ڈاکٹر مبشر حسن 98برس گزارنے کے بعد ہفتے کی صبح انتقال کر گئے ،ڈاکٹر صا حب کچھ لوگوں کے لیے سیاستدان دانشور ،مفکر ،استاد اورسوشلسٹ نظریات کے حامل فلاسفر ہونگے لیکن میرا ان سے گہرا قلبی تعلق تھا ،میرے خاندان سے بھی ان کا تعلق بہت قربت کا تھا ۔ان کا شمار میرے والد حمید نظامی مرحوم کے قریب ترین اور غالباً آخری زندہ دوستوں میں کیا جاتا تھا ۔مجھے بچپن سے یاد ہے کہ جب تک حمید نظامی زندہ رہے شاید ہی کوئی دن ایسا ہو ڈاکٹر صاحب لاہور میں ہوں تو شام کو ان کی ملاقات نہ ہوئی ہو ۔دراصل ڈاکٹر مبشر حسن کے بڑے بھائی ڈاکٹر شبر حسن میرے والد کے کلاس فیلو اور گہرے دوست تھے لیکن ڈاکٹر شبر حسن ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جوائن کرنے کے باعث بیرون ملک چلے گئے جس کے بعد ان کی گہر ی دوستی ڈاکٹر مبشر حسن سے ہو گئی ۔وہ سول انجینئر تھے اور امریکہ کی کولمبیا اور ایووایونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔وطن واپسی پر انہوں نے انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور جو اس وقت انجینئر نگ کالج کہلاتا تھا ‘میں تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا ۔سیاست سے صرف ان کا اتنا ہی تعلق تھا کہ جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ ، جسٹس عطاء اللہ سجاد اور کئی دیگر دوستوں کے ساتھ شام کو گارڈینیایا کسی دوسرے ہوٹل میں ہونے والی محفل میں وہ حمید نظامی مرحوم کے ہمراہ شریک ہوتے تھے ۔ عملی سیاست میں شاید وہ کبھی نہ آتے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ انجینئرنگ یونیورسٹی کے وائس چانسلر انعام اللہ کے ساتھ طلبا کے حقوق کے حوالے سے ان کی ٹھن گئی اور انہیں تدریس کے شعبے کو خیرباد کہنا پڑا۔ فروری 1962ء میں میرے والد کے انتقال کے بعد وہ میرے خاندان کے ایک طرح سے گارڈین تھے جیسے کہ حمید نظامی اپنی وصیت میں لکھ کر گئے تھے۔ جب مجید نظامی مرحوم نے اپنے بھتیجوں کا حق مارنے کی کوشش کی تو وہ ڈٹ گئے ، جس پر مجید نظامی مرحوم کو نوائے وقت چھوڑ کر اپنا اخبار نکالنا پڑا۔ یہ اخبار بری طرح ناکام ہوا ،نوائے وقت کی حالت بھی اتنی اچھی نہیں تھی انہی حالات میں جب میں یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھامجید نظامی مرحوم نوائے وقت میں واپس آ گئے ۔ڈاکٹر مبشر حسن کی سیاسی زندگی کا آغاز بھی کچھ مختلف انداز سے ہوا۔ 1966ء میں جب ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان سے راستے جدا کئے تو وائی ایم سی اے ہال میں یوم حمید نظامی منانے کا فیصلہ کیا گیا، جلسے کی صدارت کے لیے ذوالفقار علی بھٹو کا انتخاب کیا گیا ۔ یہ ڈاکٹر مبشر حسن ہی تھے جو انہیں اپنی فوکسی ویگن میں فلیٹیز ہوٹل سے لے کر ہال تک پہنچے ۔ اس کے بعد ذوالفقارعلی بھٹو کے ساتھ ان کا براہ راست رابطہ استوار ہو گیا ۔ نومبر 1967ء میں پیپلز پارٹی کی بنیاد ڈاکٹر مبشر حسن کے اسی گھر میں رکھی گئی جہاں ان کا انتقال ہوا ہے۔ میں بھی اس تاریخ ساز تاسیسی اجلاس میں موجود تھا ۔پیپلزپارٹی کا منشور،پروگرام بنانے اور نعرہ روٹی ،کپڑا ،اور مکان،اسلام ہمارا دین ہے ، جمہوریت ہماری سیاست ہے ،سوشل ازم ہماری معیشت ہے ،طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ یہ منشور ڈاکٹر مبشر حسن اور جے اے رحیم نے ہی تیار کیا تھا ۔ایوب خان کے خلاف تحریک میں بھی ڈاکٹر مبشر حسن کا کلیدی رول تھا ۔وہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل تھے یقینا ڈاکٹرمبشر حسن کا رجحان سوشلزم کی طرف تھا ،بھٹو کی نیشنلائزیشن کی پالیسی میں بھی ان کا اہم کردار تھا لیکن آہستہ آہستہ بھٹو کے ارد گرد انقلابی پیچھے ہٹتے گئے اور حقیقت پسند بلکہ یہ کہا جائے کہ موقع پرست حاوی ہوتے چلے گئے ۔ ڈاکٹر مبشر حسن ،جے اے رحیم ، خورشید حسن میر ،شیخ محمد رشید ،معراج خالد کی جگہ مصطفی کھر ،غلام مصطفی جتوئی اور کوثر نیازی نے لے لی تھی ۔ ڈاکٹر مبشر حسن کے نظریاتی سفر میں ایک صحافی زاہد چودھری کا اہم رول تھا ، زاہد چودھری نوائے وقت کے چیف رپورٹر ہوا کرتے تھے۔ اس زمانے میں دورہ چین کے بعد وہ ماؤزے تنگ کے سوشلسٹ نظریئے کے حامی وموید ہو گئے ۔ یہ وہی دور تھا جب روس اور چین کی نظریاتی طور پر گہری ٹھنی ہوئی تھی ڈاکٹر صاحب کا نظریاتی رجحان چین کی ہی طرف تھا۔ڈاکٹر مبشر حسن کی پہلی کتاب شاہراہ انقلاب تحریر کرنے میں زاہد چوہدری کا کردا ر تھا ۔ ڈاکٹر صاحب کو بطور وزیر خزانہ نیشنلائزیشن کا کریڈٹ یا ڈس کریڈٹ دیا جاتا ہے ۔ بہت کم لوگوں کو علم ہو گا کہ وہ بھٹو کی ہدایت پر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھنے کے لیے اس وقت کے اٹامک انرجی ادارے کے چیئرمین منیر احمد خان اور بعد ازاں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے ساتھ کوآرڈینیٹ کرتے تھے ۔وہ دسمبر 1971ء سے اکتو بر 1974ء تک ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں وزیر خزانہ تھے اور پھر وزیراعظم کے مشیر برائے سائنس بن گئے اور 1977ء میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے خاتمے تک اسی عہدے پر فائز رہے۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران کچھ عرصہ پابند سلاسل بھی رہے بعد میں سیاست سے عملی طور پر کنارہ کش ہو گئے ۔ جب 1986ء میں بے نظیر بھٹو جلاوطنی سے واپس آئیں توانہوں نے محترمہ کی طرف دست تعاون بڑھایا لیکن بے نظیر بھٹو کی سیاست میں ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کے رفقا جن کو ’انکلز ‘ بھی کہا جاتا تھا کی خاص گنجائش نہیں تھی۔ اسی بنا پر ڈاکٹر مبشر حسن ،حفیظ پیرزادہ ، ممتاز بھٹو اور مظفرجتوئی ڈس کارڈ کر دیئے گئے ۔بعدازاں ڈاکٹر مبشر حسن نے بھٹو صاحب کے صاحبزادے مرتضیٰ بھٹو سے ناتا جوڑا اور ان کی پارٹی پیپلزپارٹی بھٹو (شہید بھٹو)میں شامل ہو گئے ۔ مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے بعد ان کا غنویٰ بھٹو سے بھی رابطہ رہا لیکن ڈاکٹر صاحب نے اپنا رول مشاورت اور اپنے مخصوص نظریات کے پر چار تک ہی محدود رکھا ۔ڈاکٹر صاحب برابری کی بنیاد پر پاک بھارت دوستی کے بھی پر چارک تھے انھوں نے اس مقصد کے لیے پاک بھارت پیپلز پیس فورم کی بنیاد بھی رکھی لیکن دونوں ممالک کی قیادتوں میں امن کی خواہش بالخصوص بھارت کی غلبہ حاصل کرنے کی کوششوں کی بنا پر یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکے۔ ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ ڈاکٹر زینت حسن لاہور کی معروف لیبارٹری کی مالکن ہیں ۔ڈاکٹر صاحب کی کوئی اولاد نہیں تھی وہ انتہائی سادہ آدمی تھے۔ امریکہ سے واپس آنے کے بعد ان کے پاس ایک امریکن فورڈ گاڑی تھی، انہیں گاڑی میں پاکستان کے مختلف مقامات کی سیر کا شوق تھا اور میں نے بھی بچپن میں ان کے ساتھ کئی سفرکئے اور بعدازاں ڈاکٹر صاحب ایک فوکس ویگن گاڑی کے مالک تھے ۔فوڑد ہو یافوکس ویگن جب تک ڈرائیوکر سکتے تھے خود چلاتے رہے، میں نے کبھی انہیں ڈرائیور کے ساتھ سفر کرتے نہیں دیکھا ۔میں اکثر ان سے ملنے گھر چلا جاتا وہ بڑی محبت سے پیش آتے لیکن میرے چچا مجید نظامی مرحوم کے لیے ان کے دل میں کوئی گنجائش نہیں تھی۔ انہوں نے میرے ادارہ نوائے وقت چھوڑنے کے حوالے سے بھی مجید نظامی مرحوم کو بہت سخت خط لکھا تھا ۔ڈاکٹر صاحب منافقت کے قائل نہیں تھے اور اپنی بات بلا کم وکاست کہہ دیتے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب نے شاہراہ انقلاب کے علاوہ کئی کتابیں اور پمفلٹ لکھے، انہیں تصویر کشی کا بھی بہت شوق تھا ۔دریائے سندھ کے کنارے بسنے والے پرندوں کی تصویر کشی کر کے 2001ء میں انہوں نے برڈز آف انڈس با تصویر کتاب لکھی ۔مین بلیوارڈ گلبرگ پر ان کے گھر کے عقبی حصے میں ڈاکٹر شبر حسن رہائش پذیر تھے ،یہ انتہائی قیمتی پراپرٹی کئی لوگوں نے ان سے خریدنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانے اور نہ ہی ان سے پہلے ان کے بھائی شبر حسن مانے تھے ۔ڈاکٹر مبشر حسن انتہائی سادہ زندگی گزارتے تھے اور نہ ہی ان کی زیادہ ضروریات تھیں، آج ان جیسے بے غرض ،بے لوث اپنے نظریات پر ڈٹ جانے والے پاکستانی سیاستدان اور دانشور شاید کم ہوں ۔