پاکستان میں مشائخ و علمأ کنونشن کی تاریخ کم و بیش50 سال پہ محیط ہے۔مرحوم صدر ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں ہمارے یہ دینی اور روحانی عمائدین اپنے حجروں اور خانقاہوں سے دین کی ترویج و تبلیغ کی غرض سے اسلام آباد میں تشریف فرما ہوتے،اسلامائزیشن کے اُن’’احکامات ِ جاریہ اور اعمالِ صالحہ‘‘کے لیے تقویت کا باعث بنتے،اس کیساتھ پُرشکوہ سیرت کانفرنسز کا اہتمام ہوتا اور دارالحکومت ان کی کئی کئی روز تک میزبانی کا اعزاز پاتا۔مدرسہ ایجوکیشن اسی عہد میں سرکاری سطح پر مسلمہ حیثیت کی حامل ہوئی اور ڈاکٹر ہالے پوتہ کی سربراہی میں مدرسہ ریفارمز کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں درسِ نظامی اور’’شہادۃ العالمیہ‘‘کی سند تعلیمی،تدریسی اور تحقیقی مقاصد کے لیے ایم اے عربی/اسلامیات کے مساوی حیثیت کی حامل ہوئی، نظام صلوٰۃ و زکوٰۃ رائج ہوا اور محراب و منبر اور مسجد و مدرسہ کا رسوخ فروغ پذیر ہوا۔اس کے بعد سے ہراہم مذہبی نوعیت کے قومی اور بین الاقوامی معاملہ پر دینی طبقات کو اعتماد میں رکھنا سرکاری اور ریاستی ضرورت طے پایا،جس کے لیے رابطہ،مذاکرہ،مکالمہ اور پھر مشائخ و علمأ کنونشن یا کانفرنسز ہر دورِ حکومت اور عہدِ سیاست میں مستقل حیثیت اختیار کرگئیں،لیکن گذشتہ روزپر ل کانٹی نینٹل ہوٹل لاہور کے گرینڈ بال روم میں منعقدہ پُرشکوہ، شاندار اور تاریخ ساز مشائخ و علمأ کنونشن کئی اعتبار سے منفرد اور معتبر تھا،جس میں ایک اہم ترین بات یہ تھی کہ اس میں تمام مکاتبِ فکر کی دینی شخصیات،تمام روحانی سلاسل کے مقتدر پیشوأ،مذاہب ِ عالم کے قائدین اور معاصر دنیا سے جید سکالرز تشریف فرما ہوئے،جن کا مقصد رسول ِ محتشمﷺ کی عظمت ورفعت کا بیان اور اظہارتھا،جیسا کہ اقبال نے کہا : چشمِ اقوام یہ نظارہ اَبد تک دیکھے رفعتِ شانِ رفعنالک ذکرک دیکھے اس تاریخ ساز کنونشن کا اعلامیہ پڑھنے کی سعادت راقم کو میسر آئی،جس کے اہم نکات حسبِ ذیل ہے: حکومت پنجاب (محکمہ اوقاف ومذہبی امور )کے زیر اہتمام مورخہ19نومبر 2020ئ،منعقدہ’’بین المذاہب عالمی مشائخ و علما کنونشن‘‘زیر سرپرستی جناب سردار عثمان احمد خاں بزدار،وزیر اعلیٰ پنجاب،جس میں وطنِ عزیز کی معروف درگاہوں کے سجادگان،معتبر مشائخ،اکابرعلما، معروف علمی و دینی شخصیات کے ساتھ معاصر اسلامی دنیا سے مقتدر سکالرز اور دیگر مذاہب کے قائدین شریک ہیں، اس’’مشترکہ اعلامیہ‘‘کے ذریعے اس امر کا اعلان کرتے ہیںکہ : خاتم ُالنبیین حضرت محمد مصطفیﷺکی رسالت پر ایمان اور آپؐ کی ذات اقدس سے لازوال محبت وکامل اطاعت ہمارے دینی تشخص،اجتماعی بقا اور مِلّی استحکام کی بنیاد ہے۔ آپؐ کی ختم نبوت پر غیر متزلزل یقین ہمارے ایمان کا ناگزیر جزو اورپاکستان کے 22کروڑ مسلمانوں کے ایمان کا لازمی حصہ ہے۔پنجاب حکومت کی طرف سے نبی اکرم،رسول محتشمﷺکی ذاتِ اقدس کے ساتھ، اپنی ایمانی اور قلبی وابستگی کے اظہار، آپؐ کی عظمت و رفعت کے بیان اور عالمی سطح پر اس کے شعور کو اجاگر کرنے کیلئے اُٹھائے گئے اقدامات قابلِ ستائش اور بالخصوص ’’ہفتہ شانِ رحمۃ للعالمین‘‘کا اہتمام لائقِ تحسین ہے،جس سے عالمی سطح پر اس امر کا ابلاغ بھی مقصود ہے کہ دنیا اس امر سے آگاہ ہو کہ مسلمان اپنے رسولؐ کے ساتھ کس قدر مضبوط اور مستحکم وابستگی کے حامل اور وہ آپ ؐکی محبت کو اپنے ایمان کی جان اور بنیاد اوراپنی زندگی کا اثاثہ اور حیات کا سرنامہ تصوّر کرتے ہیں۔وزیرا علیٰ پنجاب کی اس وقیع اور عظیم پروگرام کی ا ز خود نگرانی ۔۔۔ذاتِ رسالت مآب ؐکے ساتھ ان کی نسبت اور محبت کا مظہرہے۔اس سلسلے میں صوبہ کی مختلف جامعات میں’’رحمۃٌ للعالمین چیئر‘‘کا قیام اور سیرتِ طیبہؐ اور اُسوئہ حسنہ پر ریسرچ کیلئے سکالر شپس کی تخلیق،سکولز،کالجز اوریونیورسٹیز میں قرأت ونعت اور سیرت طیبہؐ پر تقریری مقابلوں کا انعقاد،نعتیہ مشاعرے، محافل سماع اور اس کا نقطۂ کمال آج کا یہ بین المذاہب’’عالمی مشائخ و علماء کنونشن‘‘ہے ۔یقینایہ اقدامات ،سیرتِ نبویہ کی ترویج وتبلیغ کے حوالے سے بہت تاریخی نوعیت کے ہیں۔فرانس میں توہین آمیز خاکوں کی اشاعت اور اس شرمناک حرکت کی ریاستی سطح پر پشت پناہی انسانیت کیلئے بہت بڑا المیہ اور اُمّتِ مسلمہ کیلئے ذہنی و قلبی اذیت کا سبب ہے، جس سے ہر کلمہ گو کا دل زخمی اور روح بیتاب ہے۔مغرب کی طرف سے’’آزادیٔ اظہار‘‘کے نام پر ایسی گستاخیوں کا سلسلہ گذشتہ سالوں سے جاری ہے،جو مسلمانوں کے لیے شدید دلآزاری کا باعث ہے۔قبل ازیں ایسی حرکات نجی سطح پر،مختلف گروہوں کی طرف سے ہوتی تھیں لیکن اس دفعہ یہ ناپاک جسارت اور مکروہ فعل ایک نام نہاد سولائزڈ اور متمدن ترین ملک کی طرف سے عمل میں آئی،جس پر مسلم دنیا کا کرب،اضطراب اور تشویش لازمی اور فطری بات ہے۔آج کا یہ تاریخ ساز اجتماع اس کی بھرپور مذمت کرتا ہے۔حکومتِ پاکستان اور بالخصوص وزیر اعظم عمران خان نے جس مؤثر پیرائے اور جذبہ ایمانی کے ساتھ،عالمی سطح پر امتِ مسلمہ کے موقف اور بالخصوص پاکستانی عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے اس مسئلے کو اُٹھایا ہے، اس پر آج کا یہ وقیع اور پُر شکوہ ایوان،ان کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے۔ ہم ملک میں مذہب کے نام پر دہشت گردی اور قتل وغارت گری کو خلاف اسلام سمجھتے اور اس کی پرزو ر مذمت کرتے ہیں۔ایسی ہر تقریر اور تحریر سے گریز اوراجتناب کریں گے جوکسی بھی مکتبہ فکر کی دل آزاری اور اشتعال کا باعث بن سکتی ہو۔دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاک فوج کی جوانمردی،دلیری اور شجاعت پر پوری قوم انہیں خراج تحسین پیش کرتی۔۔۔ اور دہشت گردی کے خلاف مختلف آپریشنز میں شہادت کا اعلیٰ رتبہ پانے والے فوجی،پولیس افسران و جوان اوردیگر سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کی جرأت وشجاعت کو سلام پیش کرتی ہے،کشمیر کی آزادی کے لیے ارباب مسند ارشاد اورصاحبانِ محراب ومنبر ---حکومت کے شانہ بشانہ اپنا بھر پور کردار ادا کرتے رہیں گے۔کشمیر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ،کی خصوصی حیثیت ختم کرنا قابل مذمت اورہندوستان کی گھنائونی سازش ہے،موجودہ صورت حال پر حکومتِ پاکستان کی مؤثر حکمتِ عملی کی مذہبی اور دینی طبقات بھر پور تائید کرتے ہیں،بھارت کواس کے شرپسند عزائم میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔ اس عظیم الشان اور وقیع’’مشائخ کنونشن‘‘میں تشریف فرما روحانی شخصیات،علماء کرام ومشائخ عظام اور سجاد گان اس امر سے بھی اتفاق کرتے ہیں کہ محراب و منبر اور خانقاہی نظام کی اُس حقیقی روح کو زندہ کیا جائے،جس کے سبب مساجد اور خانقاہیں علوم ومعارف کا مرکز اور تعلیم وتربیت کا منبع تھیں۔مسجد اورخانقاہ جس قدر مضبوط ہوگی تزکیہ وطہارت اور پاکیزگی وشرافت بھی اسی قدر رواج پائے گی،جس کے سبب سوسائٹی مضبوط اور ریاست مستحکم ہوگی۔شرکاء اس امر پر متفق ہیں کہ آج اُمّتِ مُسلمہ ہر طرف سے جس نوعیت کے مصائب ومشکلات کا شکار ہے،اُن حالات میں اولیاء امت اور صوفیا ملّت اورعلمائے ربانیین کے حیات بخش فرمودات اور اُن انقلاب آفرین تعلیمات سے روشنی حاصل کرنا وقت کی اشد ضرورت ہے،جو زندگی کو عمل، حرکت اور جُہدِ مسلسل سے مزّین کرنے اور ایک روشن اوربلند نصیب العین سے منوّر کرنے کا پیغام دے رہی ہیں۔ پاکستان کے قیام اور اس کے استحکام میںعلماء کرام، مشائخ عظام،معروف آستانوں کے سجادگان اور اکابر دینی،علمی و روحانی شخصیات کا کردار ہماری تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔وطنِ عزیز کے معروضی حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ علماء کرام،مشائخِ عظام وسجاد گان اوراکابر دینی وروحانی شخصیات قومی یکجہتی،ملکی استحکام،فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور مجموعی امن وامان کے قیام کو مستحکم رکھنے کے لیے،ہمیشہ کی طرح،اپنا اساسی اور کلیدی کردار ادا کرتے رہیں گے۔ہم حکومت پنجاب کی وساطت سے پوری قوم کو یقین دلاتے ہیں کہ درگاہیں اور آستانے دفاع وطن اور قومی وملّی سلامتی کے تقاضوں سے پوری طرح آگاہ ہیں،اورہم ضرورت پڑھنے پر ،پوری قوم کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح متحد ومتفق کھڑے ہوں گے۔