محاورہ ہے کہ خدا شکر خورے کو شکر ضرور دیتا ہے۔ ہمارے ملک کو جو بدعنوان حکمرانوں کی بدعنوانی میں عالمگیر شہرت رکھتا ہے، خداوند تعالیٰ نے ایک ایسا حکمران عطا کر دیا ہے جو سارے ضروری کاموں کو چھوڑ چھاڑ کر سابق بدعنوان حکمرانوں کی پکڑ دھکڑ میں اس طرح لگا ہوا ہے کہ امریکہ جائے یا چین یا کسی اور ملک ان بدعنوانوں کا تذکرہ کرنا نہیں بھولتا۔ اس کی گوٹ بدعنوانی پر آ کر اٹک گئی ہے اور وہ ایک ہی بات کی تکرار میں مصروف ہے کہ اے کاش! میں کرپٹ لوگوں کو کسی طرح جیل بھیج سکتا۔ کسی طرح ان کا ٹینٹوا دبا سکتا۔جب تک حکومت نہیں ملی تھی‘ کنٹینر پر سوار ہو کر کرپشن کے خلاف یہ تقریریں قابل فہم تھیں لیکن حکومت میں آنے کے بعد بھی اسی راگ کو الاپنا ‘ اپنی مجبوری اور بے بسی کا اشتہار بانٹنا ناقابل فہم ہی نہیں ناقابل عمل دعویٰ بھی ہے۔ کوئی پوچھے کہ حضور! اگر آپ اتنے ہی مجبور و بے بس ہیں تو پھر کرپٹ عناصر کے خلاف اظہار نفرت و حقارت کے کیا معنی ہیں؟ انہیں نیب کے حوالے کر کے جو ضروری ریاستی امور ہیں ان کو نمٹائیے۔ آپ کے آنے سے عوام کو ریلیف تو ملی نہیں۔ مہنگائی کا جن اسی طرح ناچ رہا ہے۔ امن و امان کی حالت ویسے ہی تباہ ہے۔ رشوت خوری میں بھی کوئی کمی نہیں آئی۔ دہشت گردی میں بے گناہ شہری آج بھی مارے جا رہے ہیں۔ ایک سال آپ کی حکومت کو مکمل ہونے میں آیا ہے لیکن کریڈٹ یہ سوائے خوش کن‘ متاثر کن تقریروں کے کچھ بھی نہیں ہے۔ کرپٹ عناصر آپ کی نگاہوں میں کھٹکتے ہیں تو اسمبلی میں قانون سازی کر کے اپنی بے بسی کو تین طلاقیں دیجیے اور جس طرح حکومت و سیاست کو صاف ستھرا اور پاکیزہ بنا سکتے ہیں‘ بنائیے ،لیکن اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو پھر حکومت چھوڑیے یا اس راگ کو الاپنا ترک کیجیے۔ عوام کب تک اس راگ کو سنیں۔ خدانخواستہ ہم وزیر اعظم کی نیت یا ان کے ارادوں کو شک و شبے کی نظر سے نہیں دیکھ رہے۔ ان کے عزائم بلند اور نیت سلامت ہے۔ سوال فقط اتنا ہے کہ تقریر کو پالیسی کا بدل کیوں سمجھ لیا گیا ہے۔ ملک کا قبلہ تقریروں سے تو درست ہو سکتاہے اور نہ کرپٹ عناصر کی اصلاح انہیں للکارنے اور دھمکانے سے ہو سکتی ہے۔ سسٹم محاسبے اور جوابدہی کے احساس سے درست ہو گا۔نیب کے ذریعے جو محاسبے اور پکڑ دھکڑ کا سلسلہ ہے اس سے تو اصلاح احوال کی صورت نظرنہیں آ رہی۔ اس ادارے کو موثر بنائیے یا کوئی نیا طریقہ کار تلاش کیجیے۔ عمل کے بجائے لفظوں کے نشتر سے اگر کوئی اصلاح ہو سکتی‘ کوئی تبدیلی آ سکتی تو اس معاشرے میں ناصحوں اور مبلغوں کی کوئی کمی نہیں۔ ہم سب اپنے بجائے دوسروں کی اصلاح پہ لگے ہوئے ہیں۔ یہی معاملہ حکومت کا ہے۔حکومت اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کو نظر انداز کر کے صرف سابق حکمرانوں کی بدعنوانی کو فوکس کیے ہوئے ہے تو اصلاح کی کوئی بھی کوشش با برکت کیسے ہو سکتی ہے۔ آپ کرپٹ عناصر کو ساتھ ملا کر کرپشن کے خلاف جہادکریں گے تو اس کا کیا اعتبار و وقار رہ جائے گا۔ نام لینے کی ضرورت نہیں ورنہ جاننے والے خوب جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی صفوں میں سب فرشتے نہیں وہ بھی ہیں جن کے دامن پہلے ہی داغدار ہیں اور وہ بھی ہیں جو اپنے اثرورسوخ کے استعمال سے اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔ نیب کو بھی ان پر ہاتھ ڈالنے کی جرات و ہمت نہیں۔ وزیر اعظم کی یہ خواہش کہ کاش! چین کی طرح میں بھی پانچ سو کرپٹ افراد کو جیل بھیج سکتا‘ بہت مبارک سہی۔ لیکن اس ’’کاش‘‘ میں جو تشنہ تمنا پوشیدہ ہے اس سے ایک ہی بات عیاں ہے کہ ایک نیک کام میں بھی وزیر اعظم کے ہاتھ پیر بندھے ہیں اور وہ اسی طرح مجبور و بے بس ہیں جیسا ملک کا کوئی عام شہری۔ ملک کا منتخب وزیر اعظم کرپشن کے خاتمے کے لئے کرپٹ عناصر پر ہاتھ ڈالنے میں اپنی معذوری ظاہر کرے تو سمجھ لیجیے کہ کرپشن وہ بھاری پتھر ہے جسے چوم کر اٹھانے کے بجائے چھوڑ دینے ہی میں عافیت ہے۔ اصل میں معاشرہ ہمارا جب بھی بدلے گا جوش گفتار سے نہیں جوش کردار سے بدلے گا۔ تو ایسے ہی کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ ٹھنڈے دل سے سوچا جائے کہ نقص اور خرابی اصل میں ہے کہاں پر۔ جن قائدین یا حکمرانوں نے چند برسوں میں اپنی قوم کی تقدیر بدل دی اور اپنے ملک کو بدترین بحرانوں سے نکال کر ترقی و تعمیر کی شاہراہ پر ڈال دیا تو ایسا انہوں نے حسن تدبیر اور ارادہ مصمم ہی سے کیا۔ ان کے ہاں’’اگر مگر‘‘ اور چونکہ، چنانچہ کی معذرتیں نہیں ملتیں تو اس لئے کہ وہ تقریروں سے دلوں کو لبھانے کے بجائے صحیح حکمت عملی کو وضع کرنے اور اس پر کاربند رہنے ہی کو مسائل کا حل سمجھتے تھے۔ بدقسمتی سے ہماری قوم خطابت کی اسیر ہو گئی ہے۔ جب تک ہم اپنے حکمرانوں کو ان کے اعمال و افعال اور نتائج کے اعتبار سے پرکھنا نہیں سیکھیں گے کوئی سوال نہیں کہ ہمیں نجات ملے۔ ہمیں قول و قرار اور الفاظ کی سحر بیانی سے نکل کر خود کو حقیقت پسند بنانا ہو گا۔ یہ تقریریں‘ یہ نعرے بازی یہ جلسے جلوس کا شورو غل یہ کچھ نہیں‘ یہ صرف جعلی سیاست دانوں اور کھوکھلی سیاسی جماعتوں کا پیدا کردہ التباس نظر ہے جس میں قوم کی تقدیر کھو گئی ہے۔سیاست دانوں اور حکمرانوں سے ہماری بے محابہ عقیدت‘ ان کی غیر مشروط اطاعت ‘ ان کے عیوب اور خرابیوں سے صرف نظر ان کی برائیوں کی بھی کوئی نہ کوئی عمدہ تعبیر اور ان سے وابستہ ہماری خوش گمانیاں، یہی ہیں ہماری و نالائقیاں جنہوں نے ہم پر ایسے لیڈروں اور حکمرانوں کو مسلط کئے رکھا جنہوں نے ہمیں زیر بار کیا۔ کچھ ملا تو خوش کن اور خوش نما لفظوں ہی کا ہار ملا جسے قوم گلے میں ڈالے اتراتی پھری۔ ہمیں لفظ نہیں نتیجہ چاہیے۔ ہمیں تبدیلی کے نعرے نہیں فی الواقع تبدیلی چاہیے۔ ایسی تبدیلی جو نظر آئے جو محسوس ہو۔ہاں اس کے بغیر نجات کا کوئی امکان نہیں۔ وزیر اعظم نے گزشتہ دنوں لنگرخانہ سکیم کا افتتاح کیا ۔ بلا شبہ اس سکیم کی بنیاد درد مندی اور خیر خواہی پر مبنی ہے۔ اس کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے لیکن اس میں نیا پن کیا ہے۔ نواز شریف نے پہلے دور میں قوم کو پیلی ٹیکسیوں کا تحفہ دیا تھا اورجاتے جاتے لیپ ٹاپ سکیم کے تحت ہزار ہا طلبہ کو لیپ ٹاپ دیے۔ بے نظیر بھٹو نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے غریب غربا کو معاشی سہارا بہم پہنچایا۔ یہ اور ایسی سکیمیں پہلے بھی وضع ہوتی رہی ہیں۔ کیا کبھی کسی حکومت نے کوئی ایسی سکیم بھی وضع کی ہے جس سے قوم میں خود اعتمادی‘ غیرت و حمیت ‘ خود داری ایثار و قربانی اور اس جیسی اعلیٰ صفحات پیدا ہوں۔ ٹیلی ویژن چینلوں کے پروگرام ہوں یا حکومتوں کی پالیسیاں‘ قوم میں گداگری کے ہی جذبات کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ قوم بنتی ہے اپنے اعلیٰ صفات سے۔ کیا اس کی طرف بھی کوئی توجہ ہے؟