ذرا تصور کیجئے کہ کوئی آپ کے سامنے ایک جیتے جاگتے نہتے انسان پر فولادی راڈ مار رہا ہو،آپکے سامنے اچا نک آٹھ دس سفاک انسان کسی پر ٹوٹ پڑیں اسے زمین پر گرالیں اور پھر کوئی اس کا ہاتھ پکڑ لے اور کوئی ا پاؤں،اسے مخالف سمت میں کھینچ کر ادھیڑنے کی کوشش کریںایسے میں ایک انسان نما جانور ہاتھ میں ہتھوڑا لئے اس پر پل پڑے اس کی کہنی گھٹنے اور ہڈیوں پر فولادی ہتھوڑا برساتا چلا جائے ،توآپ کا ردعمل کیا ہوگا ؟؟ بے شک آپ جھگڑے فساد سے کتنے ہی دور رہنے والے ہوں لیکن کیا یہ منظر دیکھ کر آپ چپ رہ سکیں گے ؟میں تو یہاں چپ رہنے پر آپکی انسانیت پر سوال اٹھارہا ہوں زرا سوچئے کہ آپ اس ہجوم میں ہوں جہاںکے دائیں بائیں کھڑے لوگ اور شہہ دے رہے ہوں آوازیں لگا رہے ہوں کہ ’’مار ،مار ملا ہے مار دے۔۔سچ کہئے گا صرف یہ سوچ کر ہی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر سی دوڑ نہیں جاتی؟ یہ سب کچھ دو اگست کو بھار ت کے دارالحکومت نئی دہلی سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر گڑگاؤں نامی گاؤں میں ہوا، لقمان خان نامی مسلمان ٹرک میں بھینس کا گوشت لے کر جارہا تھا کہ اسے بادشاہ پور کے قریب چندنوجوانوں نے روکنے کی کوشش کی ان کے عزائم ٹھیک نہیں لگ رہے تھے اسی لئے لقمان نے ٹرک کی رفتار بڑھادی اور ساتھ ہی اس نے گوشت کے مالک کو فون کرکے ساری صورتحال سے آگاہ کیا ،بتایا کہ وہ لوگ پیچھے لگے ہوئے ہیں میںگاڑی دوڑائے جارہاہوں،گوشت کے مالک نے کہا سیدھا صدر بازار مارکیٹ پہنچ جاؤ،مشورہ دینے والے کا خیال تھا کہ صدر بازار کے پرہجوم علاقے میںٖشائد کچھ بچت ہوجائے لیکن مودی جی کی سرکار میں مسلمانوں کے لئے بچت کہاں؟ کیا گڑگاؤں اور کیا یوپی ،سی پی ہر جگہ انتہا پسند کپڑوں سے باہر آچکے ہیں ،صدر بازار میں ٹرک رکتے ہی وہ غنڈے بھی پہنچ گئے انہوں نے سب سے پہلے ٹرک کے شیشے توڑے پھر اسے کھینچ کر نیچے اتارا اورمارنا شروع کر دیا جس کے ہاتھ میں جو آیا اسے اٹھا کر لقمان پر دے مارا ایک کوکہیں سے ہتھوڑا مل گیا اور وہ نہتے لقمان پر پل پڑا۔ میرے سامنے شدید زخمی لقمان کا وڈیو بیان بھی ہے جس میںاسکے چہرے پر اذیت کی پرچھائیاں ہیں وہ کراہتے ہوئے بمشکل بات کررہا ہے اس سے انٹرویو لینے والی پوچھ رہی ہے کہ کیا وہاں پولیس نہیں تھی ؟ لقمان بتا رہا ہے کہ دو پولیس اہلکار تھے ان میں ایک سردار جی بھی تھا جو آگے بڑھاتو انتہا پسندوں میں سے ایک نے اسے بھی تھپڑ مار کر دور کردیا،لقمان کہتا ہے کہ میںنے ان کی منت کی واسطے دیئے کہ ٹرک میں دیکھ تو لو کہ گوشت کس کا ہے ؟ ٹرک ہی میں بھینس کے سر بھی پڑے ہیں اور گوشت کے ساتھ کھال کے ٹکڑے بھی لگے ہیں اگر یہ گائے کا گوشت ہوا تو پھر بھلے مجھے مار دینالیکن انہیں تسلی کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ لقمان کا اصل جرم مسلمان ’’مسلا‘‘ ہونا اور ہندوؤں کے استھان میں رہناتھا ،یہاںایک بات اور اہم ہے لقمان سے سوال ہوا کہ وہاں اتنی بھیڑ تھی کسی نے بچانے کی کوشش نہیں کی ؟جواب بٹوارے کے خلاف ایک ہندوستان کی نگریسی فکر کے سوچ والے پاکستانیوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ ویڈیو میں لقمان نے کراہتے ہوئے بتایا کہ لوگ تو اور کہہ رہے تھے اور مارواور مارو مسلمان ہے ۔مشتعل ہجوم نے طبیعت سے مار پیٹ کرلقمان کو ادھ موا کیا اور اسے کہا کہ جے شری رام کا نعرہ لگاؤ،لقمان نے کہا کہ وہ اسے شمشان گھاٹ لے جا کر زندہ جلانا چاہتے تھے لیکن ان ہی میں سے کسی نے مشورہ دیا کہ بس بہت ہوگیا اب نکلو جس پر اسے چلتی گاڑی سے پھینک دیا گیا ،لقمان خان بتاتا ہے کہ واقعے کی اطلاع ملنے پر علاقے سے چناؤ جیتنے والا ایم ایل اے بھی آیاتھا اس نے گاڑی کا معائنہ کیا کہ سچ میں بھینس ہی کا گوشت ہے ناں اپنی تسلی کے بعد اس نے لقمان کو دیکھنابھی گوارہ نہ کیا اور پلٹ گیا۔ انتہاپسند جنونی ہندوؤں کے ہاتھوں بری طرح گھائل ہونے والا لقمان خان کو ان معنوں میں خوش نصیب کہا جا سکتا ہے وہ بچ گیااگرچہ کہ اب وہ ایک طویل عرصے کے لئے چارپائی سے لگ چکا ہے اور اس واقعے کے نفسیاتی اثرات سے وہ شائد ہی کبھی نکل سکے ،بھارت میں اقلیتوں اور خاص کر مسلمانوں کے ساتھ یہ سلوک نیا نہیں ہے ہاں اس میں جو تیزی اب دکھائی دے رہی ہے وہ پہلے نہیں تھی ،انتہاپسندجنونیوں کی بھارتیہ جنتا پارٹی سرکار کے بعد جے شری رام کے نعرے لگا کر مسلمانوں پر پل پڑنے انہیں زندہ جلانے، مار کر لاشیں لٹکا دینے ،سڑکوں چوراہوں پر سریوں ڈنڈوں سے سر پھاڑ کر بھیجہ نکال دینے کے واقعات میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے ،بھارت میں ہجوم کے پرتشدد واقعات پر نظر رکھنے والی thequint.com کے مطابق2015 ء سے اب تک 113افراد ہجومی تشدد میں قتل کئے جاچکے ہیں مذہب کی بنیاد پر نفرت کے جرائم کی تعداد الگ ہے ان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے ۔ ہندوستان اس تیزی سے ہندو انتہا پسندی کے بھگوا رنگ میںرنگتا جارہا ہے کہ اب خود بھارت کی سول سوسائٹی ہی میںسے اسکے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں ،سمجھ دار لوگ جانتے ہیں کہ کچھ بھی ہوجائے وہ ہندوستان کی اقلیتوں کو اٹھا کر سمندر برد نہیں کر سکتے یہ انتہاپسندی وہ اژدھا ہے جس نے پلٹ کر ہندوؤں کی طرف لپکنا ہے ،ذات پات اونچ نیچ میں بٹے ہندواسکا نشانہ ہوں گے،اس خطرے کو بھانپتے ہوئے اگربھارتی مصنفہ ارون دھتی یہ کہتی ہیںکہ بھارت میں اصل امتحان بھوک اور نفرت کا ہے تو غلط نہیں ہے ۔غربت بھارت کا بہت بڑا مسئلہ ہے یہ وہ دیس ہے جس کی کروڑوںآبادی کو بیت الخلاء تک میسر نہیں حال یہ ہے کہ مودی بھارتیوں کے لئے ایک کروڑ دس لاکھ لیٹرین بنانے کے عزم کا اظہار کر رہا ہے لیکن جو غلاظت جنونی ہندوؤں کے دماغوں میں بھری ہے جس تعفن کے بھپکے ان کی سوچ سے اٹھ رہے ہیں اور جو گندگی ان کی زبان پر دھری رہتی ہے اسکی صفائی کیسے ہوگی ؟ مودی جی تو ایسا کبھی نہیں کریں گے یہ گندگی تو ان کے لئے بڑی مقدس ہے کہ یہی تو انہیں گجرات سے اٹھا کرنئی دہلی تک لائی ہے بے شک بیچاری ارون دھتی چیختی چلاتی کڑھتی رہی کہ اب تو بھارت کو مہان کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے !