رکھا رکھائو والی مہذب خاتون تھیں، حلقہ سیاست میں ان کا نام ہمیشہ عزت و احترام سے لیاجاتا تھا۔ خاں عبدالولی خان کی اہلیہ ہونے کے حوالے سے انہوں نے زندگی میں بہت سے نشیب و فراز اور سرد وگرم تھپیڑے سہے۔ انہیں جن حالات سے بھی گزرنا پڑا۔ شخصیت میں ٹھہرائو، توازن، لب ولہجہ میں شگفتگی اور سادہ اور کھرا پن ہمیشہ نمایاں رہا۔ میں نے نسیم ولی خاں کو پہلی بار حیدرآباد میں1977ء میں دیکھا۔ یہ وہ دور تھا، جب بھٹو صاحب کے خلاف متحدہ حزب اختلاف کی تحریک زوروں پر تھی۔ ایئر مارشل اصغر خان اس تحریک کے سب سے نمایاں لیڈر تھے۔ نوابزادہ نصر اللہ جیسے متوازن اور سوجھ بوجھ والے انسان اس تحریک کا دماغ تھے۔حیدرآباد میں منعقدہ جلسے میں لوگ بہت بڑی تعداد میں شریک تھے۔ انہوں نے ایک جوشیلی تقریر کی۔ ان کا اندازخطابت دیکھ کر ایسا محسوس ہورہا تھا کہ تنقید میں بھی شائستگی اور اخلاقی اطوار کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتیں۔ پھر بعد میں ان سے انٹرویو کا موقع بھی ملا۔ انہوں نے خصوصاً اس دور کے واقعات سنائے۔ جب بھٹو صاحب کے دور میں ان کے شوہر خان عبدالوالی خاں پر غداری کا مقدمہ قائم ہوا۔ انہوں نے حیدرآباد کے سینٹرل جیل میں ایک خصوصی سیل میں قیدوبند کی صعوبتیں بھی جھیلیں۔ بیگم نسیم ولی نے بتایا کہ وہ بائی چوائس سیاست میں نہیں آئیں۔ لیکن حالات نے انہیں اس میدان میں دھکیلا۔ باچا خان کی بہو ولی خان کی اہلیہ ہونے کی وجہ سے سیاست ان کے گھرانے کا معمول تھا۔ بیگم صاحبہ اب اس دنیا میں نہیں رہیں، لیکن چارسدہ میں ان کی اقامت گاہ میں خود سوئٹر بننا، کڑھائی ، سلائی اور خان صاحب کی پسند کی ڈشیں تیار کرنا ان کا معمول رہا۔ یوں تو زندگی میں بہت سی آسائشیں اور سہولتیں موجود تھیں۔ لیکن طبیعت میں محبت، حلاوت، ملنساری اور روا داری ان کی نمایاں خوبیاں تھیں۔ بیگم نسیم ولی بڑی عملی انسان تھیں۔ کبھی لگی لپٹی نہیں رکھتیں۔ انٹرویو کے دوران وہ بار بار ملازم کو کچھ کھانے پینے کے لئے لانے کا کہتی رہیں۔ سلیقہ شعاری اور مہمان نوازی کااندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں تھا۔ پاکستان کی سیاست کے متعلق وہ اس وقت بڑی پرامید دکھائی دی تھیں، کہنے لگیں۔ نہ جانے بھٹو صاحب کو کیا سوجی کہ خان صاحب پر غداری کا مقدمہ قائم کروادیا۔ وہ کہنے لگیں۔ بھٹو بڑی خوبصورت باتیں دلیل سے کرتے تھے۔ لیکن شاید مخالفت برداشت کرنا ان کی سرشت میں شامل نہیں تھا۔ اس لئے خان صاحب سے ان کی نہیں بنتی تھی۔ کہنے لگیں کہ حکمرانوں کی غلطیاں بعض اوقات قوم کو تقسیم کردیتی ہیں۔کہنے لگیںمشرقی پاکستان کی علیحدگی بھی شاید ہماری حماقتوں سے ہوئی۔70ئ￿ کے الیکشن سے پہلے ہی اندازہ ہورہا تھا کہ انتخابی نتائج بڑے منقسم ہوں گے۔ جتنی رواداری، دانشمندی، بے غرضی اور ہوشمندی کی ضرورت تھی۔ وہ نہیں دکھائی گئی، وہ سانحہ در حقیقت ہماری حماقت کا شاخسانہ تھا۔ اب وہ ایک بڑی باعمل زندگی گزار کرکے اپنے اللہ کے حضور پیش ہوگئی ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ٹیلی ویژن پر بچوں کے معروف پروگرام کلیاں کے تخلیق کار فاروق قیصر بھی ایک شاندار اور پرجوش زندگی کی75 بہاریں گزار کر ہم سے رخصت ہوئے۔ فاروق قیصر اس اعتبار سے خوش قسمت تھے کہ انہوں نے بدلتے ہوئے زمانے کی تمام اطوار اور اقدار کو کروٹیں بدلتے دیکھا۔ بچوں سے پیار کے سبب ان کی نفسیات کا مطالعہ اور مشاہدہ فاروق قیصر کی ضرورت بنا۔ چٹکلے اور نت نئی اختراع ایجاد کرنا فاروق قیصر کا کمال تھا۔ کلیاں کا کردار انکل سرگم ان کی زندگی کا انمول اسائمنٹ تھی۔ بہت کچھ بدل گیا اور ہمیں خبر بھی نہ ہوئی۔ لیکن فاروق قیصر سے مل کر اور ان سے گپ شپ لگا کر یہ احساس ہوتا تھا کہ انہوں نے ہر لمحے سے کچھ نہ کچھ سیکھا۔ ذہین اور شریف النفس انسان تھے۔ طنز و مزاح میں ان کا نوکھا ہی انداز تھا۔ دوسروں کو ہنسانا اور تفریح و طبع کا سامان پیدا کرنا کوئی ان سے سیکھے۔ ان میں ہر اچھائی اور برائی کو فلٹر کرنے کی خداداد صلاحیت تھی۔ سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ برجستہ گفتگو کرنے کا فن آتا تھا۔ جو کچھ لکھا، جو کچھ اپنے ناظرین کو دکھایا۔ سب لاجواب تھا۔ زندگی بھر نیک نامی کمائی۔ برجستگی میں بے مثال لیکن انسان جذبات اور احساسات کو سمجھنے والا انسان تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔ کٹ پتلیوں کے کھیل کے ذریعے بڑی سے بڑی بات بڑی خوبصورتی سے کہہ جاتے۔ جب بھی فاروق قیصر سے ملاقات ہوئی۔ مجھے محترم حکیم سعید اورایس ایچ ہاشمی اس اعتبار سے یاد آجاتے کہ بچوں کے لئے جو محبت میں نے ان دونوں قابل قدر شخصیات میں دیکھی تھیں۔ وہ فاروق قیصر سے گفتگو کرکے یادیں تازہ ہوجاتی تھیں۔ عمومی طور پر لوگ انہیں انکل سرگم کے حوالے سے جانتے ہیں۔ لیکن سچ پوچھیں۔ وہ بہت بڑے انسان تھے۔ انہوں نے زندگی میں کبھی کمزوری نہیں دکھائی۔ جتنی خوشگوار اتنی ہی حلیم الطبع شخصیت کے مالک تھے۔ جس تہذیب و تمدن کے ساتھ زندگی گزاری۔ وہ ایک مثال تھی۔ ان کی شخصیت میں کئی رنگ پوشیدہ تھے۔ آرٹ ،کلچر، موسیقی، ادب اور شاعری کا ایسا شغف کہ جب بھی ان کی محفل میں بیٹھنے بہت کچھ سیکھ کر اٹھتے۔ ان کی شخصیت کا اجلا پن ہی تھا۔ جس نے ان کا ایک منفرد مقام دیا تھا۔ زندگی کا کون سا شعبہ ایسا تھا۔ جس سے وابستہ اہم اور قابل قدر شخصیات سے ان کی ذاتی مراسم نہ ہوں۔ سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ اپنی زندگی کے نشیب و فراز یوں سناتے۔ جیسے کوئی سچی کہانی سنا رہے ہوں۔ اپنی کمزوریوں کاتذکرہ کرتے ہوئے ذرہ برابر نہیں ججھکتے۔ دوستوں کے دوست تھے۔ مجلسی انسان تھے ۔ ملکہ پکھراج سے نور جہاں اور مہدی حسن سے شوکت علی تک سب ان کے ذاتی دوست تھے۔ منیر نیازی اور احمد فراز سب ان کی محفلوں کے ساتھ تھے۔ رکھ رکھائو والے انسان تھے۔ بیگم نسیم ولی خان جیسی اپ رائٹ سیاستدان کی طرح فاروق قیصر جیسا با صلاحیت اور ہرفن مولا ہم میں نہیں ر ہا سوچ رہا ہوں کہ کیسے کیسے سنہرے لوگ مٹی میں جارہے ہیں۔ اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ اپنے ان دونوں باکمال اور شاندار بندوں پر اپنے رحم و کرم کا معاملہ فرمائے۔