نہیں معلوم منزل ہے کدھر، کِس سمت جاتے ہیں مچا ہے قافلے میں شور، ہم بھی غْل مچاتے ہیں یہ دنیا، عجیب منزل میں ہے۔ بظاہر اِس میں ساری نعمتیں موجود، بلکہ نت نئی ایجادیں سامنے آ رہی ہیں۔ لیکن آخرت کا زاد ِراہ؟ وہ اَور گھٹتا جاتا ہے۔ ایک غول ِبیابانی ہے، جس نے کان پڑی آواز بھی دبا دی ہے۔ مولانا رومی فرماتے ہیں ع ہم دلی از ہم زبانی، بہتر ست لیکن ہم دلی تو کجا، ہم زبانی بھی معدوم ہوئی جاتی ہے۔ دنیا کو راہ ِفنا پر چلنا ہی تھا۔ اس نظریے سے کبھی اتفاق نہیں رہا کہ بزم ِترا عود و گل خستگی ِبو تراب ساز ِترا زیر و بم معرکہ کربلا مگر یہ بات سو فیصد درست ہے کہ جنت بنا سکے گا، ہرگز کوئی نہ اس کو دنیا یونہی رہی ہے، اکبر یونہی رہے گی بقول ِاکبر ہی، دنیا میں آ کر، جس نے سانس بھی لی، وہ دنیا دار ہوا! لیکن دنیا داری بھی تو ایک جیسی نہیں۔ اس کے درجے کئی ہیں۔ مثلا ایسے لوگ جو از سر تا پا، اس میں ڈوبے ہوئے ہیں اور کچھ ایسے، جو حافظ ِشیراز کی زبان میں آشنایان ِرہ ِعشق، درین بحر ِعمیق غرقہ گشتند و نہ گشتند بآب آلودہ یعنی دنیا میں پائے جانے کے باوجود، اپنی جْدی دنیا رکھتے ہیں۔ یا ع رہتے ہیں بتیس دانتوں میں زبانوں کی طرح لیکن انسانوں کی بھاری جمعیت سدا سے، چونکہ عام بھیڑ چال میں چلی آ رہی ہے، عام قاعدہ انہی کا تیار کردہ ہے۔ یہ قاعدہ، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، اَور بگڑتا جا رہا ہے۔ اس گئے گزرے زمانے میں، ہے کوئی جو کہہ سکے کہ دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں ٭٭٭٭٭ آدھا بھرا، آدھا خالی گلاس پچھلے چند روز حالت ِسفر میں کٹے۔ ایک پائوں پاکستان میں رہا اور دوسرا امریکہ میں! نومبر کی چھٹی تاریخ کو، امریکہ میں وسط مدتی انتخابات منعقد ہوئے۔ ان میں حکمران اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جماعت کو آدھی فتح ہوئی اور آدھی شکست! کانگرس ان کے ہاتھ سے نکل کر اپوزیشن کی جماعت ڈیموکریٹ کے قبضے میں آ گئی۔ سینیٹ میں البتہ انہیں فتح حاصل ہوئی۔ وہ اس طرح کہ ایوان ِبالا اب بھی ان کے تصرف میں ہے۔ اس فتح کی بڑی وجہ یہ ہے کہ سینیٹ کی جن ایک تہائی نشستوں پر انتخابات ہوئے، ان میں سے بیشتر ریپبلکنوں کی پکی نشستیں تھیں۔ جن پانچ سات سیٹوں پر معرکے کی جنگ ہو سکتی تھی، وہ ہو کر رہی، مگر "برج الْٹے" نہیں گئے۔ بہرحال، نتیجہ یہ ہے کہ دونوں جماعتیں، خوب بغلیں بجا رہی ہیں۔ ڈیموکریٹ اس لیے کہ دو ہزار دس کے بعد، پہلی مرتبہ، ایوان ِزیریں کا اختیار، ان کے ہاتھ میں ہے۔ اور ریپبلکنز یوں کہ تین قانون ساز اداروں میں سے دو، اب بھی ان کے اقتدار میں ہیں۔ ایسا صدر، جس کا اختیار کم از کم ایک ایوان پر باقی نہ رہے، اکثر "لیم ڈک" یا "لنگڑی بطخ" کہلاتا ہے۔ بیشتر داخلی معاملات میں اس کا حال ع آنکھیں میری، باقی ان کا کا سا رہتا ہے۔ ڈیموکریٹ کوشاں ہیں کہ ٹرمپ کو "لیم ڈک"بنایا جائے۔ یعنی یہ اپنی مقصود اور دل پسند قانون سازی یکسر نہ کر سکیں۔ شیکسپیئر کا کوئی اَور قول باقی نہ رہے، صرف ایک رہ جائے، تو بھی اس کی عظمت ثابت کر دیتا ہے۔ کہہ گیا ہے "یہ دنیا ایک اسٹیج ہے۔ اور اس میں بسنے والے اس کے کردار! اپنا اپنا رول سب کو ادا کرنا ہے اور رخصت ہونا ہے"۔ جس قدر یہاں گہما گہمی ہے، اسی قدر ویرانی ہے۔ سچ کہا غالب نے کہ ع بھرے ہیں جس قدر جام و سبو، مے خانہ خالی ہے! ٭٭٭٭٭ مولانا سمیع الحق مرحوم مولانا سمیع الحق رخصت ہوئے۔ ان کے نظریات سے بحث کا یہ موقع نہیں۔ مگر اس سے انکار کیوں کر ہو کہ اس باب میں وہ بالکل یکسو اور واضح تھے۔ طنزا، انہیں طالبان کا "جد" قرار دیا جاتا رہا۔ لیکن وہ خود اسے دشنام نہیں، طرہ امتیاز سمجھتے تھے۔ کسی استاد نے خوب کہا ہے گالی سے کون خوش ہو، مگر حسن ِاتفاق جو تیری خْو تھی، وہ مرا اب مدعا ہوا پچیس برس پہلے کے، وہ مولانا یاد آتے ہیں، جو ہمارے محلے دار تھے۔ یہ محلہ، اسلام آباد ٹی وی اسٹیشن کے عقب میں، کوئی ڈیڑھ سو فلیٹوں پر مشتمل ہے۔ اب کا حال تو پتا نہیں، بیس پچیس سال پہلے تک، اس میں سے اکثر، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبروں سے آباد تھے۔ پارلیمینٹ ہائوس یہاں سے، انگریزی محاورے کے مصداق، ایک پتھر کی مار کے فاصلے پر واقع ہے۔ ہمارے فلیٹ سے دس پندرہ قدم دور، مولانا سمیع الحق کا فلیٹ تھا۔ مولانا اور والد ِمرحوم اظہر سہیل کے درمیان بڑی بے تکلفی تھی۔ پاکستانی سیاست میں میاں نواز شریف، اْن دنوں ہارس ٹریڈنگ کی تاریخ رقم کر رہے تھے۔ بریف کیس اٹھائے، موصوف اس محلے کے کئی فلیٹوں میں وارد ہوتے نظر آتے۔ اس "کرشماتی" ملاقات کے بعد، بڑے بڑے اڑیل اور اصیل سیاستدان، اگلے روز کینچلی بدل لیتے۔ اور حال وہی ہو جاتا کہ ع پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی ایک روز میاں صاحب، مولانا سے بھی ملنے آئے۔ والد صاحب یہ منظر، گھر کی کھڑکی سے دیکھ رہے تھے۔ ملاقات کے بعد, جیسے ہی میاں صاحب رخصت ہوئے۔ اس سے پہلے کہ مولانا واپس گھر کو پلٹیں، اظہر صاحب نے لپک کر انہیں جا لیا۔ اب اِدھر سے چھیڑ چھاڑ ہو رہی ہے اور اْدھر سے ہنس ہنس کر طرح دی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی کہتے جاتے ہیں "بڑے شرارتی ہو تم"۔ مولانا سے مجھے اپنی آخری ملاقات یاد ہے۔ سن دو ہزار نو میں، پارلیمینٹ ہائوس کے باہر، مولانا نظر پڑے۔ میں نے آگے بڑھ کر تعارف کرایا۔ بڑی شفقت اور محبت سے ملے۔ کئی منٹ پرانے زمانے کی یادیں تازہ کیں۔ باتوں باتوں میں، مَیں نے مجلس ِعمل کے ایک رْکن کی غیر مستقل مزاج کا ذکر کیا۔ مولانا نے جھٹ کہا کہ آپ اْسے روتے ہیں، ان دوسرے صاحب کو دیکھیے، جو رئیس المنافقین ہیں! یہ مولانا سے میری آخری ملاقات تھی۔ ان کی ایک یادگار، میری ذاتی لائبریری میں موجود ہے۔ یہ ان شذروں کا مجموعہ ہے، جو مشاہیر کے انتقال پر، مولانا کے مجلے "الحق" اکوڑہ خٹک میں نکلتے رہے۔ وفیاتی شذروں کی ابتدا، غالبا سید سلیمان ندوی نے، "معارف" میں کی تھی۔ مولانا سمیع الحق نے نصف صدی پرانی، سید صاحب کی سنت کو آگے بڑھایا تھا۔ یہ شذرے لکھنے والا، اب خود ایک شذرے کا عنوان بن گیا۔ کتنی ہی ان کہی داستانیں، ان کے ساتھ رخصت ہوئیں۔ خدا مغفرت کرے۔