سر تو کٹ جائیں گے پر شوق نمو بولے گا دست قاتل پہ شہیدوں کا لہو بولے گا تو بھی خاموش رہا شہر کے برجوں کی طرح میں تو سمجھا تھا مرے یار کہ تو بولے گا آج 27دسمبر کا وہ لمحہ یاد آ گیا جس نے سب کو دہلا کر رکھ دیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو کے ریفرنس پر مجھے بھی بلایا گیا وہ منظر مجھے یاد ہے جب ناہید خاں، جہانگیر بدر اور دوسرے جیالے ہمارے سامنے براجمان تھے۔ تعزیتی ریفرنس کی صدارت محترم اسلم گورداسپوری فرما رہے تھے وہ بھی دسمبر کی یخ بستہ شام تھی آج تو دھند نے موسم اور بھی دھندلا دیا ہے۔ تب بھی پورا ملک ایک عجب سی اداسی میں تھا۔میں نے محترمہ کیلئے دو غزلیں کہیں تھیں مگر جب میں ایک ایسے شعر پر پہنچا کہ جس میں درپردہ میں نے شہادت کی وجہ تلاش کی تھی، جہانگیر بدر بے ساختہ انداز میں اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور مجھے وہ شعر بار بار پڑھنے کو کہا اور اسلم گورداسپوری سے مخاطب ہو کر کہنے لگے۔ سنو گورداسپوری! ہماری بی بی کیسے ماری گئی ہے۔ وہ شعر تھا: خود مصنف نے اسے لاکے کہیں مار دیا ایک کردار جو کردار سے آگے نکلا یقینا میں جیالا نہیں مگر اس موت نے ہمارے بھی دل پگھلا دئیے تھے اتفاق یہ کہ میں نے محترمہ کی آخری تقریر سنی تھی جس میں وہ مشرف سے سارے عہد و پیما بھول کر عوام کی زبان بولنے لگی تھیں اور ایسے لگتا تھا کہ ان کے اندر بھٹو بول رہا تھا، وہی بھٹو جس نے سرنڈر نہیں کیا تھا ،محترمہ کا یہ روپ میرے ذھن میں تھا تو میں نے اسے سخن آسا کر دیا: کس نے لہو گرا کے مٹایا نشان بھی سورج کے ساتھ ڈوب گیا آسمان بھی حاکم نے اپنے خوف سے اس کو مٹا دیا تلوار بنتی جاتی تھی اس کی زبان بھی دوسرا تذکرہ مجھے اپنے محبوب شاعر منیر نیازی کا کرنا ہے کہ 26دسمبر ان کی برسی کا دن ہے ان کی بیگم ناہید نیازی ہر برسی پر قرآن خوانی کرواتی ہیں اور دعا ہوتی، اس مرتبہ مگر کورونا کے خدشے کے باعث شاید اسے محدود کر دیا گیا ہے ان کا فون آیا تومیں نے بھی انہیں یہی مشورہ دیا تھا۔ منیر نیازی جیسا کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ میں نے تو ان کے ساتھ بہت وقت گزارا کہ یونیورسٹی کے دور ہی میں ہمیں ان کا کریز تھا پھر ان کے قریب آئے تو آتے چلے گئے۔ دوست کہتے ہیں اور ان کی بیگم بھی کہ میں ان پر ساری یادیں تحریر کروں۔ انشاء اللہ۔ منیر نیازی کے تخلیقی کام کو سمجھنے کے لئے ان کی ایک لاجواب غزل دیکھنی ضروری ہے جس میں سے صرف دو شعر میں لکھ دیتا ہوں کہ آپ کو پتہ چلے کہ تخلیقی بے چینی ہوتی کیا ہے: بے چین بہت پھرنا گھبرائے ہوئے رہنا اک آگ سی جذبوں کی دہکائے ہوئے رہنا یہ حسن کا شیوہ ہے جب عشق نظر آئے پردے میں چلے جانا شرمائے ہوئے رہنا ایک شعر منیر نیازی کی بحر میں ان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے: جو آنکھیں سوالی ہوں اور خوابوں سے خالی ہوں ان آنکھوں کی قسمت ہے پتھرائے ہوئے رہنا بہت کم لوگوں کو پتہ ہو گا کہ منیر نیازی لال سرخ سیب کے رنگ کا پٹھان ہیرو بننے آیا تھا۔ آواز کا مسئلہ تھا اور ڈبنگ مشکل تھی۔ ظاہر خوبصورت رعنا نوجوان کا اندر اتنا ہی خوبصورت تھا۔ جوڑے کو راج ہنس کا جوڑا کہا جاتا تھا۔ پھر آنٹی صغریٰ کی وفات کے بعد محترمہ ناہید ان کی بیوی بنیں تو انہوں نے ساتھ نبھانے کا حق ادا کر دیا۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے محترمہ ناہید منیر نیازی نے تو اپنے میاں کے ساتھ عشق کیا۔ ان کے گھر کے سارے کام سنبھال لئے اور انہیں آسودگی فراہم کی۔ نیازی صاحب کی وفات کے بعد بھی ان کے کام کی اشاعت وغیرہ اور ان کی یاد میں تقاریب وغیرہ کروانے میں مصروف ہیں اور اب تک ہیں۔ انہیں منیر نیازی کے اشعار تک یاد ہیں وہ ہمیں ان کی نعت کا شعر اکثر سناتی ہیں: میں جو اک برباد ہوں آباد رکھتا ہے مجھے دیر تک اسم محمدؐ شاد رکھتا ہے مجھے چلیے آپ کو ان کا ایک دلچسپ واقعہ سناتے ہیں کہ ایک مرتبہ انہوں نے کہیں جانا تھا تو کلف دیے ہوئے کپڑے زیب تن کئے اور باہر رکشے کو کھڑے دیکھا تو سوار ہونے کے لئے آگے بڑے مگر رکشے والا دوسری جانب متوجہ تھا او کوئی خاتون رکشے میں سوار ہو چکی تھی رکشے والے نے رکشہ چلا دیا نیازی صاحب سوار ہو رہے تھے گرتے گرتے بچے۔ رکشے والے کو برا بھلا کہنے لگے۔ دیکھتے ہیں کہ رکشے کے پیچھے لکھا تھا: اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو نیازی صاحب کی یہ غزل بھی کمال کی ہے: آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محلفوں کی دھول عبرت سرائے شہر ہے اور ہم ہیں دوستو لکھنے کے لئے اتنا کچھ ہے کہ کئی کالم لکھوں تو کم ہے۔ ان کے شعر منفرد ہی نہیں دل میں کھبنے والے ہیں کہ اپنے ساتھ ایک فضا لے کر آتے ہیں: صبح کاذب کی ہوا بس درد کتنا تھا منیر ریل کی سیٹی بجی اور دل لہو سے بھر گیا جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر غم سے پتھر ہو گیا لیکن کبھی رویا نہیں انہوں نے اپنی اردو اور پنجابی شاعری سے ایک عہد کو اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا ۔شاعری تو ایک طرف ان کی زبان سے نکلا ہوا فقرہ بھی پورے شہر میں گھومنے لگتا تھا۔ وہ ایک پیارا من موہنا اور بانکا شخص تھا ۔اپنی ہر شخص سے منانے والا۔ مشاعرے کی مجبوری تو وہ تھے، ایک دن گاڑی رکوا کر مجھ سے مخاطب ہوئے سعداللہ شاہ! بتائو میرے بغیر کوئی مشاعرہ سجتا ہے۔ میں نے کہا ہرگز نہیں ،کہنے لگے گاڑی چلائی جائے۔ ہائے ہائے کیا کیا باتیں ہیں سنانے والی۔ ان کے ایک شعر کے ساتھ کالم تمام کرتے ہیں: رنج فراق یار بھی رسوا نہیں ہوا اتنا میں چپ ہوا کہ تماشا نہیں ہوا