یتیم خانوں میں پلنے والی بچیوں کے خلاف جرائم کی گواہ اقراء کائنات کو بالآخر زندگی سے محروم کر دیا گیا، کاشانہ اسکینڈل کی اہم ترین کردار کی آواز ہمیشہ کے لئے دبا دی گئی، کیا اب یتیم خانوں میں جوان ہونے والی درجنوں نہیں سینکڑوں لڑکیوں کی پراسرار اموات کا نیا سلسلہ شروع ہوجائیگا، یہاں کچھ بھی بعید نہیں، کاشانہ کی سابق سپرینٹنڈنٹ افشاں لطیف کی زندگی بھی محفوظ نہیں دکھائی دے رہی، افشاں لطیف نے ہی جان ہتھیلی پر رکھتے ہوئے آواز بلند کی تھی کہ سیاستدان اور اعلی افسران یتیم خانوں سے جوان اور نو عمر لڑکیوں کو زبردستی ساتھ لے جاتے ہیں، سچ بولنے کی پاداش میں افشاں لطیف کو سزائیں دینے اور اس کی کردار کشی کے سلسلے شروع ہوئے اور جب سالہا سال تک طاقتوروں کی درندگی کا نشانہ بننے والی اقراء کائنات ان جرائم کی گواہ بن کر سامنے آئی تو مخصوص تماش بین حکمران طبقے کی نیندیں حرام ہو گئیں، اقراء کائنات کے پاس درجنوں لڑکیوں کی شہادتیں بھی موجود تھیں،اس لئے مارا جانا اس کے مقدر میں لکھ دیا گیا تھا، پہلے اس سے مرضی کے بیانات حاصل کرنے کی کوششیں کی جاتی رہیں وہ نہ مانی تو دو ماہ پہلے اسے اس کے سسرال سے اغواء کر لیا گیا، اقراء کائنات کے گھر سے زبردستی اٹھائے جانے کے بعد کاشانہ کی سابق اور زیر عتاب سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف نے چیخنا شروع کر دیا تھا کہ اس بچی کو قتل کر دیا جائے گا، مگر نہ کوئی قانون حرکت میں آیا نہ کسی حکومتی نمائندے کے کانوں میں جوں تک رینگی، دو ماہ بعد 5 فروری کو ایک نامعلوم عورت کی لاش ایدھی سنٹر کے سرد خانے میں لائی جاتی ہے جسے ایدھی سنٹر والے نامعلوم قرار دے کر دفنانا چاہتے ہیں، یہ اطلاع کسی طرح افشاں لطیف کو مل جاتی ہے اور وہ ایدھی سنٹر والوں کو اس عمل سے روک دیتی ہیں، اقراء کائنات کی موت کے تین دن بعد قومی اسمبلی میں بچوں سے زیادتی اور قتل کے مجرموں کو سر عام پھانسی دینے کی قرارداد منظور کی گی، کاش اس سے پہلے اقراء کائنات کے قاتلوں کو کھلے عام پھانسی کی قرارداد منظور کر لی جاتی، مگر قومی اسمبلی میں تو سانحہ اقراء کائنات کا ذکر تک نہ ہوا، شاید اس لئے کہ اس سانحہ میں کئی عوامی نمائندوں کے چہرے بھی بے نقاب ہو سکتے تھے، کئی حکومتی اہلکاروں کے ناموں کی گونج بھی سنائی دے سکتی تھی۔۔۔ پاکستان کے یتیم خانوں میں ہی نہیں جیلوں میں بند کئی خواتین کے بارے میں بھی جنسی استحصال کی ایسی کئی کہانیوں کی بھی گونج سنائی دیتی رہی ہے، تھانوں میں اور پولیس اہلکاروں کے نجی عقوبت خانوں میں بھی ظلم کی یہ داستانیں لکھی جاتی ہیں اور تو اور اب ماتحت عدلیہ سے بھی یہ گھنائونی کہانیاں سامنے آرہی ہیں، جس ماتحت جج پر الزام ہے اس کے خلاف کیس سننے کے لئے کوئی دوسرا ماتحت جج تیار نظر نہیںآ رہا،کیا یہ صرف طاقتوروں کا ملک ہے، ریاستی ادارے اور حکومت صرف خاص طبقات کے لئے ہے، این جی اوز کو ان ایشوز کو دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ہے، نان گورنمنٹ آرگنائزیشنز کیا واقعی مال کمانے والے ادارے نہیں بن چکیں، یہ وارث شاہ کا دور ہے نہ کسی محمد بن قاسم کا، لوگ اپنی سگی بیٹیوں کو شک کی بنیاد پر قتل کر دیتے ہیں، یتیم خانوں، پاگل خانوں، جیلوں تھانوں اور انصاف کے گھروں کی اونچی دیواروں سے بیکس اور بے سہارا بیٹیوں کی آواز بھلا کون سنے گا؟ کون دیکھے گا کہ اسپتالوں کی نرسیں اور ہاسٹلز میں رہنے والی لڑکیاں چھتوں سے کود کر خود کشی کیوں کر لیتی ہیں؟اقراء کائنات پر کیا گزری؟ یہ کہانی آج پاکستان کی سب سے بڑی کہانی ہونی چاہئیے تھی، اس کے سوا کوئی اور ڈیبیٹ ہونی ہی نہیں چاہئے تھی، افسوس ! میڈیا بھی کوئی موثر کردار ادا نہ کر سکا۔ ٭٭٭٭٭ بات کاشانہ کی ہو رہی ہے تو اگلی بات بھی کاشانہ کی ہی کرتے ہیں، خیال تھا فواد چوہدری جیسے ایک دو دبنگ وزیر اقراء کائنات کی پراسرار موت پر اسمبلی میں یا کسی ٹاک شو میں بات کرتے اور کہتے کہ کائنات کی موت سال کی سب سے بری خبر ہے، لیکن کیا کریں حکومت تو حکومت کسی اپوزیشن پارٹی یا اس کے کسی لیڈر نے اس المیہ کو المیہ تصور نہ کیا، کہتے ہیں کہ حکومت کی چاروں بڑی اتحادی جماعتیں حکومت سے ناراض ہیں، صد افسوس کہ ان میں سے کسی نے بھی اس کھلے قتل پر کوئی احتجاج نہ کیا، اتحادی جماعتوں کی ناراضیاں شاید ان کے ذاتی مفادات تک ہی محدود ہیں، وفاقی وزیر علی زیدی نے انتہائی ڈھٹائی سے عوام کو سال کی سب سے اچھی خبر یہ دی ہے کہ ن لیگ کے مفرور راہنما اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی گلبرگ میں واقع ساڑھے چار کنال کی پر تعیش کوٹھی کو کاشانہ بنا دیا گیا ہے، اس گھر کا سارا مال متاع کہیں اور منتقل کرکے وہاں کے بارہ کمروں میں 40بوسیدہ بیڈ سجا دیے گئے ہیں، ہم سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ کیا اس کاشانہ کو بھی دوسرے کاشانوں کی طرح استعمال کیا جائے گا، وہاں بھی سرکاری افسروں اور حکومتی نمائندوں کاآنا جانا لگا رہے گا؟ کیا اسحاق ڈار کے ہجویری ہائوس میں واقعی چالیس بے گھر لوگ پناہ حاصل کر سکیں گے یا اس کوٹھی کے بارہ کمرے کسی اور کام میں لائے جائیں گے؟ اگر تو واقعی اس گھر میں حقیقی مستحق لوگ ٹھہرا دیے جاتے ہیں تو یہ اس حوالے سے سال کی سب سے اچھی خبر ہوگی کہ عمران خان کے بے گھر لوگوں کو پچاس لاکھ گھر دینے کے اعلان پر عمل درآمد شروع ہو گیا ہے، ایک خدشہ مجھے اور بھی ہے کہ اگر سچی مچی کے بے گھر، مستحق لوگ اس لگژری گھر میں ٹھہرا دیے گئے تو کہیں باتھ رومز اور ٹوائلٹس کو تالے نہ لگا دیے جائیں، سنا ہے کہ ان میں کروڑوں روپے مالیت کی ٹائلیں اور ٹونٹیاں وغیرہ لگی ہوئی ہیں۔ اس لئے ممکن ہے کہ انہیں صرف افسروں کے لئے ہی مخصوص نہ کر دیا جائے، حکام کا یہ خدشہ بجا ہو سکتا ہے کہ اتنے قیمتی گھر میں اگر غریب داخل کر دیے گئے تو ان کا جی اچھا کھانے کو بھی چاہے گا، پیسے ان کی جیب میں نہیں ہوں گے کہیں وہ گھر کی آرائشی اشیاء بیچ بیچ کر ہی آٹا، چینی ، چاول اور گوشت کی خریداری شروع نہ کر دیں۔ ٭٭٭٭٭ مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے، حکمران اور معیشت دان برملا کہہ رہے ہیں کہ اس سال مہنگائی اور بے روزگاری کا ایک اور طوفان آئے گا، سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ پیش گوئی کر رہے ہیں کہ 2020ء میں مزید بارہ لاکھ لوگ روزگار سے محروم ہو جائیں گے، حکومت نے منی بجٹ کا بم گرانے کی نوید بھی سنادی ہے، ق لیگ کہتی ہے کہ رشوت کے نرخ آسمانوں سے باتیں کرنے لگے ہیں، ایسے میں کچھ شعبے ایسے بھی ہیں جہاں رشوت کا گراف گرا بھی ہے اور اس کا مشاہدہ میں نے دو تین مقامات پر خود بھی دیکھا ہے، میں نے ایک کالم میں بتایا تھا کہ کچھ نامعلوم افراد کندھوں پر کیمرے لٹکا کر صحافی بنے ہوئے ہیں، ان لوگوں نے غیر معروف میڈیا ہائوسز کے کارڈ بھی بنوا رکھے ہیں اور ان میں سے کئی پریس کلب اور دیگر صحافتی تنظیموں کی رکنیت بھی حاصل کر چکے ہیں، پچھلے ایک ماہ کے دوران میں نے ان ،،، صحافیوں،،، کو دو تین فنکشنز میں دیکھا، میرا تجسس بڑھا اور میں نے سراغ لگایا کہ یہ یہاں سے پیسے کیسے وصول کریں گے، نتیجہ سامنے آ گیا، تمام مقامات پر انہیں رشوت دینے کے انتظامات پہلے سے موجود تھے، اہم بات یہ ہے کہ سب جگہوں پر ریٹ ایک ہی تھا،،،، تین سو روپے فی کس،،،، یہ روپے لفافوں میں رکھ کر دیے گئے، پیسے دینے سے پہلے ان نام نہاد فوٹو گرافروں سے شناختی کارڈز کی کاپیاں لی گئیں، ایک کاغذ پر ان سے دستخط کرائے گئے اور ان کے موبائل نمبرز بھی نوٹ کئے گئے۔افسوس مجھے یہ ہوا کہ ان ہلکے لفافہ بازوں میں دو چار میرے جاننے والے فوٹو گرافرز بھی تھے، لیکن سوچتا ہوں کہ موجودہ بد ترین معاشی حالات میں یہ تین تین سو بھی ان افراد کے لئے اہم ہو سکتے ہیں۔