ڈیپریشن سے بچانے کے لئے کرونا کا ذکر موقوف کرتے ہوئے میجر(ر)آفتاب احمد کی کتاب ’’ہارن کھیڈ فقیرا‘‘ کے چند صفحات قارئین کے ذوق سلیم کی نذر‘ جنرل ضیاء الحق کے اسیر نے بے نظیر بھٹو کے عہد میں اپنی اسیری کا ذکر کیا ہے‘ لکھتے ہیں‘‘ ’’5جنوری 1994ء کو پاکستان کے پھانسی پانے والے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ کے روز اس کے گھر پہ سندھ پولیس کے وحشیانہ حملے کے نتیجے میں گرفتار بلاہونے کے بعد میں اور میرے گیارہ ساتھی اسیر اب بدنام زمانہ سکھر جیل کی بھٹائی وارڈ میں بند تھے۔ گزشتہ کئی ماہ لاڑکانہ جیل میں اسیری کسی عذاب سے کم نہ رہی تھی۔ منتقم مزاج اور اذیت پسند وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی خوشنودی کے حصول کے لئے ہم گیارہ قیدیوں کو وہاں 10X8فٹ کی ایک ہی کھولی میں بند کیا گیا تھا۔ کھولی کے ایک کونے میں بے درو دیوار کے ایک بیت الخلا کا کھلا تھڑا بھی تھا جس کی وجہ سے ہم سب کو سونے‘ جاگنے اور اٹھنے بیٹھنے کے لئے فی کس ایک فٹ کی پٹی بھی حاصل نہ تھی۔ ہاتھ منہ دھونے اور طہارت کے لئے تندور کی کلو بھر راکھ اور پینے کے لئے موہنجودڑو کے کھنڈرات سے نکالا گیا کوئی گھڑا اور پیالہ جو جنگلے کے باہر رکھے تھے۔ یہ مال و متاع بے نظیر بھٹو جیسے ہی روشن خیال اور فراخ دل جیلر کی عنایات خسروانہ کا ثبوت تھا۔ سپرنٹنڈنٹ جلال مری تھے جنہیں پورا سندھ خوف و دہشت کے عالم میں جلاد مری کے پرجلال نام سے یاد کرتا تھا۔ جو کچھ ہم بیسویں صدی کے 9ویں عشرے کے دوران لاڑکانہ میں دیکھ رہے تھے اگر اس کا حال اسی صدی کی تیسری چوتھی دہائیوں کے اسیر کانگرسی‘ سرخ پوش اور احراری حریت پسند جان پاتے تو انگریز کو کوسنا ممنوع قرار دے دیتے۔ سوراج کے حصول کے بعد ایسے کالوں کو اقتدار ملنے کا تصور ان کی سوچ اور جدوجہد کے زاویوں کو بدل کے رکھ دیتا‘ جنہیں وہ اپنا وارث قرار دیتے ہوئے آزادی جو انہوں نے لڑ بھڑ کے حاصل کی عالی نسب وارث اسے سالم نگل گئے۔‘‘ ’’سائیں کچھ کرو‘ ہم مارے گئے‘ ہمیں بچا لو‘ بی بی کی کھولی میں خون نہیں بہنا چاہیے‘‘احاطے میں نو واردبات بات پر ہاتھ جوڑتے اپنے زخموں کے بجائے بی بی کی کھولی کی بے حرمتی کی دہائی دے رہے تھے۔’’بی بی کی کھولی کیا کعبے کا حصہ ہے؟‘‘ علی گل نے غصے سے پوچھا‘‘ دیکھتے نہیں ہو ہر جگہ خون بہہ رہا ہے۔ بھٹو کے گھر بھی*اور ذمہ دار بی بی ہی ہے‘‘ بھگیو نے اضافہ کیا۔’’سائیں مقدس تو ہے۔ وہ زرداری کی زال (زن) لیکن ہمارے لئے تو بُھٹےؔ کی بیٹی ہے ناں‘‘ مظلوموں کے قاصد نے علی گل کاغصہ دور کرنے کے لئے ایک بار پھر اس کے پائوں پکڑتے ہوئے کہا تھا۔ یہ کیسے لوگ تھے محبت اور وفا کے پتلے‘ مجھے اس روز خیال آیا تھا۔ بھٹو انھیں چند نعرے اور وعدۂ فردا دے کر چلا گیا تھا لیکن ان کے جسم و جاں اس کے ذکر سے بندھ گئے تھے۔ بُھٹےؔ کی بیٹی نے ’تحریک بحالی جمہوریت‘ کے دوران شاید 1981ء میں چند ہفتے سکھر جیل میں گزارے تھے۔ اگرچہ وہ ہمیشہ شاکی ہی رہے لیکن 1994ء میں میری ان کی وارڈن غلام فاطمہ سے ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے آگرہ کے شاہی قفس جیسے اس شاہ جہانی انتظام و انصرام کے بارے میں بتایا جو ان کے لئے جیل کی اس تازہ قلعی کی گئی بیرک میں مہیا کیا گیا تھا۔ اس میں کھانے اور پینے کی ہر سہولت اسی طرح پیدا کی گئی جیسے وہ ریاستی مہمان خانے میں ہو سکتی تھی۔ مغرب اور مشرق کے مشروب اور کچھ مزید جو وہ چاہتیں۔ ہاں لال قلعے کے اسیر شاہ جہان کو تعلیم کے لئے اورنگزیب کی طرف سے بچے نہ بھیجنے کا جو گلہ تھا وہ سکھر جیل کی مہمان کو بھی ہو سکتا تھا۔ مغل کو بیٹے نے معزول کیا تھا اور اسیری میں اسے بچوں کا دربار لگانے کا شوق آچرایا۔ بُھٹےؔ کی بیٹی ماں کو معزول کر کے برسر اقتدار آئی تھی‘ اسے اپنے بچے نہلانے‘ کھلانے پلانے والے فرحت اللہ بابر‘ اعتزاز احسن‘ این ڈی خان‘ رضا ربانی‘ رخسانہ بنگش‘ جہانگیر بدر اور ناہید خان کی ضرورت تھی جو سرتسلیم خم‘ دست بستہ ہمہ تن گوش صبح سے شام اور شام سے صبح کرتے۔ مغل بادشاہ بچوں کی حسرت دل میں لیے چل بسا‘ لاڑکانہ کی شہزادی لیکن امید سے رہی جو برآتی‘ آصفہ ‘ بختاور اور ولی عہد بلاول بھٹو زرداری ماں کے ساتھ ہی رہے۔‘‘ ’’معروف میزبان ‘‘جنرل ضیاء الحق کے زیر سایہ انتظامیہ نے ’بی بی‘ کو رات کے اندھیرے دور کرنے کے لئے لیمپ اور قمقمے ‘ دن کی روشنی کے خلاف دبیز پردے‘ بے خبری کے خوف کو دور کرنے کے لئے درجن بھر اخبار اور جرائد‘ گرمی کو پرے رکھنے کے لئے اضافی پنکھے‘ کولر اور برف کے بلاک اور خدمت کے لئے پجاری مشقتنوں کی فوج مہیا کئے رکھی تھی لیکن اب جب وہ خود ضیاء الحق کی کرسی پر تھیں ان کی(سابقہ) بیرک ان کی(سابقہ) کھولی میں انہی کے زیر سایہ بے لباس ننگ دھڑنگ اسیروں کا خون بہہ رہا تھا۔‘‘ ’’بھٹائی وارڈ میں ہم گیارہ اسیر بھوک ہڑتال پر نکلے۔ دو روز تک انتظامیہ کی طرف سے کوئی فرد ہم سے ملنے آیا نہ ’سرکاری‘طور پر مطالبات کی کوئی فہرست مانگی گئی۔ سکھر جیل کا سپرنٹنڈنٹ اپنی شہرت کو داغدار نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ہم سے کوئی رابطہ اس کی پسپائی اور توہین کے مترادف ہوتا۔ تیسری صبح ہیڈ وارڈ کے سامنے ہم نے پانی کے گھڑے توڑنے کا اعلان کیا اور آٹھ دس گھڑے اور مٹکے ہر کھولی کے سامنے ہلکی توپوں کی بوچھاڑ کی طرح دھڑام دھڑام چکنا چور ہوئے۔ پانی پیا جا سکتا تھا لیکن انتظامیہ کی بے حسی اور تکبّر ہمیں اگلی منزل پر لے آیا تھا اور نتیجتاً انہیں پسپائی کی اس راہ پہ جسے اس لمحے بظاہر قیدی خود یا انتظامیہ‘ کوئی بھی تسلیم کرنے کو تیار نہ ہوتا۔‘‘ ’’ہائی کورٹ کے لاتعداد حکم ناموں کو ٹھکرانے کے بعد بالآخر ایک روز مجھے سکھر کے سول ہسپتال بھیج دیا گیا۔ درد سے میں دوہرا ہو رہا تھا لیکن متعلقہ سینئر ڈاکٹر نے کہا’آپ کو کوئی اور تکلیف نہیں صرف ’ڈیپریشن‘ کا شکارہیں۔تشخیص کا نتیجہ آیا تو ایک نوجوان ڈاکٹر جتوئی نے جو دوسروں کی طرح مرتضیٰ بھٹو کا چاہنے والا تھا پولیس کو کیک اور مٹھائی کے ڈھیر پہ بے لگام کرتے ہوئے علیحدگی میں مجھے بتایا کہ علاج نہ ہوا تو آپ کا بایاں گردہ بہت جلد ناکارہ ہو جائے گا۔’’میں علاج کے لئے ہی تو آیا تھا‘‘ میں نے حیرانی کے عالم میں اسے کہا’’لیکن ہمیں سندھ حکومت کی طرف سے حکم آیا ہے کہ آپ کو مکمل صحت یابی کی چٹ دینی ہے تاکہ ہائی کورٹ کو مطمئن کیا جا سکے۔ چٹ کی ایک کاپی یقیناوزیر اعظم کو بھی جائے گی‘ وہ مسکرایا۔‘‘ ’’انہیں آپ کی صحت بارے ضرور تشویش ہو گی‘‘ کنسلٹنٹ فزیشن نے جو اپنی شہرت کے عین مطابق اس بدقسمت صبح بھی حلوے پوری کے بجائے اپنی تند خو بیگم سے گالیاں کھا کر ہی ہسپتال پہنچا ہو گا ‘مریض کو ڈیپریشن کا شکار قرار دے کر فارغ کر دیا تھا اور نوجوان ڈاکٹر ’انسان دوست‘وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی اپنے اسیر پہ ’شفقت‘ کے ذکر سے غیر معمولی لطف اٹھا رہا تھا۔‘‘