جولائی 2018ء کے الیکشن کے بعد جس میں تحریک انصاف واضح اکثریت نہیں حاصل کر سکی تھی۔یعنی 382کے ایوان میں 172ارکان جس سے وہ بغیر کسی اتحادی کے حکومت بنا سکے۔ ۔ ۔ تو پھر یہی وہ وقت تھا کہ تحریک انصاف کے قائد عمران خان کی بے پناہ مقبولیت اور لاکھوںکی تعدادمیں نوجوانوں کی حمایت کے باوجود یہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اور گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے جہانگیر ترین ہی تھے جو بے پناہ وسائل جن میںان کا ذاتی جہاز اور ہیلی کاپٹر بھی شامل تھا ، تن و تنہا مہینے بھر کی مشقت کے بعد اس بات میںکامیاب ہوئے کہ ہمارے خاں صاحب کو وزارت ِ عظمیٰ کی کرسی پہ لابٹھائیں۔جولائی 2018ء کے انتخابات میں خان صاحب کے 161ارکان کامیاب ہوئے تھے۔جبکہ انہیں سادہ اکثریت کے لئے 11ارکان ِ اسمبلی کی ضرورت تھی۔جبکہ ان کے مقابل پیپلز پارٹی ، ن لیگ ،جمعیت علمائے اسلام اور آزاد ارکان سمیت مزید 28ارکان کی ضرورت تھی۔جو انہیں سادہ اکثریت دلا پاتے۔ایک تو خان صاحب کی خوش نصیبی یہ تھی کہ میثاق ِ جمہوریت کے باوجود ن لیگ اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے سے دست و گریباں رہے۔ پھر آزاد ارکان اور دیگر چھوٹے بڑے گروپ یعنی چوہدری پرویز الٰہی ،متحدہ قومی موومنٹ ،سردار اختر مینگل کی نیشنل پارٹی سمیت دیگر آزاد اراکین اسمبلی کے لئے شریفوں اور زرداریوں سے زیادہ تحریک انصاف کے قائد عمران خان انہیں اُن کی عدوی حیثیت اور سیاسی طاقت سے زیادہ دینے کی پوزیشن میں تھے۔یوں خاں صاحب نے 18اگست کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھالیا۔مگر اُس وقت اسلام آباد کے سیاسی پنڈتوں نے یہ پیشن گوئی کردی تھی کہ تبدیلی کے خواہش مند کپتان وزیر اعظم وہی غلطی کر بیٹھے جو محترمہ بے نظیر بھٹو نے دسمبر سن1988ء کے انتخابات میں وزیر اعظم بننے کے لئے کی تھی۔ اُس وقت اسٹیبلشمنٹ کے سرخیل صدر غلام اسحاق خان ،صدرِ مملکت تھے۔پیپلز پارٹی کو94اراکین اسمبلی کے ساتھ سادہ اکثریت تو حاصل تھی اور یوں آئینی اور جمہوری روایت کے مطابق صدر غلام اسحا ق خان کو انتخابی نتائج آنے کے فوراً بعدحکومت بنانے کی دعوت بھی دینی تھی۔مگر اسٹیبلشمنٹ محترمہ بے نظیر بھٹو کو یہ پیغا م دینا چاہتی تھی کہ پیپلز پارٹی نے بھلے 10سال جمہوریت کے لئے مصائب جھیلے ہوں اور قربانیاں دی ہوں۔مگر حکومت وہ اُسی صورت میں بنا سکے گی جب اسٹیبلشمنٹ انہیں 24بے ساکھیاں فراہم کرے۔ اُس وقت متحدہ قومی موومنٹ 30اراکین اسمبلی کے اعتبار سے پارلیمنٹ میں تیسری بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی۔یعنی ان کے اراکین کی تعداد 18تھی۔اور یہ ایم کیو ایم وہ تھی کہ جس کے قائد الطا ف حسین تھے۔جن کی مٹھی میں سندھ کے شہری علاقوں کا چیختا ،چنگھاڑتا مینڈیٹ تھا۔محترمہ بے نظیر بھٹو کو حکومت بنانے کے لئے متحدہ کے مرکز نائن زیرو میں حاضری دینی پڑی۔اور ساتھ ہی ایسے 52 نکاتی فارمولے کو قبول کرنا پڑا جس کی تکمیل کے لئے محض ایک مدت نہیں،دو مدتیں بھی کم تھیں۔مگر محترمہ کو ایم کیو ایم کا کڑوا گھونٹ پینا پڑا۔اور پھر ان کی ہی بے ساکھیوں پر وہ سادی اکثریت لے کر صدرغلام اسحاق خان کے سامنے حاضر ہوئیں۔ جن کی شرط یہ تھی کہ صدر تو خیر وہ آئینی طور پر ہیں ہی، مگر وزیر خارجہ بھی ان کے دئیے ہوئے صاحبزادہ یعقوب علی خان ہوں گے۔ اُدھر محض تین دن بعد ہونے والے صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن میں بھی سب سے بڑے صوبے پنجاب میں میاں نواز شریف ’’جاگ پنجابی،جاگ‘‘ کا نعرہ لگا کر پنجاب کے تخت پر بیٹھ چکے تھے۔خیبرپختونخوا میں اُن کے وزیر اعلیٰ آفتاب شیرپاؤ کو بھی بے ساکھیوں کی ضرورت تھی۔بلوچستان میںتوخیر سے ان کے گنتی کے ارکان کامیاب ہوئے تھے۔اس لئے وہاں تو انہیں اپوزیشن میں ہی ہونا تھا۔صرف ایک صوبہ سندھ ہی ایسا تھا جہاں وہ بھاری اکثریت سے اقتدار میں تھیں۔اسٹیبلشمنٹ نے محترمہ کو جس طرح اقتدار دیا، اُسی طرح محض 18ماہ بعد کرسی سے کھینچ کر اتار بھی دیا۔ اس سارے پس منظر کو اگر ذہن میںرکھیں تو کم و بیش جولائی 2018ء میں بھی ایسا ہی سیاسی منظر نامہ سامنے نظر آتا ہے۔۔ ۔ وفاق کاجیسے میں نے ذکر کیا کہ پچھلے ڈیڑھ سال سے ان کے اتحادی خاص طور پر ق لیگ ،متحدہ قومی موومنٹ اورہاں، پگارا لیگ کے انگلیوں میں گنے جانے والے ارکان نے محاورے کی زبان میں ان کا ناطقہ بند کیا ہوا ہے۔سب سے بڑے صوبے پنجاب میں صورتحال یہ ہے کہ تحریک انصاف اور ان کے اتحادیوں کی تعداد 196ہے۔جن میں تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد181۔ جبکہ اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 173ہے۔یوں پی ٹی آئی کو صرف آٹھ ارکان سے اکثریت حاصل ہے۔یہی وجہ ہے کہ ق لیگ جس کے ارکان کی تعداد محض 10ہے۔ ۔ ۔اُس کے چوہدری اٹھتے،بیٹھتے پنجاب میں اُن کی قیاد ت کو آنکھیں دکھا رہے ہوتے ہیں۔ رہاسندھ اور بلوچستان ،تو یہاں پر تحریک انصاف اس پوزیشن میں نہیںکہ نہ تو حکومت بنا سکے اور نہ ہی گراسکے۔ہاں،خیبرپختونخوا ایک ایساصوبہ ہے جہاں اُسے 145میں سے 95نشستیں حاصل ہیں۔اور پھر اسی بھاری اکثریت کے سبب خان صاحب یہاں پر سزا اور جزا کا خوب خوب کھیل کھیل رہے ہیں۔تین وزیروں کونکال کر جس طرح انہوں نے اپنے وزیر اعلیٰ کے خلاف سر اٹھانے والوں کو باہر کیا،اور پھر جس طرح یہ باہر نکالے جانے والے وزراء گھگھیائے ہوئے واپس لوٹے ۔ ۔ ۔ اُس سے کم از کم یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ واحد صوبہ ہے جہاں کے پی حکومت نہ صرف اپنی مدت پوری کرے گی بلکہ اگلی مدت میں بھی اسی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں ہوگی۔ اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر وفاق اور سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اپنے نام نہاد اتحادیوںیعنی بے ساکھیوں کے ساتھ کب تک اقتدار میں رہے گی؟ صاف اور سیدھا جواب تو یہ ہے کہ جب تک اسٹیبلشمنٹ یعنی Game Plannerکا دست ِ شفقت کپتان وزیر اعظم کے سر پر ہے۔ ۔ ۔ سب سے بڑی کپتان کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اسلام آباد کی اسٹیبلشمنٹ ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے اتنی نالاں ہے کہ وہ کسی طور انہیں کوئی رعایت دینے کے لئے تیار نہیں۔ اسی طرح خاں صاحب کے اتحادیوں کی اصل ڈوریں بھی گیم پلانر کے پاس ہیں۔ ۔ ۔ آج جب تحریک انصاف کی حکومت محض ڈیڑھ سال بعد نہ صرف یہ کہ اپنی عوامی مقبولیت کھوچکی ہے ۔بلکہ معاشی میدا ن میںمکمل طور پر ناکام بھی ہوچکی ہے۔تو اس کا سبب یہ ہے کہ خان صاحب کو بھی ہر محاذ پر وہ سارے سمجھوتے کرنے پڑرہے ہیں جو تین دہائی قبل پیپلز پارٹی کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو نے کئے تھے۔ بے ساکھیوں پر کھڑی حکومتوںکے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔