مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے کہا ہے: پاکستان کا پہلا سرٹیفائیڈ، جھوٹا اور سند یافتہ چور ناقابل تردید ثبوتوں کے ساتھ نا اہل ہوا ہے۔مزید کہا : اس کی سزا صرف نا اہلی پر ختم نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس کو گرفتار کر کے قانون کے سامنے پیش کر کے لوٹا پیسہ واپس لینا چاہیے۔ کچھ دن پہلے مریم نواز نے یہ بھی کہا تھا:نواز شریف معصوم تھا جو سزائیں نواز شریف نے بھگتیں، وہی سزائیں اس کو بھی بھگتنی پڑیں گی۔ توشہ خانہ ریفرنس میں پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف الیکشن کمیشن نے انھیں آرٹیکل 631P کے تحت نا اہل قرار دیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان صاحب پہلے ہی اسمبلی سے استعفیٰ دے چکے تھے لہٰذا ان کی سیاسی حیثیت کچھ زیادہ متاثر نہیں ہو گی۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے آنے والے اس فیصلے کے کچھ دیر بعد ہی بغیر کسی کال کے پی ٹی آئی کے ورکرز اور عوام سڑکوں پر نکل آئے اور مختلف شہروں میں احتجاج شروع ہو گیا۔ اس ساری صورتِ حال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کی تیرہ جماعتیں مل کر بھی سیاست کے میدان میں عمران خان صاحب کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔ توشہ خانہ ریفرنس کے ذریعے ان پر یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ انھوں نے تحائف کی تفصیلات دانستہ طور پر چھپائیں اور کرپٹ پریکٹس کے مرتکب ہوئے اور ان کے خلاف فوجداری کارروائی کی جائے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے الیکشن کمیشن کو تحریری جواب میں بتایا کہ انھیں اور ان کی اہلیہ کو اگست 2018ء سے لے کر دسمبر2021ء کے دوران 58 تحائف ملے۔ عمران خان نے طے شدہ طریقہ کار کے تحت بطور وزیر اعظم چار تحفے فروخت کیے جن کی رقم دو کروڑ سولہ لاکھ روپے سرکاری خزانے میں جمع کر وادی۔ یوں ان کے اوپر کرپشن کا الزام غلط قرار دیا جائے، اب جبکہ عمران خان کے خلاف فیصلہ آچکا تو ملک کی دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کی توشہ خانہ سے لی گئی قیمتی کاروں کا ریفرنس بھی نہایت اہم ہو گیا ہے۔دوسرے نیب ریفرنس کے مطابق جب یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے تو انھوں نے قانون میں لچک پیدا کر کے سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو توشہ خانہ سے گاڑیاں خریدنے کی اجازت دے دی۔ پچھلے دس سالوں سے یہ کیس التوا میں پڑا ہے جن کے بارے میں نیب کا کہنا ہے کہ آصف زرداری نے بی ایم ڈبیلو، لیکس جی جیسی قیمتی گاڑیوں کی قیمت مبینہ منی لانڈرنگ والے جعلی بینک اکاؤنٹ سے ادا کی ہے۔ وزیر اعلی پرویز الہٰی پنجاب بھی اس فیصلے کو نامنظور کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان کے سب سے مقبول لیڈر کو یوں نا اہل کرنا دراصل طبل جنگ بجانے کے مترادف ہے۔ ہمارے ملک کی وہ قوتیں جو فیصلے کرتی ہیں وہ اس بات کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہے کہ ایسے ہتھکنڈوں سے ملک میں عدمِ استحکام مزید بڑھے گا۔ توشہ خانہ دراصل ایک ایسا سرکاری محکمہ ہے جہاں دوسرے ممالک کے دوروں پر جانے والے حکمرانوں اور اعلیٰ عہدیداروں کو ملنے والے قیمتی تحائف جمع کیے جاتے ہیں۔ کابینہ کی منظوری سے انھیں فروخت کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے قانون کے مطابق تیس ہزار سے کم مالیت کے تحفے حاصل کرنے والا شخص تحفے مفت میں اپنے پاس رکھ سکتا ہے لیکن جن تحفوں کی قیمت اس سے زائد ہوانھیں مقررہ قیمت کا پچاس فی صد جمع کرو کے اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ اگر سربراہانِ مملکت یہ تحفے نہیں رکھتے تو انھیں سرکاری ملازمین اور فوج کے افسروں کو نیلامی کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ تحفوں کی نیلامی کی قیمت کا تعین FBR اور سٹیٹ بینک سے کروایا جاتا ہے۔ کوئی فوجی اور سرکاری ملازمین ان تحفوں کو خریدتے ہیں تو انھیں اپنے ذرائع آمدن بتانے کے ساتھ ان پر لاگو ٹیکس بھی ادا کرنا ہوتا ہے۔ بلاول زرداری کہہ رہے ہیں کہ عمران کے خلاف بہت ایسے ثبوت ہیں جن پر انھیں سزا ملنی چاہیے۔ جب تک عمران خان سلیکٹڈ اور لاڈلہ تھا تو کسی میں ہمت نہ تھی کہ اس کو سزا دیں۔ بلاول سے پوچھنا چاہیئے کہ وہ خود کس کے لاڈلے ہیں؟ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب عمران خان لانگ مارچ کی کال دینے والے تھے۔ اس ملک میں مزید افراتفری پھیلے گی۔ افسوس ہے پچھتر سال گزرنے کے بعد بھی ہمارے ملک میں استحکام نام کی کوئی چیز نہیں۔عمران خان اب اپیل لے کر ہائی کورٹ میں جائیں گے۔ افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں بدلے کی سیاست ایک روایتی انداز ہے جس نے ملک کو ایسے سیاسی بحران میں داخل کردیا جہاں سے بآسانی نکلنا مشکل نظر آ رہا ہے۔ بدلے کی سیاست کے یہ ناخوشگوار گوشے آخر کب تک بھولے عوام کو مبتلائے فکر رکھیں گے۔ نہ جانے اور کتنے عشروں تک ہم سیاسی بھول بھلیوں جیسی پچیدگیوں سے نبرد آزما رہیں گے۔ بدلے کی سیاست کو اب ختم ہونا چاہیے۔ موجودہ صورت حال میں جب پاکستان کی معیشت بسترِ علالت پر ہے، تو ایسے میں یہ سیاستدان معیشت اور تعلیم کے شعبوں کو مزید پیچھے ہی دھکیل رہے ہیں۔ ضمنی انتخابات سے پہلے اسحاق ڈار کو بلایا گیا کہ وہ اکانومی ٹھیک کریں گے۔ در حقیقت یہ نون لیگ کی خام خیالی تھی کہ ڈار ایک بار پھر مصنوعی طریقے سے ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کر لیں گے اور یوں وہ ضمنی انتخابات جیت جائیں گے۔ لیکن عوام اب ان کی اصلیت جان چکے ہیں اور انھوں نے ان دونوں پارٹیوں کو مسترد کرتے ہوئے عمران خان کو آٹھ میں سے چھ سیٹوں پر کامیابی دلوائی۔ عوام جانتے ہیں کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی ملک کی خاطر نہیں بلکہ اپنے مقدمات ختم کرنے کے لیے حکومت میں آئے تھے۔ آخر پاکستان میں بدلے کی سیاست کب ختم ہو گی؟