محبت کسی قانون کی پابند نہیں ہوتی یہی اس کی سب سے بڑی کمزوری بن جاتی ہے۔ وطن اور ہم وطنوں کی محبت کا معاملہ بھی کچھ مختلف نہیں۔ اسی جذبے کے زیر اثر 12اپریل کو بے تیغ لڑنے والے مجاہد کے عنوان سے انہی صفحات پہ کالم لکھا۔ مضمون شائع ہونے کے بعد دوستوں کی طرف سے واہ واہ کے کمنٹس اور عام قاری کی جانب سے تعریفی اور تنقیدی کلمات بھی معمول کی بات ہے۔ اس لیے کالم کے بعد ایک قاری کی تنقید بھی اس معمول کی نذر ہو گئی۔ ایک ماہ کے بعد گزشتہ روز ڈاکٹر ظفر مرزا کے اس بیان کے بعد’’ جلد ملک بھر سے ایک لاکھ میڈیکل اور پیرامیڈیکل سٹاف کو پی پی ایز کے استعمال کی تربیت دیں گے‘‘ناقد کے الفاظ ذہن میں گھومنے لگے اور مرزا غالب یاد آئے کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا ڈاکٹر ظفر مرزا کے اعلان کے بعد ضمیر پر بوجھ بڑھتا گیا۔ آپ بھی ان کمنٹس پر غور کریں: ’’صاحب میں ایک ڈاکٹر ہوں آپ کی طرح لفظوں سے کھیلنا نہیں آتا سیدھی بات کروں گا۔ ’’آپ نے ڈاکٹر اسامہ ریاض کے نام سے ہسپتال بنانے کا لکھا مہربانی۔ کورونا کے خلاف جہاد میں شہید ہونے والے ڈاکٹروں اور میڈیکل سٹاف کے نام پر ہسپتالوں میں وارڈز بنانے اور ان کی تصاویر نمایاں مقامات پر آویزاں کرنے کی تجویز دی آپ کے جذبات قابل ستائش۔ گستاخی نہ ہو تو اس کم فہم کے علم میں اضافہ فرمائیں کہ کون سے ملک کا وہ کون سا جنرل ہے جو اپنے سپاہیوں کو بغیر ہتھیار کے جنگ کی آگ میں جھونک دیتا ہے اگر بندوق دیتا ہے تو چلانے کی تربیت ضروری نہیں سمجھتا ۔کاش آپ نے لکھنے سے پہلے کورونا اور اس کے علاج کے بارے میں تحقیق کی زحمت کی ہوتی تو آپ کو ڈاکٹر طاہر خلیل کورونا کے خلاف بے تیغ لڑنے والے مجاہدوں کے سپہ سالار سے زیادہ سفاک قاتل نظر آتے۔ چلئے اب ہی گوگل کر کے جاننے کی کوشش کرلیں کہ پاکستان اور باقی دنیا میں فرق کیا ہے ۔ کیا باقی ممالک بھی اس طرح اپنے مسیحائوں کو بغیر حفاظتی تدابیر اور ضروری تربیت کے جنگ میں جھونک رہے ہیں‘‘ڈاکٹر ظفر مرزا کی میڈیکل سٹاف کو پرسنل پروٹیکشن ایکوئپمنٹ کے استعمال کی تربیت دینے کی بات سن کر فورا اپنے فیملی ممبر ڈاکٹر انصر جو عارف والا میں قرنطینہ سنٹر میں ڈیوٹی دے رہے ہیں، سے پی پی ایز کے استعمال کرنے کی تربیت کی اہمیت کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میڈیکل سٹاف کے کورونا کے انفیکشن کے شکار ہونے کی 70فیصد وجہ پی پی ایز کو اتارتے وقت مناسب تربیت نہ ہونے کی وجہ سے بے احتیاطی ہوتی ہے۔ انصر ڈیوٹی پر تھے زیادہ تفصیل سے بات نہیں ہو سکتی تھی انہوں نے میوہسپتال کے وائی ڈی اے کے صدر ڈاکٹر محمود سے بات کرنے کو کہا۔ میوہسپتال میں ڈاکٹر محمود سے رابطہ کیا اور رہنمائی کی گزارش کی تو محمود نے پہلا سوال الٹا مجھ پر ہی داغ دیا کہ جناب آپ نے کبھی اس بات پر غور کیا کہ کورونا کی وبا چین کے شہر ووہان سے شروع ہوئی تو ہفتوں نہیں دنوں میں مریضوں کی تعداد ہزاروں سے لاکھوں میں پہنچ گئی ۔چین کے بعد ایران اس کا شکار ہوا تو چند ہفتوں میں ہزاروں مریض اور سینکڑوں اموات سامنے آئیں۔ ایران کے بعد اٹلی پھر سپین سے یورپ اور امریکہ دنیا بھر کے ممالک میں کورونا کے پھیلائو کی رفتار اور اموات کی تعداد کا پاکستان سے مواز نہ کیا؟ آخر پاکستان اور بھارت پر ہی کورونا اس قدر مہربان کیوں ہے کہ امریکہ میں مریضوں کی تعداد لاکھوں اور اموات ہزاروں میں پہنچ گئی مگر پاکستان میں گزشتہ تین ماہ کے بعد بھی اموات 800اور مریضوں کی تعداد 38ہزار تک ہے؟ بھائی کورونا پاکستانیوں پر مہربان نہیں بلکہ آپ کے پاس ٹیسٹ کی سہولت ہی نہیں۔اموات اگر ہو بھی رہی ہیں تو ٹیسٹ رپورٹ کے بغیر ان کو کورونا کے کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ اب علاج کی بات کرتے ہیں تو پہلے یہ سمجھ لیں کہ چین یورپ اور امریکہ میں کیسے علاج ہو رہاہے اور ہم کیا کررہے ہیں۔ ووہان میں کورونا کی وبا پھوٹی تو پورے چین سے ڈاکٹر ووہان پہنچائے گئے ڈاکٹرز کی کمی نہیںتھی اس کے باوجود ایک ڈاکٹر نے سات دن مسلسل ڈیوٹی کی اور ڈیوٹی کے دوران ڈاکٹر کو گھر جانے کی اجازت نہ تھی سات دن کے بعد ڈاکٹر کا کورونا کا ٹیسٹ لیا جاتا اور دو ہفتے کے لئے قرنطینہ میں بھیج دیا جاتا ،ٹیسٹ منفی آنے کی صورت میں ڈاکٹر اپنے بچوں اور گھر والوں سے مل سکتا تھا ۔یورپ اور امریکہ میں بھی انہیں ایس او پیز پر عمل ہو رہا ہے۔ ہم کیا کر رہے ہیں ؟ڈاکٹر کو آٹھ گھنٹے کورونا کے مریضوں کے پاس بھیجا جاتا ہے اس کے بعد گھر ۔ اگلے دن پھر یہی معمول ڈاکٹرز تو پڑھے لکھے ہیں خود احتیاط کر لیتے ہیں ظلم تو پیرامیڈکس خاص طور پر خاکروب اور وارڈبوائیز کے ساتھ ہو رہا ہے جن کو حفاظتی سامان تو دور کی بات ماسک تک نہیںدیا جارہا ہے۔ ڈاکٹر محمود نے بتایا کہ دنیا بھر کے ایس او پیز کے مطابق ہسپتالوں کو تین لیولز میں تقسیم کیا جاتاہے لیول ون او پی ڈی لیول ٹو ایمرجنسی اور لیول تھری کو کورونا آئسولیشن وارڈ۔ تمام لیولز پر کام کرنے والوں کے اس ایس او پیز عالمی سطح پر طے کر دیے گئے ہیں۔ ہمارے ہاں بلا شبہ لیول تھری پر پی پی ایز مہیا کی جا رہی ہیں مگر تربیت نہیں کی جاتی۔ لیول ون اور لیول ٹو پر ڈیوٹی کرنے والے ڈاکٹروں کو پی پی ایز نہیں دی جارہیں خاص طور پر سویپرز اور چھوٹے ملازمین کے پاس تو سرجیکل ماسک بھی نہیں ہیں۔ جہاں جہاں سامان ہے وہاں بھی ان کے استعمال کی ٹریننگ نہ ہونے کی وجہ سے میڈیکل سٹاف کورونا وائرس سے انفیکٹ ہو کرہیومن بم بن چکا ہے۔ ہسپتال سے گھر جاتا ہے تو گھر والوں کو متاثر کرتا ہے۔ گھر والے آگے یہ سوغات بانٹ رہے ہیں۔ میڈیکل سٹاف کے ساتھ اس سے بڑی زیادتی کیا ہو سکتی ہے کہ جو لوگ کورونا آئسولیشن وارڈ میں ڈیوٹی کرتے ہیں ان کے ٹیسٹ نہیں کئے جا رہے۔ جن میں علامات ظاہر ہو رہی ہیں وہ بھی نجی لیبارٹریوں سے ٹیسٹ کرواتے ہیں۔ پوچھا کہ آپ انتظامیہ سے مطالبہ اور احتجاج کیوںنہیں کرتے تو انہوں نے میر درد کا شعر سنا دیا ان لبوں نے نہ کی مسیحائی ہم نے سو سو طرح سے مر دیکھا ڈاکٹر محمود نے بتایا کہ ماضی میں جب ڈاکٹر ہڑتال کرتے تھے تو میڈیا کے کیمرے دن رات ڈاکٹروں کے احتجاج پر واویلا کرتے تھے خادم اعلیٰ ڈاکٹروں کو معاشرہ کے ماتھے کا جھومر کہتا اور جائز مطالبات تسلیم کر لئے جاتے مگر جب سے ملک میں انصاف کا بول بالا ہوا ہے شفافیت کا یہ عالم ہے کہ کورونا کے بعد ڈاکٹر ہفتوں تک ہڑتال پر بیٹھے رہے مگر کیمرے کی آنکھ کو دکھائی نہ دیے مجبوراً بے تیغ جنگ میں کود پڑے۔ حکومتی اقدامات دعوئوں اور وعدوں سے زیادہ کچھ نہیں پنجاب میں میاں شہباز شریف کے دور میں ایڈز اور ہیپاٹائٹس کی تشخیص کے لئے جو بائیو سیفٹی لیبارٹریزبنائی گئیں تھیں ان کو ہی اپ گریڈ کر کے کورونا کے ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں جس میں کوئی حرج نہیں ۔مگر ترتیب اور معیار کے فقدان کی وجہ سے ٹیسٹوں کی رپورٹ میں پانچ سے سات دن لگ جاتے ہیں جن کی وجہ سے مریض کو 14کے بجائے 21دن تک ہسپتال میں رکنا پڑتا ہے اس صورتحال پر تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ نہیں معلوم مسیحا مجھے کیا دیتا ہے زہر دیتا ہے کہ کم بخت دوا دیتا ہے