قومیں حالت جنگ میں حوصلوں کے سہارے سربلند ہوتی ہیں اور وقت کی ڈوری کو اپنے دست توانا میں مضبوطی سے تھامے رکھتی ہیں ہم بہرحال زندہ قوم ہیں‘ پائندہ قوم ہیں۔ قوم ‘ ملک‘ سلطنت کا حقیقی اثاثہ تو وہ عوام ہیں جوہر نازک موڑ پر اپنا سرمایہ حیات وطن پر نچھاور کرتے اور ہر سچی بات کو پسند کرتے ہیں صداقت کا ساتھ دینے کے لیے آمادہ کار رہتے ہیں اگر کوئی مدعی خیانت کا ارتکاب کرے تو وہ نالاں ہو جاتے ہیں۔ اپنی ہمت اور زور کو تبدیلی کے لیے آزماتے ہیں یہی انداز ایثار ان کو امیدوں کی کرن کا منتظر رکھتا ہے۔اب حالات بہت دگرگوں ہیں۔ قومی خدمات کے اعلیٰ ادارے ایک تسلسل کے ساتھ قومی مفادات کے لیے ایثار پیشہ بن کر اصلاح احوال کی کوشش کر رہے ہیں‘ وہ پابند ادارے ہیں ۔ان کے دائرہ کار کی ایک محدود وسعت ہے ‘وہ ہر طرح کے نشیب و فراز سے گزر کر قومی مفادات کے تحفظ کے لیے مائل بہ جہاد رہتے ہیں۔ دوسری جانب ہماری سیاسی حکومتیں اور ان کے سیاسی کارکنان اپنے طے شدہ راستوں پر اس طرح گامزن رہتے ہیں کہ ان کا استحصال مربوط نظام عوام الناس کو اپنے مخصوص مفادات کے لیے جگاتا ہے متحرک کرتا ہے اور ان کی قوت کو اپنے اقتدار کی سیڑھی بنا کر خود بام اقتدار پر اپنا تخت بچھانے کے بعد سیڑھی کو دھکا دیتا ہے‘ سیڑھی کے انجر پنجر ٹوٹ جاتے ہیں اور پھر بام بلند سے یہ طفیلی حکمران اپنی دانست میں وہ احکامات جاری کرتے ہیں جو ان کے نزدیک فلاحی ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں عوام کے لیے جانکاہی ثابت ہوتے ہیں ۔قوم کی فلاح کے اہداف بالکل واضح ہیں ۔وہ یہ کہ یہ ملک ایک اسلامی نظریاتی ملک ہے اور اسلامی نظریاتی ملک میں اول وآخر فلاح دنیا اور فلاح آخرت کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اب بہت زیادہ توجہ کی ضرورت ہے کہ ہم دیکھیں کہ روایتی اور انتخابی سیاستدان اب نظریہ وطن اور فلاح عوام کے کسی منشور کو اپنے سامنے رکھے ہوئے ہیں ہر سیاستدان دوسرے سیاستدان پر پارٹی کا سربراہ اور ذمہ داران دوسروں پر جھوٹ ‘بہتان ‘ خیانت اور نالائقی و نااہلی کا الزام مسلسل لگا رہے ہیں اور بعض اوقات کچھ ثبوتوں کے ساتھ وہ ان الزامات کو عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ انتخابی مہم سچی اور حقیقی فلاح کے لیے عوام بیداری کی مہم ہے یا چوروں‘ ڈاکوئوں اور خائن ذمہ داروں کے تعارف کی مہم ہے اس پوری مہم کا سنجیدہ تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ چور‘ ڈاکو‘ خائن اور مکار لوگ میدان سیاست میں ہیں اور انہوں نے مروجہ انتخابی مہم کو ایک دوسرے کے تعارف کے لیے مختص کر دیا ہے کچھ اپنی زبانی غیروں کے سیاہ کرتوت بتایا کرتے ہیں اور کچھ زبان دار اور کچھ قلم بردار لوگوں کی معاونت حاصل ہوتی ہے۔ شام کو زبان دار اپنا حق خدمت ادا کرتے ہیں اور فرشتوں کا ماحول بناتے ہیں اور پھر حق خدمت ذرا بھاری میسر آ جائے تو شیطان نگر کی بھی ہر ادائے ظالمانہ سے باخبر کرتے ہیں۔ صبح ہوتی ہے تو اخبارات میں ہر متعلقہ حمایت کار اپنے فرائض خدمتی ادا کرتا نظر آتا ہے بہت سے ایسے قصیدہ نگار ہوتے ہیں کہ ان کا تمام تر ادبی ذوق اسی خوشامد پر نچھاور ہوتا ہے جس خوشامد پر انہیں دنیا کے خوابوں کی تعبیر نظر آتی ہے۔ ایک مسئلہ تو ناقابل حل ہے کہ چور اپنی کمین گاہ بدلتے رہتے ہیں اور ان کو سہارا دینے والے دھڑلے سے اپنی معصوم نفاست کے ساتھ سہارا دیا کرتے ہیں۔ پاکستان میں قومی فلاحی دعویداروں نے ایک دوسرے کے پول کھولنے کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس سے عوام کو کچھ خبرداری نصیب ہوتی ہے لیکن پریشانی بڑھتی جا رہی ہے اور عوام سوچتے ہیں کہ کیا ہمارا مقدر ایسی ایسی سیاسی قیادتیں ہیں جو دینی‘ اخلاقی اور قومی آداب سے یکسر نابلد ہیں جن موضوعات پر گفتگو ہوتی ہے اس کا کوئی تعلق فلاح ریاست اور فلاح عوام سے نہیں ہوتا۔ گزشتہ ادوار کے مقتدر اب تھڑا اور دھڑا بدل کر ناصحین اور صالحین میں شامل ہو رہے ہیں وہ ادھر گرے یا ادھر گرے‘ منہ سوئے میخانہ ہی ہو گا۔ عوام کا مسئلہ اقتدار نہیں ہے سیاستدانوں کا قبلہ اقتدار ہے ۔ سیاستدان فلاح کا نعرہ لگا کر اپنی ذات اپنی نسل اور اپنے قبیلے کو فلاح کی کشتی میں سوار کرتے ہیں۔ بے چارے عوام پھر پانچ سال کے لیے ساحل پر کھڑے مایوس فضائوں میں کسی نئی کشتی کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ اگلے پانچ سال بعد وہ پرانی کشتی نئے جھنڈے نئے رنگ اور نئی آرائش کے ساتھ نمودار ہوتی ہے ملاح لباس اور آواز بدل کر نئے انداز سے جلوہ گری کرتا ہے۔ عوام پرانے حربہ کاروں کو امید نو کا نام دے کر پھر خوشیاں تلاش کرتے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کشتی اور ملاح کی ایک کمپنی ہے جس کمپنی کا مالک بیرون ملک رہتا ہے اور پورے کھیل کا ہدایت کار اور سہولت کار بھی بیرونی منڈیوں سے سازباز رکھتے ہیں اور بدقسمتی یہ کہ کچھ منڈیاں پاکستان کے دشمن ممالک میں بھی موجود ہیں۔ اب ایک نعرہ اور فلاح کا ہے اور وہ نعرہ ایک مرتبہ چالیس سال پہلے فلاح و نجات کے نام پر لگا تھا۔پھر نجانے بیرونی منڈیوں کے بین الاقوامی سازش کاروں نے محراب و منبر کو بدنام کرنے کے لیے کیا پتہ کھیلا کہ قیام امن و اخوت کے مراکز مذہبی تفریق اور تفرقہ کی تبلیغ کے مراکز میں بدل گئے۔ اسلام نافذ کرنے والے افراد جماعتیں اور تنظیمیں مسلک پرستی کے فروغ پر اس قدر زیادہ مصروف ہو گئیں کہ عوام میں مذہبی یکجہتی کے رویے عنقا ہو گئے اور نظریہ دین پر قائم ہونے والے ملک میں مذہبی خانہ جنگی کے آثار نمودار ہوئے اور بیرونی دشمنوں نے مذہبی اداروں میں اتحاد واتفاق کے فقدان کا پورا فائدہ اٹھایا اور مذہبی مراکز کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کیلئے مسلکی جنون کو ایندھن بنا کر استعمال کیا اور دینی خیالات والے لوگ پریشان کہ ان کو کوئی متفقہ دینی قیادت کا بڑا اور بہت ہی بڑا خلا نظر آتا ہے اس لیے مقاصد دین اور مقاصد فلاح ریاست کی تکمیل تقریباً ناممکن نظر آتی ہے۔ مذہبی قیادت کے اکثر دعویدار اپنے اپنے مسلکی حلقوں کی نیابت کرتے ہوئے اسلام کے نعرے پر الیکشن لڑ رہے ہیں ۔ہاں البتہ ایک وقتی اتحاد بھی ہے ۔جو وقتی طور پر قائم ہوتا ہے اور وقتی طور پر ٹوٹ جاتا ہے۔یہ اتحادی اپنے اپنے خوش کن انداز میں ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے اظہار یکجہتی کرتے ہیں اور اپنے مسلکی و تنظیمی مراکز میں لوٹ کر اپنے شکوئوں کے انبار اپنے احباب کی مجلس خاص میں لگایا کرتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے عہد کو مذہبی اتحادیوں کے لیے دور سعود سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ پھر نجانے ایک دوسرے سے کیوں خفا ہو گئے۔ الیکشن میں اکیلے اکیلے حصہ لیا‘ ایک پارٹی ایک صوبے میں ایک پارٹی کی حلیف بن گئی دونوں پارٹیاں ہی اپنے اکابر سے غیر مشروط محبت کی اسیر تھیں بالکل ایک دن میں فی الفور نفاذ نظام مصطفی ؐ کا اعلان کرتی ہیں۔ پرانا تجربہ یہ ہے کہ یہ پارٹیاں نافذ تو کچھ نہیں کرتیں البتہ احباب کو مالی طور پر خوب مضبوط کرتی ہے۔ اب پھر متفق ہیں۔ کسی زمانے میں ایک اہم مذہبی پارٹی عمران خان کی کشتی میں سوار اقتدار کے مزے لوٹ رہی تھی۔منشور تو بڑے دعوئوں سے بھرے ہیں لیکن حقیقت تو کچھ اور ہے‘ اگر الیکشن کے بعد ایک دوسرے کی ضرورت پڑی تو تمام صالحین اور تمام فاسقین نظریہ ضرورت کو صدائے آسمانی قرار دے کر ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اظہار یکجہتی کریں گے۔مشکوک کمائی سے تعمیر کی گئی عمارتوں میں شیطان اپنا چیمبر ضرور مخصوص رکھتا ہے۔ اور ظالمین کے دستر خوان سے تنور شکم کو گرم کرنے والے لوگ کبھی بھی نہ مصلح ہو سکتے ہیں اور نہ ہی فلاح کے علمبردار ہو سکتے ہیں انہیں قوم کی فکر چھوڑ کر اپنی فکر کرنا بہت ضروری ہے۔