اس میراسی کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں جو بیٹے کا رشتہ مانگنے گائوں کے چوہدری کے گھر چلا گیا تھا۔ خوب مار پڑی۔ پگڑی کھل گئی اور زمین پر گر پڑی۔ جاتے وقت پگڑی لپیٹتا جارہا تھا اور پوچھتا جارہا تھا کہ چوہدری صاحب! میں پھر آپ کی طرف سے ’’نہ‘‘ ہی سمجھوں۔ عرب چوہدریوں کے کلب میں جسے او آئی سی (آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس) کہتے ہیں، پاکستان کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں۔ تمام قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسلامی ملکوں کے اس ادارے میں بھارتی وزیر خارجہ کو بلایا گیا۔ سیکرٹری جنرل تک کو اس دعوت کی خبر نہیں تھی۔ پاکستان نے بائیکاٹ کیا۔ وزیر خارجہ نہیں گئے۔ ہاں ایک نچلی سطح کے وفد نے پاکستان کی طرف سے شرکت کی۔ اشک شوئی کے لیے ’’خصوصی علیحدہ‘‘ قرارداد پیش کی گئی جس میں کشمیر پر بھارت کے ظلم و ستم کا ذکر کیا گیا مگر اختتامی اعلامیہ میں جو اس قسم کی کانفرنسوں کا لب لباب ہوتا ہے کشمیر کا ذکر نہ تھا۔ اب ہم لاکھ کہتے رہیں کہ بھارت کے خلاف قرارداد تو پیش ہوئی اور پاس کی گئی مگر یہ سارے حیلے منہ رکھنی (Face-Saving) کے لیے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں منعقد ہونے والے اس اجلاس سے دو حقیقتیں اپنے آپ کو زیادہ زور سے منوا رہی ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم اپنے نہاں خانہ دل میں ان دونوں حقیقتوں کو تسلیم کرتے ہیں مگر زبان پر لاتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں۔ پہلی حقیقت یہ ہے کہ ’’امت‘‘ کا تصور اسلام میں کبھی بھی سیاسی اور عسکری حوالے سے نہیں رہا۔ یہ ایک روحانی تصور ہے۔ یہ تصور عبادات اور باہمی محبت کے حوالے سے ہمیشہ زندہ رہا۔ حج اس کا بہترین مظہر ہے۔ امت وہاں اکٹھی ہوتی ہے۔ حرمین شریفین امت مسلمہ کے مراکز ہیں۔ افریقی حبشیوں کے کندھوں سے کندھے ملائے یورپ کے سفید فام اور ایشیا کے گندمی رنگ کے مسلمان کھڑے ہوتے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں چلے جائیے، مسجد جائیں گے تو وہاں ترک بھی ہوں گے، صومالیہ کے سیاہ فام بھی اور مشرق بعید کے زرد فام بھی۔ مگر سیاسی طور پر یہ تصور کبھی بھی کہیں بھی نافذ نہ ہوسکا۔ نہ ہی یہ اسلام میں مطلوب ہے۔ مسلمانوں کو اس آزمائش میں ان کے دین نے ڈالا ہی نہیں کہ پوری امت مسلمہ کا حکمران ایک ہو۔ پوری دنیا کے مسلمان ایک ہی ریاست میں بند ہو جائیں۔ پوری اسلامی تاریخ میں سوائے ابتدائی برسوں کے کبھی ایک واحد حکمران نہیں رہا۔ بدقسمتی سے مسلمان حکمران دشمن کے مقابلے میں بھی کبھی متحد نہ ہو سکے۔ ہسپانیہ کے مسلمان اکھڑتی ہوئی آخری سانسوں کے ساتھ مشرق کی طرف دیکھتے رہے مگر انہیں بچانے کوئی نہ آیا۔ یہاں تک کہ آخری مسلمان یا تو افریقہ آن بسا یا مجبوراً اس نے نصرانیت کا طوق گلے میں ڈال لیا۔ پہلی جنگ عظیم کے اردگرد عربوں نے سلطنت عثمانیہ کی پیٹھ میں خنجر گھونپا۔ انگریزوں کی کاسہ لیسی کی۔ اسرائیل کے قیام میں دانستہ یا نادانستہ، برطانیہ کے ہاتھوں میں کھیلے۔ کسی کے کشکول میں اردن کی اپاہج ریاست ڈالی گئی، کسی کو عراق کا ٹوٹا ہوا تخت ملا۔ جمال عبدالناصر عرب قومیت کا علم بردار بن کر اٹھا۔ نہرو اس کا بہترین دوست تھا۔ امت کی سیاسی وحدت کے خواب دیکھنے والے سادہ دل مسلمان بھول جاتے ہیں کہ یاسر عرفات آخر تک بھارت کا مداح رہا۔ کشمیر کا لفظ شاید ہی اس کی زبان سے کسی نے سنا ہو۔ شام اور مصر کی کنفیڈریشن بنی۔ چند سال بعد سرپھٹول ہوا اور الگ ہو گئے۔ بنگلہ دیش کے لیے پاکستان آج بھی دشمن نمبر ایک ہے۔ عراق کے صدام نے پہلے کویت پر چڑھائی کی پھر ایران پر چڑھ دوڑا۔ امریکہ کے جہاز عرب ملکوں سے اڑتے اور عراق کی سول آبادی پر بم برساتے۔ قطر کے ساتھ جو کچھ اس کے عرب بھائی، ہم زبان اور ہم مذہب بھائی کر رہے ہیں، دنیا دیکھ رہی ہے اور انگلیاں دانتوں میں دبا رہی ہے۔ یمن پر بمباری ہورہی ہے۔ مسلمان کر رہے ہیں، غیر مسلم نہیں۔ پاکستان اپنی پیدائش کے دن سے آج تک افغانستان کو بھگت رہا ہے۔ وسط ایشیائی مسلمان ریاستوں کے جتنے معاہدے اسرائیل کے ساتھ ہیں، کسی بھی مسلمان ملک کے ساتھ نہیں۔ مسلمان ملکوں کے اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ دندناتی ہوئی آتی ہے۔ پاکستان بائی کاٹ کرتا ہے۔ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ اختتامی اعلامیے میں کشمیر کا ذکر مفقود ہے مگر ایران کی مذمت کی جاتی ہے۔ ایرانی وفد واک آئوٹ کر جاتا ہے۔ یہ تو ہم عصر تاریخ کی جھلکیاں ہیں۔ ماضی کھنگال لیجیے۔ خوارزم شاہ کے ساتھ کیا ہوا؟ صفوی ایران، ترکوں کے خلاف یورپ سے مدد مانگتا رہا۔ اس سے پہلے امیر تیمور نے سلطنت عثمانیہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ بابر نے پانی پت کے میدان میں ایک مسلمان حکمران ہی کو شکست دی۔ سلطان ٹیپو کو کسی مسلمان حکمران نے کمک نہ روانہ کی اور تو اور نظام دکن نے اس کے مقابلے میں انگریزوں کا ساتھ دیا۔ یہ ہے امت کی ’’سیاسی‘‘ وحدت کی حقیقت۔ جو لوگ اقبال کا یہ شعر لپک لپک کر گاتے ہیں ؎ ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر تو وہ اس نکتے پر بھی غور فرمالیں کہ اس میں جس اتحاد کا ذکر ہوا ہے وہ حرم کی پاسبانی کے لیے ہے۔ مسلمان ملکوں کی امداد کے لیے نہیں۔ دوسری حقیقت جو او آئی سی کے اس اجلاس سے مزید نمایاں ہوئی ہے یہ ہے کہ عرب دنیا میں سعودی عرب کو چھوڑ کر کوئی دوسرا ملک کبھی بھی پاکستان کا قابل اعتماد دوست نہیں رہا۔ شاہ فیصل سے لے کر شہزادہ محمد بن سلمان تک، سعودی حکمران نے پاکستان کا ممکنہ حد تک ساتھ دیا مگر کسی اور عرب ملک نے ایسا کبھی نہ کیا۔ متحدہ عرب امارات کے اپنے مفادات ہیں۔ وہ مفادات اسے مسلمان ملکوں کی نسبت زیادہ عزیز ہیں۔ سشما سوراج کے ساتھ محبت کی پینگیں وہ کیوں نہ بڑھائیں۔ آج بھارت کی وزیر خارجہ گئیں۔ کل کیا عجب بھارت کو ’’مبصر‘‘ کا درجہ مل جائے، پرسوں اس کی مزید پروموشن ہو جائے اور وہ رکن کے منصب تک پہنچ جائے۔ آج سشما آئیں۔ پاکستان دیکھتا رہ گیا۔ کل بھارت رکن بن جائے تو پاکستان دیکھتے رہ جانے کے علاوہ کیا کر لے گا؟ کشمیر ہی کا شاعر تھا۔ غنی کاشمیری جس نے ماتم کیا تھا ؎ غنی روز سیاہ پیر کنعاں را تماشہ کن کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخارا واہ! یعقوب (علیہ السلام) قسمت کہ ان کی آنکھوں کا نور، زلیخا کی آنکھوں کی روشنی بنا ہوا ہے۔ جس اسرائیل کا نام تک پاکستانی نہیں سننا چاہتے، اس کے ساتھ عربوں کے تعلقات روز افزوں ہیں۔ مدعی سست۔ گواہ چست۔ ایک مسلمان ملک ایسا بھی ہے جس کے بادشاہ کے باڈی گارڈ اسرائیل سے تربیت یافتہ تھے۔ یہ ماضی بعید کی بات ہے۔ آج کیا ہورہا ہے؟ کل جب آج کی تاریخ پردوں سے چھن کر باہر آئے گی تو مزید انکشافات ہوں گے۔