے بجلی کایونٹ 10روپے 35 پیسے سے پانچ روپے کردیا،زراعت کی ترقی کیلئے اگر بڑی صنعت کو بینک قرضہ دیتا ہے توآمدنی پر 35فیصد ٹیکس ہوگا ، اگر چھوٹی صنعت یا زراعت کو قرض ملتا ہے تو آمدنی میں صرف بیس فیصد ٹیکس ہوگا۔ مقصد اس وقت 33لاکھ کسانوں کو قرضے ملتے ہیں ہم 60لاکھ کودینا چاہتے ہیں۔ 

 

 



آپ کیلئے تجویز کردہ خبریں










اہم خبریں