بے چارے غریب سیاستدانوں پر لکھتے ہوئے۔ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے۔ عالم اسلام کی پہلی منتخب وزیراعظم بے نظیربھٹو کے صاحبزادے برخوردار بلاول بھٹو زرداری کے ذمے یاڈالے گئے ایک ارب57 کروڑ کے اثاثوں کاذکر کرتے ہوئے افسردگی غالب آگئی تھی۔آئندہ کالم میں ہمارے نااہل ہونے والے وزیراعظم کی صاحبزادی بی بی مریم نواز کی جانب آناتھا۔۔ مگر فی الوقت تو دہری افسردگی کاشکار ہوں۔ ایک تو نصف صدی سے بھٹوز کے گڑھ لیاری میں جوناروا اور متشددانہ سلوک بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ ہوا۔ اس کے وہ اپنی ذات کے حوالے سے مستحق نہ تھے کہ ایک تو وہ پہلی بار انتخابی میدان میں اترے ہیں پھر گزشتہ دس سال سے اصل میں تو حکومت ان کے والد سابق صدر محترم آصف علی زرداری اور ان کی پھو پھی محترمہ فریال تالپور کی ہی تھی۔ میرے بزرگ قائم علی شاہ اور نوجوان متحرک مراد علی شاہ تو سندھ کے وزیراعلیٰ ہوتے ہوئے محض ’’ربر اسٹیمپ ہی تھے‘‘ مگر سیاست میں ورثے میں زمینیں، حویلیاں، کروڑوں اربوں روپے ہی نہیں ملتے۔ عزت شہرت یا پھر نفرت اور انتقام بھی ملتا ہے اور جس کا پھر حساب بھی دینا پڑتاہے۔ برخوردار بلاول بھٹو زرداری کے ارد گرد اگر تنخواہ دار میڈیا منیجر اور غلامانہ ذہنیت کے مالک مشیران کے بجائے اگر واقعی لیاری کے حقیقی جیالے ارد گرد ہوتے تو انہیں وہ نیک نیتی سے مشورہ دیتے کہ برخوردار چیئرمین کو اپنی انتخابی مہم کاآغاز کم از کم لیاری سے نہیں کرناچاہئے تھا۔اتوار یکم جولائی کی شام مٹھی بھر یعنی بیس، پچیس، شر پسندوں نے پی پی چیئرمین کے قافلے پر پتھراؤ نہیں کیا۔ یہ لاوا سال دو سال نہیں دہائی اوپر سے پک رہاتھا۔ اکتوبر2007ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو پرجوخودکش حملہ ہواتھا اور اس میں جن 157جیالوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیاتھا۔ اس میں 125کا تعلق لیاری سے تھا۔ یہ وہ125شہید جیالے تھے جن کے باپ، دادا، پردادا بلکہ مائیں،نانا، پڑنانا ہر کڑے وقت میں’’بھٹوز‘‘ کی ڈھال بن جاتے تھے۔۔ پیپلزپارٹی کے قیام سے لے کر نصف صدی میں جتنی لیاری کے جیالوں نے بے روزگاریاں، کال کوٹھڑیاں اور جانیں دیں وہ شاید سارے ملک کے جیالوں نے نہیں دی ہوں گی۔ اس لئے اتوار یکم جولائی کو ہونے والا رد عمل بھی شدید تھا۔ مگر اسے بھی محض مستقبل میں ہونے والے مزاحمت، ردعمل کا ٹریلر یا جھلک سمجھنا چاہئے اور پھر ایسا تو محض نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پر ہی کیا منحصر ہے۔ سندھ کا کونسا ایسا حلقہ نہیں جہاں تیر کا نشان لے کر سرمست وسرشار، نامزد امیدواروں کو۔۔ ایسی ہی ہزیمت اور مزاحمت کاسامنا کرناپڑرہاہے۔ برسہا برس ہوگئے۔ مشکل سے ذہن پر زور ڈالنے کے بعد یاد آرہاہے کہ ہر انتخاب میں کامیاب ہونے والے مزاری قبیلے کے ایک سردار نے بڑی رعونت سے اپنے حلقے کے مزارعے اخبار کے نمائندوں کی سرزنش کرتے ہوئے کہاتھا۔ میراووٹر نہ تمہارا ٹی وی دیکھتا ہے نہ اخبار، جو مرضی چاہو لکھو۔ بولو۔ وہ نہ سنتا ہے نہ پڑھتاہے۔۔۔ اسی مزاری قبیلے کے سردار جب گزشتہ ہفتے اپنے حلقے میں گئے تو ان کی پراڈوگاڑی کو مقامی مزارعوں نے گھیر لیا۔ خبر کے مطابق بڑی مشکل سے جان چھڑائی۔ ہمارے دوست پی پی سندھ کے صدر نثارکھوڑو، رکن قومی اسمبلی نوید قمر سمیت درجنوں نمائندوں کو اسی مزاحمت کا سامنا کرناپڑا۔۔۔۔ سندھ کے شہری علاقوں کی بے تاج بادشاہ جماعت متحدہ قومی موومنٹ جس کے سیکٹر کے ایک عام رکن کے اشارے پر علاقے میں’’پتہ‘‘ ہلتاتھا۔۔ آج جب اپنے قائد کی دیوقامتی سے محروم ہوئے ہیں تو جگہ جگہ ان کے امیدواروں کو۔۔۔ ’’گوگو‘‘ کے نعروں کاسامنا ہے۔۔۔ اور تو اور کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ30سال سے کراچی کی سڑکوں پر دندناتے پھرتے ڈاکٹرفاروق ستار کو جمعہ کی نماز میں جوتے اور سر دونوں بچانا مشکل ہوگیا۔۔ ادھر پنجاب میں صورت حال کچھ کم مختلف نہیں۔۔۔ اپنے حلقے سے سات بار منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو بھی اپنے حلقے میں پہلی’’انٹری‘‘ پر ہی۔۔صلواتوں کا سامنا کرناپڑا۔۔ اگر صرف تین دن کے اخباروں کی خبروں کو ہی لکھنا شروع کروں تو کالم کا دامن چھوٹا پڑجائے۔۔ اور پھر اللہ خیر کرے، ابھی تو ’’پارٹی‘‘ شروع ہوئی ہے۔ دعا اور خواہش ہے کہ بات زبانی کلامی رہے۔۔ کہ آثار اچھے نظر نہیں آرہے اور ہاں جو ابتداء میں دہرے دکھ یا افسردگی کاذکر کیاتھا اور اس میں نوجوان چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ اپنے سابق وزیراعظم محترم نواز شریف کی صاحبزادی بی بی مریم نوا ز کاذکر کیاتھا۔۔۔ تو یقین جانیں۔۔۔ تین دہائی سے پنجاب پر راج کرنے والے شریف خاندان کی تیسری پیڑھی کی یہ خاتون2013ء کے سیاسی منظرنامے میں سامنے آئیں تو جاتی امراء سے حقیقتاً ایک تازہ ہوا کاجھونکا آتالگا۔۔۔۔ اور پھر سال بھر سے اپنے والد کے کڑے وقت اور اپنی والدہ کی شدید بیماری میں جو انہیں پرعزم اور پر جوش دیکھا تو لگا کہ شاید پنجاب کو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی تبدیلی کی ضرورت نہ پڑے۔ لیکن جب بلاول بھٹو زرداری کی طرح ان کے ذمے لگائے اور ڈالے گئے اثاثوں میں نظرڈالی تو اس مصرعے کو (میرے منہ میں خاک) محاورے کی زبان میں ہی لیجئے گا۔ ہمیں تو موت ہی آئی شباب کے بعد دیکھیں جو ان رعنا بی بی مریم پر اثاثوں کے نام پر کیسے کیسے بوجھ ڈالے گئے ہیں، باقاعدہ حلفیہ تسلیم کرتی ہیں۔ وہ چوہدری شوگر ملز، حدیبیہ پیپرملز، حدیبیہ انجینئرنگ پرائیویٹ لمیٹڈ، حمزہ اسپننگ اور محمد بخش ٹیکسٹائل مل میں شیئر ہولڈر ہیں، 1506کنال زرعی زمین کی مالک بھی ہیں، انہوں نے اپنی فیملی کی زیر تعمیر فلور ملز میں34لاکھ روپے کی سرمایہ کاری بھی کررکھی ہے، سوفٹ انرجی پرائیویٹ لمیٹڈ کو70لاکھ روپے قرض دیاہواہے، مریم نواز کو 4کروڑ 92لاکھ روپے کے تحائف ملے جبکہ ان کے پاس ساڑھے17لاکھ روپے کے زیورات ہیں، کاغذات نامزدگی کے مطابق مریم نواز کی زرعی زمین میں گزشتہ تین سال کے دوران548 کنال کا اضافہ ہواہے، انہوں نے غیر ملکی دوروں پر64لاکھ روپے خرچ کئے۔ مریم بی بی اپنے بھائی حسن نواز کی 2کروڑ89لاکھ روپے کی مقروض بھی ہیں۔ دولت وثروت کی یہ مقروض مریم نواز کی ہوشربا داستان یہیں ختم نہیں ہوتی اور پھر ان کے والد محترم اور بھائی اور ہاں بلاول اور بی بی مریم کے بعد آئندہ اپنے خان صاحب کی بھی باری ہے۔ (جاری ہے)