پھر وہی سرد دسمبر اور پر درد دسمبر۔ کھوئی ہوئی محبت کی یادیں۔ کچھ باتیں جن کو بھولنا ممکن نہیں۔سال کے اس آخری ماہ میں ہم سے بہت سارے پیارے پیارے لوگ بچھڑجاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو تو ہم بھول جاتے ہیں مگر کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں، جن لوگوں کے بارے میں فیض صاحب نے لکھا ہے: ’’بہار آئی تو جیسے یکبار /لوٹ آئے ہیں پھر عدم سے/وہ خواب سارے شباب سارے/جو تیرے ہونٹوں پہ مر مٹے تھے/جو مٹ کے ہر بار پھر جئے تھے/نکھر گئے ہیں گلاب سارے/جو تیری یادوں سے مشکبو ہیں/جو تیرے عشاق کا لہو ہیں/ابل پڑے ہیں عذاب سارے/ملال احوال دوستاں بھی/خمار آلود مہہ وشاں بھی/غبار خاطر کے باب سارے/تیرے ہمارے /سوال سارے جواب سارے/بہار آئی تو کھل گئے ہیں/نئے سرے سے حساب سارے‘‘ بینظیر بھٹو اس مٹی سے موسم بہار میں نہیں بچھڑی تھیں۔وہ سرد دسمبر تھا۔ مگر پھر میں ان کے بچھڑنے کے موسم میں زخموں کے گلاب کھل اٹھتے ہیں۔ کئی سوال اور کئی جواب امڈ آتے ہیں۔ راقم الحروف کا تعلق تو سندھ کی سرزمین سے ہیں۔ سندھ کی سرزمین بھی سرائیکی وسیب کی طرح رونے کے بہانے تلاش کرتی ہے۔ مگر یہ بات صرف وادی مہران تک محدود نہیں۔ بینظیر کی شہادت پورے ملک کو سوگوار کر گئی۔ چترال سے لیکر چانڈکا تک ہر آنکھ اس کے غم میں اشکبار ہوئی۔اردو زباں کے ایک شاعر نے کہا ہے : ’’بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا‘‘ اس کے والد بھی عوام سے ایسے جدا کیے گئے تھے کہ نہ صرف ان کے سیاسی دوستوں بلکہ ان کے سیاسی دشمنوں کی آنکھیں بھر آئیں۔ وہ درد کافی وقت تک رہا مگر اس زخم کی رفوگری بینظیر بھٹونے اس انداز سے کی کہ کافی حد تک بھر گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ نشان چھوڑ گیا۔ زخم بھر جاتے ہیں مگر نشان نہیں مٹتے۔ وقت کے ساتھ وہ باتیں فراموشی کی وادی میں گم نہیں ہوتیں؛ جن باتوں میں غم کی سلگتی خوشبو ہوتی ہے۔ بینظیر بھٹو کے بعد آصف زرداری نے صرف بھٹو اسٹیٹ کی زمینوں پر ہی نہیں بلکہ ان کی کوڑی کوڑی پر قبضہ جمانے کے ساتھ ساتھ ان کی پارٹی کو اپنی مٹھی میں قید کردیا۔پیپلز پارٹی کے وہ سارے افراد جو بینظیر بھٹو کے قریب نظر آتے تھے؛ ان کو دھکیل کر دور کیا گیا۔کہاں گئی ناہید خان جو سائے کی طرح ان کے ساتھ ساتھ رہتی تھی۔ کہاں گیا مخدوم امین فہیم کی فیملی جس نے بینظیر بھٹو کی جلاوطنی کے دوران پارٹی کو ایمانداری اور سچائی سے چلایا۔ کہاں گئے وہ سارے لوگ جو بینظیر بھٹو کے گرد ایک حلقے کی صورت نظر آتے تھے؟ وہ سب لوگ بکھر گئے۔ وہ لوگ جو پارٹی کی پہچان تھے۔ وہ لوگ جنہوں نے برسوں سے بینظیر بھٹو کے ساتھ سیاست کی صحرا میں سفر کیا تھا۔ مگر یہ سیاست ہے۔ اس میں منزل ہمیشہ ان کو حاصل ہوتی ہے جو شریک سفر نہیں ہوتے۔ بینظیر بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کی اسٹیج پر وہ چہرے نظر آئے جن کو پہچاننے میں کافی وقت لگا۔ بینظیر بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی کی زرداری قیادت نے پارٹی کے باقی بچے تلوں سے اس قدر تیل نکالنے کی کوشش کی کہ پارٹی کے مخلص کارکنان کے ساتھ ساتھ عوام کی چیخیں نکل گئیں۔ ہماری سیاست پر کرپشن کا سایہ کافی وقت سے پڑا ہوا ہے مگر سیاست کو مکمل کاروبار بنانے کا کارنامہ اس آصف زرداری نے سرانجام دیا جس نے بینظیر بھٹو سے شادی کرنے سے پہلے ان خاندان کے ساتھ یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی کی سیاست میں مداخلت نہیں کریںگے۔ مگر یہ وہی آصف زرداری ہے جس کے بارے میں پاکستان کے سابق صدر فاروق لغاری نے کہا تھا کہ اس کی موجودگی میں آصف زرداری نے میر مرتضی بھٹو کے بارے میں کہا تھا کہ یا وہ رہے گا یا میں رہوں گا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد جس طرح پورا ملک شعلوں کے لپیٹ میں دیکھا گیا، اس سے ڈر کر اسٹیبلشمنٹ نے تاریخ میں پہلی بار کسی پارٹی کو مکمل اختیار دے دیا۔ اگر بینظیر بھٹو کی لاش راولپنڈی سے لاڑکانہ نہ آتی تو یہ ریاست آصف زرداری کو بطور ملکی صدر کبھی قبول نہ کرتی۔ بینظیر بھٹو کو عوام سے بچھڑے ہوئے جتنے برس ہوئے ہیں اتنے برس پیپلز پارٹی کو سندھ میں حکومت کرتے گزرے ہیں۔آصف زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ہر وہ کام کیا جس کی وجہ سے عوام کے دل پر لکھا ہوا بینظیر بھٹو کا نام مٹ جائے۔ مگر یہ جذبات کی بات ہے۔ جذبے بہت کچھ برداشت کر لیتے ہیں۔ پاکستان کے باقی صوبوں کے لوگ بہت سمجھدار ہیں مگر سندھ کے لوگ ان کے مقابلے میں بہت سادہ ہیں۔ وہ بینظیر بھٹو کے لیے اب بھی روتے رہتے ہیں اور اپنے دامن آنسوؤں سے بھگوتے رہتے ہیں۔ عوام کے لیے بینظیر بھٹو خاندان کا عوام دوست تسلسل تھی مگر آصف زرداری بینظیر بھٹو کی لاش کو سیاسی سودے بازی کے لیے اب بھی استعمال کر رہا ہے۔ یہی وجہ سے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے اس بار یہ فیصلہ کیا ہے کہ بینظیر کی برسی لاڑکانہ کے بجائے راولپنڈی میں منائی جائے۔ سب کو معلوم ہے۔ سب جانتے ہیں کہ بینظیر بھٹو کی برسی لاڑکانہ کے بجائے راولپنڈی میں کیوں منائی جا رہی ہے؟ اس کا سبب صرف اتنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی زرداری قیادت احتساب سے بچنے کے لیے بینظیر بھٹو کی قبر کوڈھال بنا کر استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ زرداری قیادت راولپنڈی میں ایک بار پھر پارٹی کی جڑیں گاڑنے کے لیے یہ پروگرام کر وارہی ہے تو اس کو ایک بار پھر اس حقیقت کا جائزہ لینا ہوگا کہ راولپنڈی اب پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کی بات سننا بھی گوارا نہیں کرتا۔ راولپنڈی میں بینظیر کی برسی صرف اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل کرنے کی کوشش ہے۔ جب پیپلز پارٹی سندھ کارڈ استعمال کرنے کے پوزیشن میں نہیں رہی ہے تو وہ لاڑکانہ کے مٹی میں مدفون بینظیر بھٹو کو بلیک میلنگ کا کارڈ بنا کر استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حالانکہ سندھ کارڈ کی طرح پیپلز پارٹی کی زرداری قیادت نے بینظیر بھٹو کا شہادت کارڈ اتنا نچوڑا ہے کہ اب جب بھی اس کو استعمال کرنے کی کوشش گئی تو کمپیوٹر سے یہ آواز آئے گی کہ آپ کے کارڈ میں بیلنس باقی نہیں ہے۔ بینظیر بھٹو اور بھٹو خاندان کے ساتھ عام لوگوں کا رشتہ سیاسی نہیں بلکہ ذاتی ہے۔ وہ بھٹو فیملی کے شہداء بظاہر تو دھرتی میں دفن ہوتے ہیں مگر اس ضمن میں اصل حقیقت کو بیان کرتے ہوئے سندھ کے ایک شاعر حسن درس نے لکھا ہے: ’’مٹی میں مردے دباتے ہیں لوگ اسے ہم نے دل میں کیا ہے دفن‘‘ بینظیر بھٹو نہ لاڑکانہ میں ہے نہ راولپنڈی میں ۔ وہ بھٹو خاندان سے محبت کرنے والوں کے دل میں ہے۔کوئی بھی کرپٹ لیڈر اور کوئی بھی آمر حکمران اس کو عوام کے دل سے نہیں نکال سکتا۔ یہ رشتہ بہت گہرا ہے۔ اس رشتے کی حقیقت یہ ہے کہ یہ سیاسی رشتہ نہیں ہے۔ یہ ذاتی رشتہ ہے۔ یہ رشتہ ٹوٹنے کے لیے نہیں بلکہ قائم رہنے کے لیے بنا ہے۔ عوام اور بینظیر کے درمیان موجود رشتے کو توڑنے کے لیے زرداری اور ان کے دوستوں نے ہر ممکن کوشش کی مگر وہ رشتہ ابھی تک اپنی پوری قوت سے زندہ ہے۔کیا یہ رشتہ کسی مخصوص موسم کا منتظر ہے؟ یا یہ رشتہ بذات خود ایک موسم ہے۔ جدائی اور سرد تنہائی کا وہ موسم جوہجر کے چاند کی طرح ڈھلنے کا نام تک نہیں لیتا۔