کیا بیورو کریسی کو اتھل پتھل کرنے سے مسائل حل ہو جائیں گے؟ کیا گملوں کی ترتیب بدلنے سے پھولوں کی تعداد میں اضافہ ہو جاتا ہے؟ ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کے مناصب انگریز استعمار کی ضرورت تھے۔ بنیادی کام ان کا مالیہ اور محصولات اکٹھا کرنا تھا۔ پھر وقت کے ساتھ اور کام بھی سونپے جاتے رہے۔ ملکہ کی حکومت کا استحکام اصل مقصد تھا۔ انگریز نواز طبقات کو خوش رکھنا اور انگریز مخالف لوگوں کو ڈرا کر رکھنا فرائض میں شامل تھا۔ ڈپٹی کمشنر انگریزی حکومت کا ستون تھا۔ اسی ستون پر استعمار کھڑا تھا! جنرل پرویز مشرف نے ایک ہی انقلابی قدم اٹھایا۔ کمال کا قدم، مقامی حکومتوں کا قیام، عوام کے منتخب نمائندوں نے ضلعی حکومتیں سنبھال لیں۔ ڈپٹی کمشنر، ڈی سی او بن گیا۔ اقتدار کی باگ اب اس کے ہاتھ میں نہیں تھی۔ اپنے ضلع کی بات کروں تو تصدیق کر سکتا ہوں کہ ضلع ناظم کو ملنا، مطالبات منوانا، کوئی مشکل کام نہ تھا۔ ترقیاتی کام ہوئے اور خوب ہوئے۔ ڈپٹی کمشنر تو دور کی بات ہے، تحصیل دار اور پٹواری تک عام لوگوں کی دسترس سے دور ہیں۔ کمشنر سے لے کر…نائب تحصیل دار تک…سب بادشاہوں کی طرح عوام سے الگ تھلگ ہیں۔ یہ کیا ریلیف دیں گے۔ بقول شاعر ؎ تم ہمیں کیا نئی منزل کی بشارت دو گے تم تو رستہ نہیں دیتے ہمیں چلنے کے لیے ایک نہیں ہزار تبادلے کر لیں، کنوئیں سے سو ڈول نکالنے والا معاملہ ہوگا۔ صوبوں میں اور ضلعوں میں بیورو کریسی کیوں عوام کو مطمئن نہیں کر پا رہی، اس کی بنیادی وجوہ تین ہیں۔ اوّل: بیورو کریسی کے ان ارکان کی تعیناتیوں اور تبادلوں کے حوالے سے کوئی پالیسی سرے سے وجود ہی نہیں رکھتی۔ کیریئر پلاننگ مفقود ہے۔ ایک افسر نے کتنا عرصہ فیلڈ میں رہنا ہے؟ کتنا عرصہ سیکرٹریٹ میں کام کرنا ہے؟ صوبوں میں کب تک رہنا ہے؟ وفاق میں لائے جانے کا کیا معیار ہے؟ کچھ بھی طے نہیں! سرحد پار بھارت میں، ہر افسر کو ایک معینہ مدت کے لیے صوبوں سے مرکز میں آنا ہوتا ہے، پھر یہ مدت پوری نہ کرنے کے بعد واپس جانا ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ہاں ان افسروں کے کیریئر چارٹ بنائے جاتے ہیں؟ نہیں! کوئی اصول ہے نہ ضابطہ! کوئی وزیر یا وزیر اعلیٰ کسی بھی افسر کی تعیناتی یا تبادلہ کسی بھی وقت کرا سکتا ہے؟ کوئی ایم این اے یا ایم پی اے افسر شاہی کے رکن کو اپنے علاقے سے نکلوا سکتا ہے اور اس کی جگہ اپنے کسی پسندیدہ افسر کو پوسٹ کرا سکتا ہے۔ کوئی برسوں سے فیلڈ میں ہے اور کوئی سالہا سال ہوئے لاہور یا اسلام آباد سے نکلنے کا نام نہیں لیتا۔ دوم: ڈپٹی کمشنر کس کے تحت فرائض سرانجام دیتا ہے؟ کمشنر کے! یا چیف سیکرٹری کے! انہیں ضلع کی بہبود سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ وہ تو مسائل سے واقف ہی نہیں۔ مسائل کا علم تو عوام کو ہے اور ڈپٹی کمشنر عوام کا نمائندہ ہی نہیں، وہ تو حکومت کا نمائندہ ہے۔ اس کی ترجیحات کیا ہیں؟ باس کو مطمئن رکھنا، اچھی رپورٹ لینا، اگلی تعیناتی کے لیے ابھی سے ’’کام‘‘ شروع کر دیا۔ ڈپٹی کمشنر کا رُخ عوام کی طرف نہیں، کمشنر اور صوبائی دارالحکومت کی طرف ہے، آپ کسی بحران کے دوران تجربہ کر کے دیکھ لیجیے، ضلع میں سیلاب آ گیا ہے، وبا پھوٹ پڑی ہے، فسادات ہو گئے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر بحران کے دوران، اگر ہمیشہ نہیں، تو اکثر و بیشتر، ضلع میں موجود ہی نہ ہو گا۔ میٹنگ لینے کمشنر کے حضور ہو گا یا لاہور حاضری دے رہا ہو گا۔ تیسری وجہ ڈپٹی کمشنر کا اُس ضلع سے کسی تعلق کا نہ ہونا۔ اُسے کوئی جذباتی دلچسپی ہے مقامی معاملات سے نہ تہہ در تہہ مسائل او رعوامل و محرکات کا پورا علم ہے۔ اس نے تو دو تین برس یہاں گزارنے کے بعد، کبھی اِدھر کا رُخ نہیں کرنا۔ یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے ضلعی بیورو کریسی ہمیشہ قلیل المیعاد رویہ رکھتی ہے۔ اس رویے کو عام زبان میں ڈنگ ٹپائو رویہ کہتے ہیں۔ یعنی ؎ بس ایک رات ٹھہرنا ہے! کیا گلہ کیجے مسافروں کو غنیمت ہے یہ سرائے بہت اگر تحریک انصاف کی حکومت کوئی انقلابی قدم اٹھانا چاہتی ہے تو ضلعی حکومتوں کو از سر نو زندہ کرے۔ منتخب نمائندے کو ضلعی حکومت کا اقتدار سونپے۔ ضلع میں جمہوریت ہو، مکمل جمہوریت۔ اپوزیشن ہو جو ضلعی حکومت کو نکیل ڈال کر رکھے۔ منتخب ضلع حاکم کو معلوم ہو کہ اس نے تین سال کے بعد ضلع کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ نہیں جانا، یہاں ہمیشہ رہنا ہے۔ اس کی نسلوں کو بھی سیاست کرنا ہو گی۔ اسے معلوم ہے اُس نے غلطی کی یا جرم کیا تو ووٹر یاد رکھیں گے۔ اپوزیشن اس کے در پے ہو گی۔ وہ پھونک پھونک کر قدم رکھے گا۔ ترقیاتی کام زیادہ سے زیادہ کرائے گا کیوں کہ اس نے ووٹ دیتے وقت عوام سے وعدے کیے تھے۔ ہم بیک وقت دو کشتیوں میں سوار ہیں۔ بالائی سطح پر ہمارا کہنا یہ ہے کہ منتخب وزیر اعظم اور منتخب وزرائے اعلیٰ جمہوریت کے لیے لازم ہیں۔ ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے مگر جب مقامی حکومتوں کا سوال اٹھتا ہے تو ہم منافقت کا عَلم بلند کر لیتے ہیں۔ وہاں ہمیں ایک بابو نما سرکاری ملازم راس آتا ہے جو یس سر یس سر کہتا رہے اور عوام کو خاطر میں نہ لائے۔ پہلی کوشش تو یہ ہوتی ہے کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات ہی نہ کرائے جائیں۔ اگر عدالتوں کے اصرار پر یہ انتخابات کرانے بھی پڑیں تو اس کے نتیجے میں مقامی حکومتوں کے عملی قیام کو ہر ممکن حد تک ٹالا جائے اور فرض کریں مقامی حکومتیں بن بھی جائیں تو انہیں مالی آزادی قطعاًً نہ دی جائے۔ وہ ہر وقت کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ کے دست نگر رہیں! یوں وزیر اعلیٰ کی ’’اہمیت‘‘ میں فرق نہ پڑے اور پورا صوبہ مٹھی میں رہے۔ یہ کیا ہے؟ یہ وہ آمریت ہے جس پر جمہوریت کا رنگ چڑھا ہوا ہے۔ ذرا کھرچیں تو یہ رنگ اتر جاتا ہے اور نیچے سے شاہی نظام نظر آتا ہے۔ کان پک گئے ہیں ’’گراس رُوٹ لیول‘‘ کے الفاظ سُن سُن کر…مگر گراس روٹ لیول پر اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر براجمان ہیں اور وہ جو اقتدار کے اصل مالک ہیں وہ ان کے دفتروں کے چکر لگا لگا کر ہلکان ہو رہے ہیں۔ رہی پولیس کی کارکردگی تو بقول اقبال ؎ وہی دیرینہ بیماری، وہی نا محکمی دل کی علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی! پولیس کی کامیابی کے لیے ایک ہی شرط ہے۔ سیاسی مداخلت کا خاتمہ اور مکمل خاتمہ! مشہور واقعہ ہے۔ برطانوی وزیر اعظم(غالباً ایڈورڈ ہِیتھ) نے لندن ٹریفک پولیس کے سربراہ کو کہا کہ میں جب پارلیمنٹ(دارالعوام) سے اپنے دفتر (یا قیام گاہ) آتا ہوں تو اکثر اوقات ٹریفک کے اژدہام کی وجہ سے تاخیر سے پہنچتا ہوں جب کہ غیر ملکی معزز مہمان انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے جب میں پارلیمنٹ سے نکل کر جا رہا ہوں تو اتنی دیر کے لیے ٹریفک کو بطور خاص ’’قابو‘‘ میں رکھا جائے۔ ٹریفک پولیس کے سربراہ نے وزیر اعظم کو جواب دیا کہ حضور!یہ تو ممکن نہیں ہاں ایک تجویز پیش خدمت ہے اور وہ یہ کہ آپ ذرا جلدی نکل آیا کیجیے تا کہ وقت پر پہنچ سکیں۔ یہ ہے سیاسی عدم مداخلت کی ایک مثال! ہماری پولیس زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ سیاسی مداخلت کی زنجیریں، عوامی نمائندوں کو خوش رکھنے کی زنجیریں، پروٹوکول ڈیوٹی کی زنجیریں، تبادلوں کے خوف کی زنجیریں، سفارش کی زنجیریں! ارادہ ہمارا مکہ جانے کا ہے! رُخ ہمارا قطب شمالی کی طرف ہے!!