بڑے لوگ وہ نہیں ہوتے جو دوسروں کو چھوٹا سمجھتے ہیں بلکہ بڑے لوگ وہ ہیں جن میں دوسروں کی بڑائی تسلیم کرنے کا حوصلہ ہوتا ہے۔ بڑا آدمی اپنے رویے سے پہچانا جاتا ہے کہ اس کے ذہن دل میں کشادگی ہوتی ہے اور سوچ میں وسعت، حمید حسین نے نشست میں حضرت معین الدین نظامی کے حوالے سے نہایت دلچسپ اور قیمتی باتیں کیں۔ کہنے لگے کہ ان کے معاصرین میں حضرت ضیاء الدین جیسے جید عالم بھی تھے جو وقتاً فوقتاً حضرت نظام الدین اولیا کی بعض معاملات میں گرفت فرماتے رہتے۔ ایک روز جب حضرت نظام الدین اولیا کو معلوم ہوا کہ حضرت ضیاء الدین بہت بیمار ہیں تو مریدین سے فرمایا کہ آج حضرت ضیاء الدین کی تیمار داری کو چلنا ہے۔ مریدین حیران ہوئے مگر حکم تھا۔ جب حضرت ضیاء الدین کو علم ہوا کہ باہر حضرت نظام الدین آئے ہیں تو کہلوا بھیجا کہ ہم ان کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ حضرت نظام الدین اولیا نے پیغام بھیجا کہ ’’ہم توبہ کرکے آئے ہیں۔‘‘ حضرت ضیاء الدین نے کہا پھر یہ میری پگڑی لو ان کے راستے میں بچھا دو کہ اس پر چل کر آئیں۔ پگڑی بچھائی گئی۔ حضرت نظام الدین اولیا پگڑی کو اٹھا کر آنکھوں کو لگاتے ہوئے اندر آئے۔ حضرت ضیاء الدین نے برجستہ حافظ کا شعر پڑھا: آنان کہ خاک را بنظر کیمیا کنند آیا بود کہ گوشہ چشم بما کنند سبحان اللہ کیا وضعداری اور محبت ہے۔ یعنی ایسے کہ جو اپنی نظر سے خاک کو سونا بنا دیتے ہو۔ کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ ایک نظر ہم پر بھی ڈال دیں۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو احترام دینے والے اور مراتب و مقام سے واقف تھے۔ یہ بھی تو آپ کو یاد ہوگا کہ مولانا اشرف علی تھانوی نے اعلیٰ حضرت رضا خان بریلوی کے وصال پر اپنے ہاں باقاعدہ دعا کروائی اور کسی کے پوچھنے پر کہا کہ اعلیٰ حضرت کا مقام آپ نہیں سمجھتے۔ کہنا میں یہ چاہتا ہوں تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے۔ اپنے اندر کشادگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اہل نظر سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ حمید حسین نے اس ضمن میں مولانا روم کا شعر پڑھا تھا: آدمی دید است باقی پوست دید آن باشد کے دید دوست کیا کمال بات ہے کہ اصل چیز ہی دید یعنی اس کی آنکھ ہے اور پھر آنکھ بھی وہ جو دوست کا نظارہ کرے۔ یعنی زندگی کا حاصل حصول ہی یہی ہے۔ وہی کہ میں ہوں بس ایک عنایت کی نظر ہونے تک۔ ویسے وہ نظر بھی تو ہے جو کبھی بزرگ ڈالا کرتے تھے اور زندگیاں بدل دیا کرتے تھے۔ بعض شعر تو ایسے ہوتے ہیں جن کی روشنی آنکھوں سے دل میں اتر آتی ہیں یعنی روح و بدن سرشار ہو جاتے ہیں۔ علی الصبح سیر کرتے ہوئے ہمارے دوست خضر یاسین نے بتایا کہ اقبال کے کلام کو دیکھتے ہوئے ایک شعر نے انہیں ایسا گرفت میں لیا کہ وہ اس سے نکل نہیں سکے۔ واقعتاً جب میں نے وہ شعر سنا تو بے ساختہ واہ واہ کر اٹھا اور اقبال حکیمانہ نظر اور ذہن رسا کا مزہ لیا۔ یہ اقبال ہی کا حصہ ہے: تو برنخل کلیمے بے محابہ شعلہ می ریزد تو برشمع یتیمے صورت پروانہ می آئی سبحان اللہ کیا کہنے: اقبال فرماتے ہیں کہ موسیٰ علیہ السلام تیرے کلیم تھے، کلام کرتے تھے۔ انہوں نے جلوہ مانگا تو نے شعلہ ریزی کی۔ طور ہی جلا دیا لیکن جب حضور کریم ﷺ کا معاملہ ہوتا ہے تو تیرا جمال جاگتا ہے۔ جب حضورؐ یتیم تھے تو کتنا مہربان ہو گیا۔ اپنی اس شمع پر پروانہ بن کر آیا۔ گویا اپنے محبوب کے حسن پر تو خود ہی عاشق ہوگیا۔ حضورؐ کا معاملہ ہی اور ہے کہ وہ وجہ تخلیق کائنات ہیں اور تمام عالم کے لیے رحمت ہیں۔ بات ہورہی تھی بڑے پن کی۔ برداشت اور وضعداری کی لیکن درمیان میں مجھے جانے کیوں خیال آیا کہ اچھا شعر آپ کے ساتھ شیئر کرلوں۔ میرے ماموں ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی مرحوم نے مجھے ایک واقعہ مولانا انور کاشمیری کا بھی سنایا تھا۔ یہ وہی انور کاشمیری ہیں جن سے اقبال بے حد متاثر تھے اور انہوں نے قادینیت کے خلاف بہاولپور کا مقدمہ جیتا تھا۔ جب وہ لاہور میں مولانا احمد علی لاہوری کے پاس آئے تو شرقپور شریف سے حضرت شیر محمد نے انہیں دعوت قیام دی۔ سب لوگ انہیں چھیڑنے لگے کہ اب پتہ چلے گا؟ شرقپور شریف سے سواری آئی اور مولانا انور کاشمیری کو لے گئی۔ حضرت نے شرقپور شریف میں ایک یا دو رات قیام کیا۔ واپس آئے تو سرشدت سے منتظر تھے اور سب ان سے قیام کی کارگزاری پوچھنے لگے۔ مولانا انور کاشمیری نے مختصر جواب دیا کہ حضرت شیر محمد عارف باللہ ہیں۔ یعنی اللہ کو جانتے ہیں۔ کسی نے امام بن حنبل سے بھی تو کہا تھا کہ آپ امام وقت ہیں اور آپ بشرے حافی سے ملنے جاتے ہیں۔ وہ ایک مجذوب ہے اور ننگے پائوں گھومتا پھرتا ہے۔ تب حضرت امام حنبل نے کہا تھا کہ وہ اللہ کا کلام جانتے ہیں جو اپنے شاگردوں کو پڑھاتے اور سمجھاتے ہیں مگر وہ مجذوب جسے بشرے حافی کہتے ہیں اللہ کو جانتا ہے۔ ساری بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اپنے اکابرین سے کچھ سیکھیں اور اپنے اپنے تعصبات بھلا کر ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ سب کا اپنا اپنا انداز ہے بنیادی طور پر منزل تو وہی اللہ اور اس کا پیارا رسولؐ ہے۔ قرآن تو پتھر پر لکیر ہے۔ جب اللہ نے کہہ دیا کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو حضور کریمؐ کی اطاعت کرو، اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا۔ شرط تو اطاعت رسولؐ ہی ہے۔ چھوٹے چھوٹے فروعی مسائل کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔ مسلمانوں کی یکجہتی وقت کی ضرورت ہے۔ ’’کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک‘‘۔ اقبال تو اسی تفرقہ بندی کا نوحہ پڑھتے رہے۔ اسلام تو ذات پات اور ایسے ہر امتیاز کو مٹانے آیا جو انسانوں میں تفریق کرے۔ وہی کہ ’’تم سبھی کچھ ہو بتائو کہ مسلمان بھی ہو۔‘‘ جو بھی امت مسلمہ کو یکجہتی کے لیے کوشش کرے گا اور اپنی انا کو منہا کردے گا اصل میں وہی مسلمانوں کا محسن ہوگا۔ میں یونہی بیٹھا سوچنے لگا کہ ہم صبح و شام اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی فکر میں رہتے ہیں۔ وہ لوگ عظیم ہیں جو دوسروں کی فکر کرتے ہیں۔ یہی بڑے لوگ ہوتے ہیں۔ جب وہ دوسروں کی فکر کرتے ہیں تو اللہ دوسروں کے دلوں میں ان کی محبت ڈال دیتا ہے۔ لوگ دنیا میں ہیں بس وہ اچھے کام آتے ہیں جو دوسروں کے۔ ایک شعر کے ساتھ اجازت چاہوں گا: اے شب اگہی ستارے چن بام روشن میں ماہتاب کے ساتھ