بلاول بھٹو زرداری کی والدہ سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب ’’دخترِ مشرق‘‘ میں بھٹو خاندان کی سو برس پہلے زمینوں کی وسعت و مالیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اْس وقت کا انگریز چارلز نیپیئر اپنی گاڑی میں لاڑکانہ سے باہر جارہا تھا۔ چند میل بعد اس نے پوچھا۔ یہ کس کی زمینیں ہیں؟ ڈرائیور کا جواب تھا۔۔۔ ’’ بھٹو کی‘‘۔ مزید آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد چارلز نیپیئر نے پھر پوچھا۔’’ کیا اب بھی بھٹو کی زمینیں چل رہی ہیں؟‘‘۔ ڈرائیور نے اثبات میں سر ہلا دیا’’جی‘‘۔۔۔ اس پر چارلز نیپیئر نے اونگھتے ہوئے کہا۔’’جب بھٹوز کی زمینیں ختم ہوجائیں تو مجھے اٹھا دینا‘‘۔یقیناًبلاول بھٹو زرداری کے پر نانا سر شاہنواز بھٹو غیر منقسم ہندوستان کے چند بڑے دولت مند جاگیر داروں میں سے ایک تھے۔ لیکن قیام پاکستان سے قبل ہونے والے سندھ کے ایک الیکشن میں ایک پروگریسو نیشنلسٹ عبدالمجید سندھی کے ہاتھوں انہیں ایسی شکست کا منہ دیکھنا پڑا کہ بقیہ ساری زندگی انہوں نے ریٹائرمنٹ میں گزاری۔محترم ذوالفقار علی بھٹو کو اپنے والد کی زمینیں بھی ملیں اور جائیداد یں بھی۔۔۔ جس میں کراچی 70کلفٹن کی کوٹھی اور لاڑکانہ کا المرتضیٰ بھی شامل تھا۔مگر بھٹو صاحب جو مغربی ملکوں سے اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرکے آئے تھے پاکستان واپس لوٹے تو انہوں نے وکالت کو ہی پیشہ بنایا۔صدر اسکندر مرزا اور پھر جنرل ایوب خان کے دور میں بارہ سال پانی، بجلی اور خارجہ تعلقات جیسی اہم وزارتوں کے وزیر رہے۔ بازاری زبان میں ایوبی وزارتوں کو ٹھوکر مار کر جب اقتدار سے باہر آئے تو اْس وقت کے طاقتور گورنر نواب آف کالا باغ اور ایوب خان کی ساری مشینری اْن پر کرپشن کے ڈھیلے کا الزام بھی نہیں لگاسکی۔ 1970ء کے بعد چار سال سے اوپر پاکستان کے وزیر اعظم رہے۔جولائی 1977ء میں پی پی کا تختہ الٹنے کے بعد جنرل ضیاء الحق کی ساری سویلین، ملٹری نوکر شاہی بھی کرپشن کے حوالے سے ان کا ٹکا نہیں نکال سکی۔ اس سارے عرصے میں جو دو دہائی پر مشتمل ہے بھٹو صاحب کی زمینوں، جائیدادوں اور اثاثوں میں اضافہ تو کیا،کمی ہی آئی ہوگی۔بلکہ ’’نعرے‘‘ کی حد تک سرداری سسٹم کو بھی بھٹوصاحب نے خلافِ قانون قرار دیا۔ اور زرعی اصلاحات کے ذریعہ لاکھوں ایکڑ زمین رکھنے والوں سے زمینیں چھین کر ہاریوں میں تقسیم کیں۔جن میں خود ان کی اپنی زمینیں بھی شامل تھیں۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے جب اپنی پہلی جلا وطنی کا دور لندن میں گزارا تو ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتی تھیں۔گھریلو اور سیاسی اخراجات پورا کرنے کے لئے ان کے پاس اتنے وسائل بھی نہ تھے کہ کوئی اسسٹنٹ رکھ پاتیں۔ اور پھر اسی مجبوری کے سبب مشہو رِ زمانہ ناہید خان اْ ن کی آنکھ، کان اور زبان بن گئیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹوجب پرائم منسٹربنیں تو انہیں ڈپٹی پرائم منسٹر کہا جاتا تھا۔اپنے پہلے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد جب علاج کیلئے وہ ملک سے باہر جارہی تھیں تو اْس وقت کے بلاول ہاؤ س میں۔۔۔جس کی یقیناًمالیت 30لاکھ ہی ہوگی۔۔چند صحافیوں سے الوداعی ملاقات کی۔اْس وقت صورتحال بڑی جذباتی ہوگئی جب انہوں نے اپنے پاس پڑے بیگ کو اٹھاتے ہوئے کہا ’’ میرے پاس بچوں کی فیس دینے تک کے پیسے نہیں ‘‘۔ نواز شریف نے میرے سارے اکاؤنٹس پر قبضہ کرلیا ہے۔جی ہاں۔اْس وقت ہمیں اْن کے موصوف شوہر محترم آصف علی زرداری آس پاس نظر نہیں آئے بلکہ یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ انہیں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کے شوہر ہونے کے سبب کڑا وقت بھی گزارنا پڑا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا اقتدار میں دوسری بار آنا۔۔۔ اور پھر اْن کے اقتدار کے ہی دنوں میں اْن کے بھائی کا بہیمانہ قتل ہونا اور پھر بتدریج محترم آصف علی زرداری کا پارٹی پر گرفت مضبوط کرنا۔۔۔ ایک خاصہ طویل ،تکلیف دہ موضوع ہے۔ میں انہیں اس لاحقہ سے للکارنے سے بھی گریز کروں گا جو بہرحال بعد میں اْ ن کی پہلی شہرت بنا۔محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کے بعد دسمبر 2007ء میں ان کی المناک شہادت کے بعد یہ کریڈٹ تو محترم آصف علی زرداری کو دینا ہی پڑے گا کہ انہوں نے پارٹی کو بھی متحد کیااور صدر مملکت کے عہدہ جلیلہ پر بھی بیٹھے اور پھر ہاں، تین ہونہار بچوں کی بھی ایسی تربیت کی کہ آج بھٹو خاندان کی چوتھی پیڑھی کی حیثیت میں وہ ملکی سیاست کی پہلی صف میں کھڑ ے ہیں۔ یہ ساری تمہید جو سارا کالم ہی لے گئی، اس لئے باندھی کہ الیکشن 2018ء میں حصہ لینے کے لئے جو انہوں نے اپنے اثاثہ جات بتائے ہیں۔۔۔ وہ ششدر کردینے کے مترادف ہیں۔ برخوردار بلاول بھٹو زرداری کو پر نانا، نانا،اور والدہ کی جانب سے ’’تحائف‘‘ کی صورت میں جو اثاثے ملے اور جو حلفیہ بتائے گئے۔۔۔ وہ ناقابلِ تفہیم بھی ہیں اور ناقابلِ سمجھ بھی۔۔۔ اْن کے مرحوم دادا حاکم علی زرداری اور اْن کے والد محترم آصف علی زرداری بہرحال پاکستان کے 22کیا 22سو امیر گھرانوں میں سے بھی نہ تھے۔ جن جن کاروبار سے اور جو جو اکاؤنٹ اْن کے بینک میں بتائے گئے ہیں۔۔۔ وہ بذاتِ خود ایک سوالیہ نشان ہیں۔۔۔ ؟ بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے فراہم کردہ اثاثہ جات میں بتایا گیا کہ ان کے پاس 5کروڑ روپے نقد موجود ہیں جبکہ بینک اکاؤنٹس میں 1کروڑ38لاکھ روپے جمع ہیں۔تاہم ان کے پاس کوئی گاڑی نہیں ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے پاس متحدہ عرب امارات کے 2 اقامے موجود ہیں جبکہ کلفٹن، کراچی بلاول ہاؤس کی ملکیت 30لاکھ روپے بتائی گئی۔ان کے پاس دبئی میں وِلاز ہیں جن میں سے ایک انہیں بطور تحفہ ملاجبکہ ایک کے مالک ہیں۔بلاول بھٹو زرداری کے پاس ملک بھر میں مجموعی طور پر 20رہائشی ، کمرشل اور زرعی پراپرٹی ہیں جو بیشتر اْن کے والدین، دادا اور دیگر کی جانب سے تحفے میں دی گئی۔جبکہ زرداری گروپ اور پار ک لین ای اسٹیٹ میں 11لاکھ روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔دبئی میں 22اور برطانیہ میں ایک سرمایہ کاری کی گئی جو زیادہ تر ان کی والدہ نے تحفے میں دی۔ان کے پاس 30لاکھ روپے مالیت کا اسلحہ ،فرنیچر اور دیگر روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کی مالیت 30لاکھ روپے بتائی گئی ہے۔یہاں تک پہنچا ہوں تو یقین جانیں اْن کی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے جو تین دہائی کا تعلق رہا ہے۔۔۔ اْس حوالے سے نوجوان، بلاول بھٹو زرداری کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے دکھ بلکہ ندامت ہورہی ہے۔۔۔ مگر سیاست اور صحافت بڑے سفاک اور بے رحم ہوتے ہیں۔ مگر اثاثوں کے حوالے سے یہ گفتگو محض Poor Bilawalتک محدود نہیں ہے۔آئندہ PoorLady مریم نواز پر بات ہوگی۔ (جاری ہے)